ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے میں
ہمارے پیارے نبیﷺاس دنیا میں تشریف لائے۔ مشیتِ الٰہی کے تحت اس دنیا سے آپﷺ
کی واپسی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ یہ صرف ایک اتفاق ہی نہیں بلکہ رب العزت کی
طرف سے ہم مسلمانوں کا ایک خاص قسم کا امتحان بھی ہے۔ اس امتحان کی اہمیت
اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی پیدائش کا دن
اور آپ کا یومِ رحلت بھی ایک ہی یعنی بارہ ربیع الاوّل ہے۔ ہم اس وقت ایک
عجیب قسم کے دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ہم آج کے دن آپ کی پیدائش کی
خوشی منائیں یا آپ کی وفات کا دْکھ اور صدمہ!
ایک بارہ ربیع الاوّل وہ تھا جس دن آپﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔بے شک اس
موقع پر کئی بابرکت اْمور ظاہر ہوئے مگر کلی طور پر کوئی بھی اس بات کا
اِحاطہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ پیدا ہونے والی ہستی کون ہے اور انسانیت کے
کس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے والی ہے، کیونکہ مستقبل کا کامل علم اﷲ کے
علاوہ کسی اور کے پاس نہیں۔
پھر درجہ بدرجہ آپﷺ اپنی عمر مبارک کی منازل طے کرتے گئے حتیٰ کہ عمر عزیز
کے چالیسویں سال آپ کو مقامِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور دنیا میں آپﷺ
کی تشریف آوری کا اصل مشن آپ کے سپرد کیا گیا۔ یہ مشن تھا بھٹکی ہوئی
انسانیت کو اس کے خالق سے ملانا اور اس کی عبادت اور اِطاعت کے ذریعے اسی
کے ساتھ وابستہ کرنا۔
آپ ﷺ نے اس مشن کو توفیقِ ایزدی کے ساتھ اس شان سے کمال تک پہنچایا کہ حجۃ
الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام ؓ کے ٹھاٹھیں مارتے
سمندر نے گواہی دی کہ آپﷺنے اپنا فرض کماحقہ پورا کردیا۔ حج کے انہی ایام
میں ،منیٰ میں ہی سورۃ النصر نازل ہوئی تو جہاں یہ آپ کے لئے اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے تکمیل مشن کی بشارت تھی، وہیں اس میں آپﷺکے لئے اب دنیا سے رخصتی کا
اشارہ بھی تھا۔ سمجھ دار صحابہؓ اس اشارے کو سمجھ گئے تھے اور غمگین اور
افسردہ ہوگئے۔ پھر بارہ ربیع الاوّل کا وہ دن بھی آگیا جب آپ اس دنیاے فانی
سے تشریف لے گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
اس دن صحابہ کرامؓ کے غم و الم کا کیا عالم تھا۔حضرت عمرؓجیسے جری او
ربہادر صحابی غم کے اس کوہِ گراں کو برداشت نہ کرسکے اور تلوار لے کر کھڑے
ہوگئے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمدﷺ فوت ہوگئے ہیں تو اس کی گردن اْڑا دوں
گا۔ ابوبکر صدیقؓنے بڑی ہوش مندی اور تدبر کے ساتھ سب کے سامنے حقیقت بیان
کی۔ فرمایا :
’’جو شخص محمدﷺ کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلا شبہ محمدﷺ فوت ہوگئے ہیں
او رجو اﷲ کی عبادت کرتا تھا تو اﷲ ہمیشہ زندہ ہے او رکبھی مرنے والا
نہیں۔‘‘
پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 144 تلاوت فرمائی: ’’محمدﷺاﷲ کے رسول
ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے۔اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید ہوجائیں
تو کیا تم اْلٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ (یعنی اسلام چھوڑ دوگے)‘‘
عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں: گویا ہم لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اﷲ نے یہ
آیت بھی نازل فرمائی ہوئی پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں:
’’اﷲ کی قسم!مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں نے یہ آیت ابوبکرؓ کے تلاوت کرنے سے
پہلے سنی ہی نہ تھی او رجب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں
اْٹھ رہے تھے۔ زمین پر گر گیا او رجب میں نے ابوبکرؓکو یہ آیت پڑھتے سنا تب
معلوم ہوا کہ واقعی رسول اﷲﷺ کی وفات ہوگئی ہے۔‘‘(صحیح بخاری: 4454)
بلالِ حبشیؓ موذّنِ رسولﷺ کو ایسی چپ لگ گئی کہ نبیﷺ کے بعد وہ اذان نہ دے
سکے۔ رسو ل اﷲﷺکے وصال کے بعد فقط دو دفعہ اذان دی۔ ایک دفعہ حضرت حسن
وحسینﷺکے مجبور کرنے پر اَذان دینا شروع کی مگر اشھد ان محمد تک پڑھا اور
اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ صد حیرت اور افسوس ہے ہم پر کہ بارہ ربیع الاوّل کو
ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی۔ آپﷺکے یومِ پیدائش کی خوشی میں آپﷺکے یومِ
وصال کو ہم قطعاً بھول جاتے ہیں۔ قارئین!اگر ایسا ہو کہ ہمارا کوئی بہت ہی
پیارا عزیز اسی تاریخ پرفوت ہوجائے جس تاریخ پر وہ پیدا ہوا تو آپ دل پر
ہاتھ رکھ کر انصاف سے بتائیے کہ کیا اس تاریخ کو پیدائش کی خوشیاں منائیں
گے یا وفات کا غم !
