”ہم بھی کیا لوگ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ جو فریب نظر کو آسودہ چشمی سے تعبیر کرتے ہیں“

”ہم بھی کیا لوگ ہیں....جو سلگتی ہواؤں سے خوشبو....گھٹاؤں سے ....مہکتی ہوئی چاندنی مانگتے ہیں....سردشت بیٹھے ....ازل سے، دہکتی ہوئی ریت سے .... شبنمی ساعتوں کی نمو چاہتے ہیں.....خلاؤں کی بے نام سی وستعوں میں بھٹکتے....ہر اک سانس کی ضرب سے .... ریزہ ریزہ بکھرتے ....فصیل انا سے ....اتھاہ پستیوں میں لڑھکتے چلے جارہے ہیں....مگر پھر بھی خوش ہیں کہ ہم کو ....لہکتے گلابوں ....مہکتی ہوئی نرگسوں کی تمنا یہاں لائی ہے....ہم بھی کیا لوگ ہیں....جو فریب نظر کو بھی ....آسودہ چشمی سے تعبیر کرتے ....سرابوں سے ....صدیوں کی تشنہ لبی کو بجھانے پہ ایمان رکھتے ہیں“

مندرجہ بالا نظم محترم گلزار آفاقی کی اس تحریر نے یاد دلا دی کہ”ایک بار پھر خوش فہم، ظاہر پرست، کوتاہ عقل اور تنخواہ دار نام نہاد دانشوروں نے سیاہ فام بارک اوباما کے سیاہ باطن سے اسلام کی خوشبو کشید کرنے کا پرانا دھندہ شروع کردیا، بالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں اس شخص کے نام میں شامل ”حسین “ کی عرفیت کے باعث کچھ خوش گمان لوگ اس فریب میں مبتلا ہوگئے تھے کہ امریکہ کے قصر ابیض میں بندہ سیاہ نہیں، بلکہ اسلام داخل ہونے جارہا ہے، ماضی کی اسی خوش فہمی اور خود فریبی کے ڈسے یہ عناصر آج ایک بار پھر اس شخص کی زبان سے السلام علیکم اور چند قرآنی آیات کے حوالے سن کر اس سیاہ فام متعصب عیسائی پر فریفتہ اور واری ہورہے ہیں “

تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسا رہے ہیں اور افغانستان و عراق پر برستے آتش و آہن کے ڈھیر میں امید و آس کے خوش فہم بہانے تلاش کررہے ہیں، لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اس طرح کی دروغ گوئی، ڈرامہ بازی اور منافقت تو منافقین ہر دور میں کرتے رہے ہیں، اب رہ گئی یہ بات کہ اوباما کے آباؤ اجداد کا تعلق اسلام سے ہے اور وہ اپنے بچپن کے دن ایک اسلامی ملک انڈونیشیا کے گلی کوچوں میں گزار چکے ہیں، ہماری نظر میں اوباما کی یہ نسبت اور یہ حوالے کسی طور بھی اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ اسلام اور عالم اسلام کے سچے خیر خواہ، ہمدرد اور دوست ہیں، کیونکہ اگر نسبت اور حوالے معیار امتیاز ہوتے تو آج ”عمرو بن ہشام “ابوجہل نہ ہوتا اور یہ اصول اور قاعدہ تخلیق نہ پاتا کہ ” یہود و نصاری کبھی بھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔“

ممکن ہے کہ تجزیہ نگاروں کی یہ رائے درست ہو کہ بارک اوباما اپنے پیش رو امریکی صدور سے قدرے مختلف سوچ کے حامل ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ بھی درست ہو کہ اوباما امریکہ کے مسلم دنیا سے تعلقات کو بہتر بنانے میں سنجیدہ ہوں، لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ اب تک امریکہ نے مسلم امہ اور دنیا کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، کیا اس کے زخم اوباما کی چکنی چپڑی باتوں اور لچھے دار منافقانہ تقریروں سے مندمل ہوسکتے ہیں، یقیناً اس مقام پر جمہوریت، آزادی اور انسانی اقدار کے خلاف اکیسویں صدی کی پہلی عالمی جنگ شروع کرنے والے امریکہ اور اس کے حواریوں کو شاید ماضی کے حوالے زیادہ اچھے نہ لگیں، لیکن ان حوالوں کے آئینے میں بے سر و ساماں مجاہدین کے ہاتھوں ہارتی ہوئی دنیا کی واحد سپر پاور کا اصل چہرہ آج بھی نظر آتا ہے۔


