عام طور پر ہر معاشرے میں دو طرح
کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ جن کی زندگی اصول، قاعدوں اور ضابطوں کے گرد
گھومتی ہے اور دوسرے وہ جن کی زندگی میں اصول قاعدوں اور ضابطوں کی کوئی
حیثیت و اہمیت نہیں ہوتی، بااصول لوگ بااصول زندگی گزارتے ہیں، وہ کبھی بھی
بے اصولی، دھوکہ دہی اور منافقت سے سمجھوتہ نہیں کرتے، ہمیشہ ظالم و جابر
اور کفر طاغوت کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہیں، وقت انہیں اہل عزیمت کے نام
سے یاد کرتا ہے، تاریخ اُن کے اوراق زندگی محفوظ رکھتی ہے تاکہ آنے والے
زمانے اور نسلیں اُن کی روشن بااصول اور قابل تقلید زندگی کو مشعل راہ
بنائیں، اسی طرح بے اصول لوگ بھی تاریخ کا حصہ بنتے ہیں، تاریخ اُن کی بے
اصولی، ابن الوقتی اور موقعہ شناسی کو نشان عبرت اور ننگ دیں ننگ وطن کے
طور پر محفوظ رکھتی ہے۔
جہاں ایک کو عزت، مرتبہ اور مقام ملتا ہے وہیں دوسرے کو ذلت، ملامت اور
لعنت نصیب ہوتی ہے، جہاں ایک اچھائی، اصول پسندی اور بہادری کی علامت قرار
پاتا ہے، وہیں دوسرا، جھوٹ، فریب اور منافقت کی نشانی کے طور پر یاد رکھا
جاتا ہے، یوں تو دنیا میں بطور عادت سچ بولنے والے بہت لوگ ہوتے ہیں لیکن
جان و مال کی آزمائش کے وقت کلمہ حق کہنے والے اس قدر قلیل تعداد میں ہوتے
ہیں کہ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، درحقیقت حق کے راستے پر
گامزن انسان کا حقیقی امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی، جائیداد،
اولاد اور آبرو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک ظالم و جابر حکمران کے سامنے کس
قدر ثابت قدمی کے ساتھ کلمہ حق زبان پر لاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ شدید خطرات
میں سر پر لٹکتی تیغ بے نیام کے نیچے حق بلند کرنے والے لوگ ہی عالم
انسانیت کے ہیرو قرار پاتے ہیں، مرحلہ دار و رسن کے سامنے بڑے بڑے بہادروں
اور حوصلہ مندوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں، گردن کے نزدیک پھانسی کا پھندا
دیکھ کر رستموں اور سہرابوں کے پاؤں ڈگمگا نے لگتے ہیں، کیونکہ یہ امتحان
جسمانی قوت کا نہیں، ایمانی طاقت کا ہوتا ہے اور یہ ایمانی طاقت و جرات
دنیا میں بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، ہماری تاریخ میں ایسی بے شمار
مثالیں موجود ہیں، جس میں لوگوں کو دین میں محنت اور ایمان میں ترقی کا درس
مقرر دینے والے عالم، واعظ اور ناصح، قاہر اور جابر سلطان کی ایک نگاہ غضب
آلود کی تاب نہ لاسکے اور اپنی بے ہمتی کا جواز تخلیق کرنے کیلئے اُس ظالم
حکمران کے حق میں تاویلیں تلاش کرتے رہے، فتوے دیتے رہے اور مصلحت اور تقیہ
کو دین کا ایک لازمی جزو قرار دیتے رہے ۔
تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ شراب و شباب کی لذت آفریں مسرتوں میں ڈوبے
رہنے والے بادشاہوں اور آمروں کو ”عالم پناہ، ظل سبحانی، محافظ دین و ملت،
مرد مومن، مرد آہن، نقیب کلمہ حق اور محافظ وطن و جمہوریت وغیرہ کے القاب
عطا کرنے والے بھی بعض اوقات قاضی وقت، مفتی یا قفیہ اور صاحب جبہ ودستار
ہی تھے، حضرت شیخ سعدی اپنی مشہور زمانہ کتاب ”گلستان “ میں ایک بہت ہی
خوبصورت حکایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”ایک بادشاہ نے اپنے درباریوں
سے کسی مسئلے پر رائے طلب کی، چنانچہ ہر شخص نے پوری ایمانداری سے اپنی
اپنی رائے کا اظہار کیا، سب کی رائے سننے کے بعد بادشاہ نے بھی اُس مسئلے
پر اپنی رائے دی، جس پر وزیر نے فوراً ہی بادشاہ کی رائے کی تائید کرتے