جس دن نبیﷺپیدا ہوئے، کسی کو کامل ادراک نہیں تھا کہ کیسی ہستی دنیا میں
تشریف لائی، لیکن اپنی بے مثال زندگی گزار کر جب آپ 63سال کے بعد وفات پاتے
ہیں تو صحابہ کرامؓ اور سارے عرب کو اندازہ تھا کہ کون سی ہستی ہم سے جدا
ہوگئی ہے۔ اسی لئے ان کے غم و اَندوہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے اْن پر پہاڑ
ٹوٹ پڑا ہو۔
کسی بھی عمل کو بطورِ ایک شرعی فریضے کے ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس دو
بنیادیں ہوتی ہیں:قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں اس کے بارے میں شرعی حکم۔جس
کے بارے میں دورِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے دور کے بعد ہمیشہ سے اْمتِ
مسلمہ کا اجتماعی عمل بھی ہمارے شوقِ عمل کو مہمیز دیتا ہے۔
عیدمیلادالنبیﷺ کے حوالے سے ہم قرآن و سنت میں غور کریں تو واضح نظر آتا ہے
کہ اَحادیث میں ہمیشہ 'عیدین'یعنی دو عیدوں کے احکام اور تفاصیل ہی ملتی
ہیں نہ کہ تین عیدوں کی۔رہ گیا اْمت کا تعامل تو سب سے پہلے ان میں صحابہ
کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت کا نمبر ہے ، دوسرے نمبر پر
تابعین کا او رپھر تبع تابعین کا۔ نبیﷺ نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا ہے: ''
سب سے بہترین میرا زمانہ ہے پھر اس کے ساتھ کا او رپھر اس کے ساتھ کا۔''
(صحیح بخاری:2651)
اگر ہم ان تینوں ادوار کو دیکھیں تو ان پاکیزہ نفوس نے بارہ ربیع الاوّل
کیحوالے سے ہمارے لئے کوئی نمونہ قائم نہیں کیا۔ ہمارے لئے ان اَدوار کے
صالحین کا عملی نمونہ بن سکتا ہے،کیونکہ انہیں آنحضورﷺنے بہترین قرار
دیا۔پھر بعد کے اَدوار میں دین پر عمل کے حوالے سے لوگوں میں ویسی پابندی
اوراہتمام نہ رہا، اس لئے بعد کے لوگوں کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔
نبیﷺکے یومِ میلاد کے سلسلے میں ایک تاریخی پہلو سے بھی جائزہ لیں۔مسلمانوں
میں معروف ہے کہ نبی? 22/اپریل 571ء میں بروز سوموار پیدا ہوئے۔ جبکہ
اسلامی مہینے کے لحاظ بارہ ربیع الاوّل عام الفیل کے اگلے سال بروز سوموار
صبح کو پیدا ہوئے۔
محققین کی تحقیق کے مطابق 22/اپریل 571 ء، 12 ربیع الاوّل سن1 ہجری عام
الفیل میں پیر کا دن نہیں بنتا بلکہ جمعرات کا دن بنتا ہے۔پیر کا دن 9 ربیع
الاوّل میں پڑتا ہے۔اس لئے آپﷺکی یوم پیدائش 9 ربیع الاوّل ہے، نہ کہ
12ربیع الاوّل۔ یہ تحقیق سیرتِ نبویﷺپر عالمی انعام یافتہ کتاب 'الرحیق
المختوم'کے مصنف علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری کی ہے۔اْنہوں نے اپنی اس کتاب
میں علامہ محمد سلیمان منصورپوری اور محمود پاشا فلکی کی تحقیق کا حوالہ