حافظے کی کمزوری کے باوجود دنیا آج بھی نہیں بھولی کہ وہی انڈونیشیا جس کے گلی کوچوں میں گزارنے والے بچپن کی یادوں کا زکر کر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کا ناٹک کرنے والے اوباما کے ملک امریکہ نے صدر سوئیکارنو سے نجات حاصل کرنے کیلئے کم و بیش پانچ لاکھ بے گناہ انڈونیشیوں کو قتل کروایا، اپنے پروردہ ایجنٹ شاہ ایران کے تحفظ کیلئے ایران میں لاکھوں انسانوں کو مروانے سے لے کر الجزائر کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اپنے چہیتوں کو اقتدار پر بیٹھانے، صومالیہ، کمبوڈیا اور لاوس کے در و دیوار کو خون سے رنگنے، سوڈان کی میڈیکل فیکٹری پر حملہ اور صدر عمرالبشیر کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے، صابرہ و شتیلہ کیمپوں میں ابلیسی رقص کا مظاہرہ کرنے والے اسرائیل کی سرپرستی کرنے، عراق کی تباہی و بربادی اور لاکھوں بچوں کو دودھ خوراک اور ادویات سے محروم کرنے اور بلکنے پر مجبور کرنے، افغانستان کے گلی کوچوں کو خون سے نہلانے، لیبیا کے صدر کی اقامت گاہ پر میزائل حملہ کر کے اس کی بچی کی جان لینے اور ہیرو شیما اور ناگاساکی کی انسانیت سوز تاریخ رقم کرنے والا کوئی اور نہیں خود امریکہ ہی ہے۔

کیا آج یہ حقیقت نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ امریکی سرپرستی، چشم پوشی اور مسلمانوں کے قتل عام پر معنی خیز خاموشی کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ کو اور بھارت نے کشمیر کو آتش کدہ بنا رکھا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی جرم، جرم اور واردات دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتی، کیونکہ ان سب کے پیچھے خود امریکہ بہادر کارفرما ہے اور امریکی لغت میں دہشت گردی کے معنی و مفہوم ہی کچھ اور ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ طاقت کی دنیا کا یہی اصول اور قاعدہ ہوتا ہے کہ رعونت اور خون آشام طاقتیں الفاظ کے معنی و مفہوم بدل دیتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے آج جس چیز کو دہشت گردی کا نام دے رکھا ہے اس کی اصل حقیقت کچھ اور ہے لیکن وہ خود جس آزادی، جمہوریت اور انسانیت کا علمبردار ہے آج اس کے خونی نقوش ساری دنیا کے درو دیوار پر ثبت فرعونی ظلم و بربریت کا عملی نمونہ پیش کررہے ہیں، یہ ہے دنیا میں انصاف، امن اور عافیت اور مساوات کے حصول کیلئے امریکہ کے نئے، نرالے اور منفرد اصول، واہ امریکہ ،واہ۔ ۔ ۔ ۔

مصر میں بارک اوباما نے اپنے خطاب میں بین السطور یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان دوریاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، جنہیں دور کرنے کیلئے وہ کوشش کررہے ہیں، دراصل اوباما کا خطاب الفاظ کی جادوگری تھا، سچ تو یہ ہے کہ اوبامہ کے تمام دلائل بودے، بیہودہ اور تضاد بیانی پر مبنی تھے، قصر ابیض کے سیاہ فام مکین نے دھوکہ دہی اور فراڈ سے دن کو رات ثابت کرنے کی کوشش کی اور کمال مہارت سے سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپانے کی ناکام اداکاری کی مگر حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ اس ننگے بدن کی مانند ہوتا ہے جس کی عریانی ہمیشہ اصل حقیقت کو بے نقاب کئے رہتی ہے۔

آج اوباما دعوی کرتے ہیں کہ وہ مسلم امہ کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں، لیکن اس دعوی کے برعکس امریکہ نے عراق اور افغانستان پر قیامت سوز جنگی اسلحے سے اپنی دادا گیری جما رکھی ہے، اسرائیلی یہودی بھیڑیوں کے روپ میں روزانہ معصوم فلسطینی بچوں، عورتوں اور بے گناہ فلسطینوں کا خون پیتے ہیں، اسرائیل کے اسلحہ خانے جوہری و جراثیمی ہتھیاروں سے بھرے ہوئے ہیں، مگر امریکہ کو مشرق وسطی کے اس خونی آدم خور ملک کے جوہری و کیمیائی ہتھیاروں پر کوئی اعتراض نہیں، شمالی کوریا کا حالیہ ایٹمی دھماکہ امریکہ و مغرب کے لئے نہ تو باعث تشویش ہے اور نہ ہی کرہ ارض کی قیادت کا خود ساختہ دعویٰ کرنے والوں کو شمالی کورین بموں اور میزائلوں سے امن کے لئے کوئی خطرہ نظر آتا ہے، لیکن تہران کے نامکمل جوہری توانائی کے منصوبوں نے امریکہ و اسرائیل کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں، سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ کی یہ تضاد بھری دوہری پالیسی کن امور کی نشان دہی کرتی ہے۔