ہوئے اُسے درست قرار دے دیا، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بادشاہ کی
رائے کی اصابت مشکوک ہے، دربار برخاست ہونے کے بعد لوگوں نے وزیر سے پوچھا
کہ یہ جاننے کے باوجود کہ بادشاہ کی رائے غلط ہے، تم نے بادشاہ کی رائے کی
حمایت کیوں کی، وزیر نے درباریوں کو جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”جو لوگ
بادشاہ سے اختلاف کرتے ہیں، وہ اپنے ہی خون میں ہاتھ دھوتے ہیں“ گویا مطلب
یہ تھا کہ اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو عقلمند آدمی کو چاہیے کہ وہ فوراً
بادشاہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہے کہ ”حضور والا دیکھیں آسمان پر چاند
بھی نکلا ہوا ہے اور ستاروں بھری کہکشاں بھی موجود ہے، یہ مصلحت کوشی اور
حکمرانوں کی چاپلوسی اور کاسہ لیسی کی وہ بیماری تھی جس میں ہمیشہ ہی اہل
ہوس و اقتدار مبتلا نظر آئے۔
اسلام میں مصلحت اندیشی اور کتمان حق کا مرض کب شروع ہوا اور اہلیان جبہ و
دستار میں اس مرض میں کب گرفتار ہوئے، اس بحث و مباحثہ میں جائے بغیر اتنا
بتانا ضروری ہے کہ مسلمانوں میں تقیہ اور مصلحت گزینی کا رواج عربوں کے اہل
ایران کے ساتھ میل جول اور اختلاط کا نتیجہ تھا، جس کے اثرات سیّدنا عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے ہی میں نظر آنے شروع ہوگئے تھے،غلبہ
اسلام کے باوجود ایرانیوں کا واضح جھکاؤ اپنے بادشاہ کی طرف ہی رہا، جبکہ
اہل عرب اطاعت امیر میں غلو کے قائل نہیں تھے، حکمران پرستی کا نتیجہ یہ
نکلا کہ ایک حکمران کو تو اپنی عوام پر تمام حقوق حاصل ہوگئے، لیکن رعیت کے
پاس صرف حکمرانوں کے فرائض کی تابعداری کرنے کے سوا کوئی کام باقی نہیں بچا،
چنانچہ جھوٹ، دغا اور خوشامد کے کلچر نے معاشرے میں رواج کا درجہ حاصل کر
کے ملت اسلامیہ میں ابن الوقت اور بے اصول لوگوں کو پروان چڑھایا اور ایک
ایسے نئے طبقے کی بنیاد پڑی، جس نے اپنا اصول ہی یہ بنا لیا کہ”ہمارا اصول
یہ ہے کہ ہمارا کوئی اصول نہیں“۔
چنانچہ اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں یہ لوگ کتمان حق کے سنگین جرم کے
مرتکب ہوتے رہے اور یہ لوگ رعیت کی آزادی اظہار اور آزادی فکر کو کچل کر
ملت کی اخلاقی تخریب بھی کرتے رہے، قابل شرم بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر
حضرات نے اپنے انفرادی سیاسی خیالات کی تصدیق اور مادی آسائشوں کے حصول
کیلئے ہمیشہ قرآن و حدیث کی تعبیر کا سہارا لیا، عہد بنو امیہ سے آغاز ہونے
والی اس روایت نے برصغیر پاک و ہند میں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر اور
بہادر شاہ ظفر تک اور پھر انگریز سرکار سے لے کر پاکستان کی تا حال تاریخ
میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جنہوں نے درہم و دینار کے لالچ میں جبہ و
دستار کا سودا کیا، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہر دور میں حکمرانوں کے ظلم و
جبر اور مرضی و منشا کی تائید و حمایت میں قرآن و حدیث کو بطور تو تاویل
استعمال کیا اور حق کے معاملات کو گدلانے کیلئے گمراہ کن فتوے دے کر
مسلمانوں کو آمروں کی ذہنی اور فکری غلامی کی راہ پر لے جانے کی ناپاک کوشش
کی اور آج بھی یہ کوشش دین اور مذہبی سیاست کے نام پر زور و شور سے جاری
ہے، ویسے تو لالچ ،مفاد پرستی اور دنیاوی عزت و تکریم کیلئے پروان چڑھنے
والا یہ رویہ ہمیں اپنے معاشرے میں عام نظر آتا ہے، لیکن ایک عام آدمی کے
