گزشتہ دنوں پاکستانی رینجرز اور بھارتی سرحدی محافظ فورس
یعنی بی ایس ایف کے درمیان پانچ روزہ اجلاس ہوا جس کے بعد اس کا اعلامیہ
جاری کیا گیا۔ اس طویل اجلاس میں پاکستان کی جانب سے ڈی جی رینجرز میجر
جنرل خان طاہر جاوید جبکہ بھارت کی جانب سے ڈائریکٹر بی ایس ایف لیفٹیننٹ
جنرل سبھاش جوشی نے نمائندگی کی۔ 5روزہ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں
جن اہم امور پر اتفاق کیا گیا، ان میں سے کچھ اہم نکات میں سرفہرست اور
نمایاں طور پر’’ سرحد پر غیرقانونی تعمیرات روکنے پر اتفاق‘‘ کا ذکر دیکھنے
کو ملا جبکہ دیگر نکات میں کہا گیا ہے کہ غلطی سے سرحد پار کر جانے والے
افراد کی فوری واپسی کے اقدامات کئے جائیں گے۔ بارڈر قوانین کے مطابق امن
کیلئے مزید کوششیں کی جائیں گی۔ سمگلنگ کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔ حساس
معاملات پر فوری فلیگ میٹنگ بلائی جائے گی۔ سرحد پر مشترکہ گشت ہو گا۔
سرحدوں پر نصب برجیوں کو قائم رکھا جائے گا۔دونوں طرف سے بلااشتعال فائرنگ
نہیں کی جائے گی، وغیرہ وغیرہ……
ان تمام معاملات اور نکات کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے
کہ 5دن کے طویل اجلاس و مذاکرات کے بعد بھی پرنالہ وہیں کا وہیں ہے کیونکہ
بھارت نے بین الاقوامی سرحد کے حوالے سے تو کئی باتیں کی ہیں لیکن جہاں
کہیں ہمارا بھارت کے ساتھ اصل تنازع ہے، اس کا ان لمبے چوڑے مذاکرات میں
کہیں تذکرہ نہیں کہ بھارت وہاں پر جاری اپنے ایسے مجوزہ غیرقانونی اقدامات
کے حوالے سے کیا کچھ کرے گا۔ خاص طور پر اس نے مقبوضہ جموں کے علاقے میں جو
ڈیڑھ سو کلومیٹر کے لگ بھگ طویل اور انتہائی چوڑی و بلند دیوار بنانے کا
اعلان کیا ہے، اس پر اس کی پالیسی کیا ہو گی؟ اور اس نے جو ساری کنٹرول
لائن پر زبردست باڑ لگا کر اور دیگر خوفناک جنگی، جاسوسی و دفاعی انتظامات
کر کے خطہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، اس کے
حوالے سے بھارت کیا کرے گا یا اس کا کیا موقف ہے؟ اس سب کا سارے مذاکراتی
عمل میں کہیں ذرا بھر تذکرہ سننے کو نہ ملا۔
اس بات سے کون نا واقف ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا تنازع بین الاقوامی سرحد
پر تو سوائے سرکریک کے اور کہیں ہے ہی نہیں، جس کا مذاکرات میں کہیں کوئی
نام تک نہیں لیا گیا۔ بین الاقوامی سرحد کے آرپار دونوں ممالک اپنی حدود
میں جو کچھ بنانا چاہیں یا توڑنا چاہیں، دنیا کا کوئی قانون انہیں روک سکتا
ہے، نہ ان پر کوئی قدغن لگا سکتا ہے۔ اصل مسئلہ تو سرکریک، کشمیر اور سیاچن
کا ہے جن پر نہ مذاکرات ہوتے ہیں اور اگر ہو بھی جائیں تو کبھی نتیجہ کی
معمولی ہوا بھی محسوس کرنے کو نہیں ملتی۔صرف سرکریک پر بھارت کے ساتھ ڈیڑھ
سو کے لگ بھگ جب کہ پانی کے مسائل پر بھی اتنے ہی مذاکراتی دور ہو چکے ہیں
