قائد اعظم محمد علی جناح نے جب تحریک پاکستان کا آغاز کیا
تو اس وقت برصغیر میں دو قومیں کی کثرت تھیں ان میں ایک ہندو مذہب سے تعلق
رکھنے والے ہندو تھے دوسر اسلام سے تعلق رکھنے والے مسلمان ۔۔۔انگریز حکومت
اس خطے سے واپس انگلستان جانے کیلئے تیار ہوگئے تو ہندو جماعتوں نے اکثریتی
بنیاد پر ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے انگریز حکمرانوں سے سازبازیاں
کرنی شروع کردیں اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک ہوگئے، ابتدا میں
لاءاینڈ بیرسٹرکی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قائد اعظم نے بمبئی میں وکالت
شروع کردی اور کانگریس سیاسی جماعت میئں شامل ہوگئے۔ جب قائد اعظم نے
بھانپا کہ ہندو کانگریس کے ذریعے صرف ہندوؤں کے حقوق کی جانب بہت جھکی ہوئی
ہے تب کانگریس کا چھوڑ کر مسلمانوں کے حقوق کیلئے مسلم لیگ کا قیام عمل میں
آیا۔مسلمانوں کی جدوجہد کو ابھارنے کیلئے ، حقوق کیلئے ، بہتر انسان بنانے
کیلئے سب سے پہلے سرسید احمد خان، مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی
جوہرکی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔۔ان کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں آزادی
کی جلا بخشی گئی اور اس جلا کو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی
شاعری نے تقویت دیتے ہوئے دو قدم آگے نئی ریاست کا مطالبہ کرکے بھارت کے
مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مشن بیدار کردیا، آپ کے اس مشن میں پورے
بھارت کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے جانوں، مال ، عزت ہر شے کی
قربانی دیں۔ سب کچھ چھوڑ کر موجودہ پاکستان اور سابقہ مشرقی پاکستان میں
آباد ہوئے۔سندھ کے لوگوں نے ان کی قربانیوں کو سمجھا اور انہیں نہ صرف عزت
سے نوازا بلکہ انصار کی طرح رویہ اختیار کیا ۔ بحر حال ماضی واقعی بہت اچھا
تھا مخلص، سچے، ایماندار اور محب وطن لوگ تھے لیکن ابھی بھی ایسے لوگوں سے
پاکستان خالی نہیں ہے مگر چند مافیا کی بدولت پاکستان اس وقت جن حالات سے
گزررہا ہے اسے ہم سب نے باہر لانا ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں اُن میں قوموں
کے حق تلفی سر فہرست ہے ۔۔ ہندوؤں سے حق تلفی کا حوف تھا تو پاکستان وجود
میں آیااب پاکستانی مختلف قوموں کی حق تلفیاں مسلسل جاری ہیں یقینا یہ عمل
پاکستان اور ریاست کیلئے زہر انگشت کے مترادف ہے۔ بحیثیت مسلمان اور
پاکستانی آئین کے مطابق تمام پاکستانی قوم بشمول علاقائی اقوام کا حق ریاست
کے سربراہان کے ذمہ ہے اپنی سیاست کو چمکانے اور مفادات کو حاصل کرنے کیلئے
ہمیشہ سیاسی لیڈروں نے جھوٹے خواب دکھائے ہیں ، کسی کو حد درجہ مراعات بخشی
گئی ہیں تو کسی قوم کو مکمل محروم کردیا گیا ہے ، ریاست کا یہ غیر متوازن
طریقہ کار پاکستان کو مستحکم ہونے نہیں دے رہا ہے ۔۔۔قائد اعظم محمد علی
جناح اور قائد ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جمہوریت کے پاسبان
اور حکمرانوں نے ہی پاکستان کے یونٹ کو ختم کرنے میں بھرپور سازشیں کیں،
مشرقی پاکستان اکثریتی بنیاد پر تھا اور وہ اپنے حقوق طلب کررہے تھے تو کیا
گناہ تھا کیا ان کا مطالبہ جمہوری نہیں تھا؟؟ پھر تاریخ نے رقم کیا کہ کیسے
مغربی پاکستان کے سیاسی ، بیوروکریٹس اور عسکری قیادتوں نے دو یونٹ کودو
لخت دو ٹکڑے کرڈالا۔۔۔ ممکن ہے کہ عسکری قیادت کو گمراہ کیا گیاہو لیکن یہ
تمام تر ذمہ داری اُس وقت کے حکمرانوں کی تھی۔ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان
میں جب بھی جمہوری حکومتیں بنیں وہ تمام تر دھوکہ، فریب اور جھوٹ کا پلندہ
ثابت ہوئیں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی
ان سب کا وطیرہ ہی رہا ہے اسی لیئے ان میں وطن عزیز پاکستان اور عوام سے
مخلص دکھائی نہیں دیتے۔۔۔ اس کی واضع حقیقت اس طرح نظر آتی ہے کہ بھارت جو
ہم سے صرف ایک دن کے فرق سے آزاد ہوا تھا ۔ بھارت نے اپنے مسائل کو مدنظر
رکھتے ہوئے کئی صوبوں بنائے تاکہ انتظامی اور نچلی سطح تک عوامی خدمات کا
دائرہ بڑھا دیا جائے، دنیا نے دیکھا کہ بھارت ہی کیا دنیا کے بیشتر ممالک
جنھوں نے ضرورت وقت کے تحت نئی اسٹیٹس اور صوبوں میں اضافہ کیا وہ آج ترقی
کی راہ پر گامزن ہیں ۔ان میں معاشی و اقتصادی، توانائی، سیاسی، مذہبی،
معاشرتی اور عسکری سطح پر نہ صرف مضبوط ہوئے بلکہ اپنی علاقائی قوموں میں
وطن کی عزت، محبت اور بھائی چارہ کو فروغ دیا۔ پاکستان میں مزید صوبوں کی
جب جب بات کی جاتی ہے تو مفادپرست، خود غرض لیڈر نہ صرف واویلہ مچاتے ہیں
بلکہ بلیک میلنک کرنے پر اتر آتے ہیں ، پاکستان اور پاکستانی اقوام کی
بہتری ،خوشحالی کی خاطر ایسے لیڈران پر سختی برتنی چاہیئے۔سیاسی لیڈران کی
منافقت ہمیں حالیہ الیکشن کی انتخابی مہم میں سابق صدر آصف علی زرداری
اورموجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور انکے بھائی میاں شہباز شریف نے
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تقسیم کے وعدے کیئے تھے ،اب کہاں گئے؟؟ حقیقت
تو یہ ہے کہ سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں مزید صوبوں کی تقسیم
ناگزیر ہوچکی ہے ،اس ضرورت کو جس قدر روکا جائیگا اتنا ہی ملک نا تلافی
نقصان سے دوچار ہوتا چلاجائیگا۔ صرف چند وڈیروں، چوہدریوں، خان اور سرمایہ
کاروں کی ذاتی مفادات کی بھینٹ اس ملک کو چڑھایا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان
کے وزیر اعظم نواز شریف ہیں اور صدر ممنون حسین بھی پاکستان مسلم لیگ نون
کے ہیں جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم
میاں نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف ہیں ،اِس وقت پاکستان مسلم لیگ
نون مکمل طور پر با اختیار ہے اور ایوان میں ممبران کی کثرت بھی رکھتی ہے
تو پنجاب کے مزید صوبوں کی تقسیم کو عملی جامہ کیوں نہیں پہنایا جاتا، آخر
اس میں کیا قباحت ہے؟؟ عوامی ضرورت کی حق تلفی کیوں کی جارہی ہے؟؟ پنجاب کو
تین صوبوں میں منقسم کرنے سے پنجاب کے عوام کو حق مل سکے گا اور نفرتوں کے
معاملات بھی ختم ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کیوں خاموش ہے ؟؟ کیا
عدالتوں کا کام عوام کے حقوق کو بہم پہنچانا نہیں ؟؟ تو پھر ان کے وعدوں ،
عہدوں جو پاکستان مسلم لیگ نون نے الیکشن سے قبل کیئے تھے عمل درآمد کیوں
نہیں کرایا جاتا؟؟ ووٹ کے حصول کیلئے عوام کو گمراہ کرنا، جھوٹ بولنا، وعدہ
خلافی کرنا کیا آئین کی خلاف ورزی نہیں ؟؟ کیا یہ یہ عمل غداری کے ضمن میں
نہیں آتا؟؟ کیا سیاستدانوں پر کوئی قانون نافظ نہیں ؟؟ تو پھر پاکستان
پیپلز پارٹی کیساتھ پاکستان مسلم لیگ نون کو کٹہرے میں لانا چاہئے اور
پوچھا جائے کہ عوام کو دھوکہ دیکر ووٹ کیوں لیا جاتا رہاہے اور ان کے وعدو
¿ں میں کس قدر صداقت رہی ہے؟؟ میرا نہیں خیال کہ کوئی سچ اور حق پر ہو،
یقینا یہ دونوں پارٹیاں بے بس اور قصور وار ثابت ہونگےں،ان کے دھوکہ دہی
ثابت ہونے پر ان سیاسی جماعتوں کیساتھ ایسی دیگر سیاسی جماعتوں کو کالعدم
قرار دے دیا جائے جو ووٹ کی خاطر عوام کو دھوکہ دیں ۔۔۔ صوبوں کی مزید
انتظامی تقسیم کرکے نئے صوبوں کا اجرا کیا جائے تاکہ چند خاندان اور چند
سیاسی لیڈرنسل در نسل غالب نہ رہیں اور حقیقی طور پر پاکستان جمہوری عملی
انداز میں نظر آسکے تاکہ مستحکم پاکستان ہی ہمارا روشن پاکستان ثابت ہوسکتا
ہے ۔۔۔۔٭٭٭ |