مقابلے میں طبقہ خواص اور سیاستدان اس مرض میں زیادہ مبتلا نظر آتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہر معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی زندگی میں
اصول قاعدے اور ضابطوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، وقت اور حالات کا بہاؤ
یا اُن کی اپنی طبیعت کا میلان اور مادی لالچ و فوائد کا حصول انہیں جدھر
چاہتا ہے، با آسانی بہا کر لے جاتا ہے، باالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ
جدھر انہیں اپنا فائدہ نظر آتا ہے، وہ اُسی طرف کے ہوجاتے ہیں، زندگی میں
اصول، قاعدوں اور ضابطوں سے محروم ہونے کی یہ بیماری عوام الناس سے زیادہ
ملک کی اعلیٰ انتظامیہ، بیوروکریسی، سیاستدانوں اور بالخصوص مذہبی لبادوں
میں ملبوس ان مذہبی لیڈروں میں زیادہ پائی جاتی ہے، جن کے لب صبح و شام
اسلام اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتے نہیں تھکتے، اِن کی تمام سیاسی
بصیرت، معاملہ فہمی اور دور اندیشی صرف اور صرف ذاتی فائدے اور ابن الوقتی
پر مبنی ہوتی ہے، انہیں ان باتوں سے قطعی غرض نہیں ہوتی کہ دینی اور مذہبی
سیاست کے اسرار رموز کیا ہیں اور اصول و قاعدے کن تقاضوں اور قربانیوں کے
متقاضی ہیں، ان تمام باتوں سے قطع نظر وہ حزب اختلاف میں رہ کر اقتدار کی
سیاست کے گر جانتے ہیں، پارٹیاں بدلتے ہیں اور ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹتے
ہیں، ہر حکومتی کولیشن کا حصہ ہو کر ہمیشہ حکومتی کارکردگی کو تنقید کا بھی
نشانہ بناتے ہیں اور در پردہ حکومت اور حکومتی اقدامات کی تائید و حمایت
جاری رکھ کر گھاٹے کا سودا بھی نہیں کرتے، سیاسی حوالوں سے ہمیشہ ان کی
گفتگو تحفظات اور ملک و قوم کو لاحق خدشات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، لیکن
درحقیقت یہ تمام تحفظات اور خدشات اپنے ذاتی مفادات کے دائروں کے گرد گھوم
رہے ہوتے ہیں، ہر دور میں اقتدار کے مزے لوٹنا اور مراعات یافتہ عہدوں کا
حصول ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے، یہ کوچہ سیاست کے یہ وہ مسافر ہوتے ہیں جن
کا قول و فعل، کردار وعمل اور شخصیت ہمیشہ ہی متنازعہ اور ابن الوقتی کی
مظہر ہوتی ہے۔
درحقیقت یہ لوگ سیاستدانوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہار کر بھی
جیت جانے کا ہنر جانتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے جبہ و دستار کی آڑ میں
ذاتی مفاد و منفعت کو اپنا مطمع نظر بنا لیا اور ایک سچے اصول پسند مسلم
رہنماء کے اسلامی تشخص کو شدید نقصان پہنچایا، قول و عمل کے اسی تضاد نے
عوام کو ان سے نہ صرف دور کردیا بلکہ مذہبی لیڈروں اور نام نہاد مذہبی
جماعتوں پر سے ان کا اعتماد و بھروسہ بھی اٹھ گیا ہے اور آج قوم کسی طور
بھی ان نام نہاد مذہبی و سیاسی رہنماؤں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں جو ہر
حاکم وقت کا ساتھ دینے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں، حضرت قتادہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ معاشرے میں علماء نمک ہیں، نمک سے ہر چیز خوش ذائقہ
ہوتی ہے، لیکن جب نمک ہی بد مزہ ہوجائے تو کون سی چیز درست رہ سکتی ہے۔“آج
ہمارے تمام معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مسائل اور قومی تنزلی کا اصل
سبب ہی یہ ہے کہ ہمارے حکمران، سیاستدان اور مذہبی رہنماء اچھے نہیں، اگر
یہ درست ہوتے تو ملک و قوم کے تمام معاملات اور مسائل بھی درست ہوتے، سچ
فرمایا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ”میری امت کے دو آدمی
” حکام اور علماء“ٹھیک رہے تو امت بھی ٹھیک رہے گی ۔“ |