لیکن ان کے بعد کبھی ایسا اعلامیہ سامنے نہیں آیا جیسا سرحدی محافظین کے اس
مذاکراتی دور کے بعد سامنے آیا ۔آخر کیوں؟جہاں تک خطہ کشمیر کا تعلق ہے اس
کو تو ساری دنیا متنازع مانتی ہے۔اور یہ بھات ہی تھا جو اس کو 1948میں خود
اقوام متحدہ لے کر گیا تھا اور اس نے خود منت سماجت کر کے یہ معاہدی کیا
تھا کہ اگر جنگ روک دی جائے تو وہ کشمیری قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے
کا اختیار دے گا ۔لیکن وہ ہماری کمزور پالیسی بلکہ تمام حکومتوں کی کشمیر
کش پالیسی سے اس قدر دلیر ہو ا کہ وہ نہ صرف اپنے وعدوں سے مکر گیا بلکہ اس
نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے کی رٹ شروع کرکے اس پر مستقل قابض ہو کر
بیٹھ گیا۔دنیا کے تمام قوانین و ضوابط کی رو سے حق یہ ہے کہ کشمیر کے آر
پار رہنے والے خطے کے باسیوں کو بلاروک ٹوک آنے جانے دینے پر کسی طرف سے
کوئی قدغن نہیں ہونی چاہئے جنہیں بھارت نے سختی سے روک رکھا ہے اور پاکستان
اس پر اول روز سے خاموش ہی ہے۔ برا ہو 1972ء کے شملہ معاہدے کا جس کے تحت
بھارت نے مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین وسیع سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن
قرار دلوا کر کئی مزید علاقے غصب کر لئے تھے جن پر اس نے جنگ دسمبر 1971ء
کے آخری دنوں میں قبضہ کر لیا تھا اور یوں قبضہ وسیع کر کے آرپار بسنے والے
کشمیریوں کو ہمیشہ کے لئے کاٹ دیا گیا۔ بھارت کی اول دن سے سب سے بڑی کوشش
یہی ہے کہ سیز فائر لائن اور پھر کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد بنا کر
کشمیر کے مسئلہ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جان چھڑا لے۔ اس کے تحت تو وہ یہ سب
کچھ کر رہا ہے۔ سرحدی محافظین کی میٹنگ میں اگر بحث کرنی ہے تو ان مسائل پر
کریں، جن میں بھارت کے ساتھ ہمارا تنازع ہے۔ اگر بھارت دیوار بنانے کا
سلسلہ شروع کر کے اسے کامیابی سے مکمل کر لیتا ہے تو یہ ہمارے لئے سخت
پریشانی اور کشمیر کے محاذ پر بھارت کے ہاتھوں عملاً شکست کا باعث ہو گی۔
مقبوضہ و آزاد کشمیر کے باسی عوام اور دنیا بھر میں پھیلی کشمیری قوم اس
وقت سب سے بڑھ کر اس دیوار پر سخت مضطرب اور اس کو روکنے کیلئے پاکستان
سمیت ساری دنیا کے سامنے اپنے مطالبات رکھ رہی ہے جنہیں کوئی سننے کیلئے
تیار نظر نہیں آتا۔ بھارت کے ساتھ اس سلسلے اور اس طرز کی اگلی میٹنگ چھ
ماہ بعد ہونا طے پائی ہے، اس سے پہلے پہلے دیواربرہمن سمیت تمام وہ متنازعہ
امور پوری شد و مد سے نمایاں کئے جائیں جو پورے خطے بلکہ امن عالم کے لئے
سب سے زیادہ خطرے کا باعث ہیں ورنہ جتنی مرضی بھی میٹنگیں ہو جائیں وہ
67سال کی تاریخ کی طرح لاحاصل ہی رہیں گی اور ہم ہمہشہ کی طرح بھارت کے
ہاتھوں ہزیمت اٹھا کر اپنا نقصان کرتے اور ملک کو خطرات سے دوچار کرتے ہی
رہیں گے۔ |