امریکی صدر نے اپنے دورہ مصر کے دوران مسلمانوں کے دل میں اپنے اور امریکہ کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی، لیکن ان پالیسیوں کا کیا کیا جائے جو امریکہ نے عملی طور پر اپنا رکھی ہیں، اوباما نے اپنے پورے خطاب میں تنازع کشمیر کو بڑی خوبصورتی سے گول کردیا، جس کی بظاہر وجہ یہی نظر آتی ہے کہ وہ بھارت کی ناراضگی کا خطرہ مول نہ لیتے ہوئے ایسا کررہے ہیں، حالانکہ اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے واضح طور پر یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرینگے اور صدارت کا حلف لینے کے بعد بھی انہوں نے تنازعہ کشمیر کے حل کا عندیہ دیا تھا، تاہم اقتدار میں آنے کے بعد اوباما مصلحتوں کا شکار نظر آئے، ہمارا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو حل کیے بغیر اوبامہ کا مسلم دنیا سے تعلقات کی بحالی یا نئے سرے سے استوار کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، اوباما کے خطاب سے کئی تضاد بیانی آشکارا ہوئیں، ایک طرف وہ مسلم برادری کی حمایت کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ اسرائیل کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے فلسطینوں کو تشدد روکنے کا کہہ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں، انہیں کشمیر یاد ہے اور نہ ہی فلسطین، نہ ہی وہ مظالم یاد ہیں جو یہودیوں نے فلسطینیوں پر روا رکھے ہوئے ہیں، کیا اوباما کے مظلوم کہہ دینے سے مسلم دنیا اسرائیل کو مظلوم مان سکتی ہے۔

ہماری نظر میں اس وقت دنیا میں دو ہی بڑے تنازعے ہیں جن کو حل کیے بغیر دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں، پہلا تنازع کشمیر اور دوسرا فلسطینی ریاست کے قیام میں اسرائیلی ہٹ دھرمی و رکاوٹ، کشمیریوں پر لاکھوں کی تعداد میں تعینات بھارتی فوج مظالم ڈھارہی ہے جبکہ نہتے فلسطینی مسلسل یہودیوں کی جارحیت کا شکار ہورہے ہیں، اسرائیل غیر اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکا ہے مگر اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا، بیان بازی کی حد تک ہر امریکی صدر ان تنازعات کے حل پرزور دیتا ہے مگر جب عملی اقدامات کرنے کی بات آتی ہے تو وہاں اسے بھارت اور اسرائیل کا خوف دامن گیر ہوجاتا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسرائیل اور بھارت امریکی ایما پر پوری دنیا میں جارحیت کا پرچار کر رہے ہیں۔

آج اوباما جھوٹے ٹسوے بہا کر سانحہ نائن الیون میں تین ہزار امریکیوں کی ہلاکت کا رونا تو روتے ہیں لیکن وہ عراق و افغانستان میں استعماریت کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بیس لاکھ سے زائد مسلمانوں کا زکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے، اوباما کا یہ کہنا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کی ہلاکت کا آئینہ دار ہے سو فیصد درست، مگر کوئی ہمیں یہ تو بتائے کہ اسرائیل امریکہ اور اتحادی قصابوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے مسلمانوں کا خون ناحق کس کے کھاتے میں ڈالا جائے گا، مقام حیرت ہے کہ تباہی و بربادی پھیلانے والا امریکہ آج دنیا کو دہشت گردی کی بجائے امن و سلامتی کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے، مگر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ظلم اور امن دونوں ایک ساتھ چلیں۔

آج بھی دنیا کے ستر فیصد لوگ امریکہ کو ظالم،دہشت اور جبر طاغوت کا علمبردار اور بانی سمجھتے ہیں، ان کا یہ خیال کہ امریکہ نے دنیا میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے جو رویہ اپنایا ہوا ہے وہی دراصل فساد اور دہشت گردی کی اصل جڑ اور بنیاد ہے، امریکی صدر کی یہ بات بھی کسی جھوٹ اور مکر و فریب سے کم نہیں کہ جس دن افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی ختم ہوگئی وہ اسی روز امریکی فوجیوں کو واپس بلالیں گے، یوں لگتا ہے کہ بوکھلاہٹ میں اوباما نے ایک ہی سانس میں کئی راگ الاپ دئیے کہ وہ مسلم امہ کے ساتھ نئے اور مساویانہ تعلقات کی تجدید کرنا چاہتے ہیں اور ایسی دوستی چاہتے ہیں جس میں بداعتمادی کا عنصر شامل نہ ہو، مگر وائٹ ہاوس کے سیاہ فام صدرنے اس کیلئے کسی ٹھوس اور عملی اقدام کا اعلان نہیں کیا، درحقیقت اوباما کا خطاب صرف خوشنما لفظوں کا ہیر پھیر تھا اور اس کی یہ تقریر اس خوبصورت فلم کی مانند تھی جس کی کہانی زمینی حقائق و سچائی سے بے نیاز لغویات، فریب اور دھوکہ دہی کے مناظر پر مشتمل ہے۔

محترم قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی انتخابات کے موقع پر ہم نے لکھا تھا کہ جارج بش کے جانے اور بارک اوباما کے آنے سے مسلم دنیا کے حالات میں کوئی فرق نہیں آئے ہوگا اور نہ ہی امریکہ کی بنیادی پالیسی تبدیل ہوگی، آج یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آچکی ہے کہ امریکی صد ر بارک اوباما صدر بش کی ”وار آن ٹیرر “جو اسلام اور عالم اسلام کے خلاف تہذیب ِ مغرب کی جنگ ہے اور جسے مغربی مفکرین سیاست چوتھی عالمی جنگ قرار دے رہے ہیں بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں، فرق صرف اتنا ہوا ہے کہ اب ڈک چینی اور ڈونلڈ رمز فیلڈ کے بجائے جو بائیڈن، بزرنسکی اور ان کے ہم خیال یہودی حکمت کار امریکی پالیسی بنارہے ہیں ، بارک اوباما کسی طور بھی پاکستان اور عالم اسلام کیلئے اپنے پیشروں سے مختلف ثابت نہیں ہوئے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سابق صدر جارج بش سے زیادہ خطرناک عزائم کے مالک اور اسلام دشمن ہیں، لہٰذا نام نہاد دانشوروں کا یہ کہنا اور سمجھنا کہ بارک اوباما تبدیلی کے خواہاں اور عالم اسلام کے ہمدرد و دوست ہیں محض خود فریبی اور خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

چونکہ خوش فہمی اور خوش گمانی ہمیشہ سے ہمارا خاصہ رہی ہے، جس کی وجہ سے ہم نے ہمیشہ یہ بات تو یاد رکھی کہ ” دوست کا دوست، دوست اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے“لیکن ہم اصل بات کہ ”دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے“ بھول گئے، ہم اس بات پر تو بہت خوش ہیں کہ پاکستان بارک اوباما کیلئے اجنبی نہیں، ان کی والدہ پاکستان میں کام کرتی رہی ہیں اور وہ ایک مسلمان کا عیسائی بیٹا ہے، اس لحاظ سے شاید وہ ہمارے لئے کوئی نرم گوشہ رکھتا ہو، لیکن ہم سب سے اہم بات جو بھول رہے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکہ ،امریکہ ہے اور امریکی، امریکی ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی ہمارے دوست تھے ،نہ ہیں اور نہ ہی ہونگے، امریکہ ہمارا ازلی دشمن اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی تباہی و بربادی چاہتا ہے، بارک اوباما اسی پاکستان دشمن امریکہ کا ایک وفادار شہری اور دنیا میں صلیبی اور صہیونی مفادات کا نیا محافظ ہے، جس کے نزدیک ان مفادات کے حصول اور دنیا پر امریکی برتری کیلئے دوسروں کی آزادی کو کچلنا اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا کسی طور بھی نا جائز نہیں ہے۔

لہٰذا ایک ایسا شخص جس کی ذمہ داری ہی دنیا میں صلیبی اور صہیونی مفادات کا تحفظ اور نگرانی ہو وہ کیونکر پاکستان اور عالم اسلام کا ہمدرد اور دوست ہوسکتا ہے ،چنانچہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ” اسلام میں سور نجس اور حرام ہے، خواہ اس کا رنگ سابق امریکی صدر” بش “کی طرح سفید ہو یا موجودہ امریکی صدر” بارک اوباما“ کی طرح سیاہ“لہٰذا حقیقت حال کو سمجھنے کیلئے خوش گمانیوں اور خود فریبی کے دائرے سے باہر نکل کر یہ حقیقت لازمی اپنے پیش نظر رکھنا ہوگی کہ سور تو سور ہوتا ہے، قد کاٹھ اور رنگ و نسل اس کے جائز اور حلال ہونے پر دلالت نہیں کرتے، ان حقائق کے باوجود بھی اگر ہمارے ارباب اقتدار اور کاسہ لیس اہل فکر دانش کو اوباما سے خیر، وفا اور ہمدردی کی امید ہے تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ”ہم بھی کیا لوگ ہیں، جو فریب نظر کو بھی، آسودہ چشمی سے تعبیر کرتے اور سرابوں سے، صدیوں کی تشنہ لبی کو بجھانے یہ ایمان رکھتے ہیں، ہم بھی کیا لوگ ہیں۔“
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358723 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More