دیا ہے۔
قارئین!غور فرمائیں اگر منشائے الٰہی یہ ہوتا کہ اْمتِ محمدیہ اپنے نبی
محمدﷺ کا یوم پیدائش بطورِ عید منائے تو کم از کم اس کی تاریخ کے بارے میں
اختلاف نہ ہوتا۔ دوسری طرف 12 ربیع الاوّل آپﷺ کا یوم رحلت ہونے کے بارے
میں اْمت میں کوئی اختلاف نہیں۔ لہٰذا بارہ ربیع الاوّل آپﷺ کا یومِ میلاد
ہو یا نہ ہو مگر یہ نبیﷺکا یوم رحلت ضرور ہے۔ مگر ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں
کہ اس سنگ دل اْمت نے اپنے نبیﷺکے یوم رحلت کو'یومِ عید'بنا ڈالا۔ عیسائی
حضرت عیسیٰ کے یومِ پیدائش کو بطورِ عید مناتے ہیں تو مسلمانوں نے بھی اْن
کی دیکھا دیکھی اپنے نبیﷺکے یومِ پیدائش کو عید بنا ڈالا۔مگر جوشِ نقالی
میں وہ یہ بھی غور نہ کرسکے کہ یومِ پیدائش کو عید منا رہے ہیں یا یوم
ِوصال کو۔
پھر اس عید کو منانے کے لئے نئے سے نئے انداز اختیار کرلیے۔ پہلے تو صرف
جلوس نکلتے تھے۔ جس کی قیادت ہاروں سے لدے پھندے کچھ 'پیر' کرتے ہیں۔ ساتھ
میں کچھ ڈھول بجانے او ربھنگڑا ڈالنے والے بھی ہوتے ہیں۔ پھر آخر میں سب
پیٹ بھر کر اعلیٰ کھانا کھاتے ہیں۔نام نبی ﷺکا اور شان اپنی دوبالا کرتے
ہیں۔کام و دہن کی لذت خود حاصل کرتے ہیں۔ اس نبیﷺ کے نام پر جنہوں نے کبھی
پیٹ بھر کر اچھا کھانا نہیں کھایا تھا اور کئی کئی دن تک اْن کے ہاں چولہا
ہی نہیں جلتا تھا۔
ہر سال اس عید کو منانے میں جدت پیدا کرلی جاتی ہے۔ اس دفعہ کی خبر یہ ہے
کہ عیدمیلاد النبیﷺپر مشعل بردار جلوس نکالا جائے گا۔ یہ فیصلہ کرنا ضروری
ہے کہ یہ مشعلیں خوشی کی علامت ہوں گی یا غم کی؟کیونکہ مغرب میں تو غم کے
موقع پر مشعلیں جلا کر خاموشی اختیا رکی جاتی ہے۔
''یہ اْمت روایات میں کھوگئی!''
یہ بات واضح ہے کہ عوام الناس اپنے آباء اَجداد او رنام نہاد 'مولویوں'کو
دیکھتے سنتے ہوئے یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر ان کی غلطی اور کوتاہی یہ ہے کہ
دین کے معاملات کو کم اہم سمجھتے ہوئے اْن میں خود سمجھ پیدا نہیں کرتے اور
کچھ نہیں تو اْنہیں علمائے حق سے ہی راہنمائی لے لینی چاہئے۔ یہ بات بھی
واضح ہے کہ لوگ نبیﷺ سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ہی یہ سب کچھ
کرتے ہیں مگر ... اظہارِ عقیدت و محبت کے لئے ہمارے سامنے کتاب و سنت او
راْسوہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہونا چاہئے نہ کہ مروّجہ رسوم و
رواج!
کتاب و سنت اور اسوہ صحابہ کرامﷺکی روشنی میں حب ِرسولﷺ کے عملی تقاضے پورے
کرنے کے لئے ہمارے سامنے واضح احکام اور ہدایات ہیں جن پرپورا اْترنے سے ہی
حب رسولﷺ کا کچھ اظہار ہوسکتا ہے۔جس بات سے رسول اﷲﷺ منع فرمائیں، ہم رک
جائیں او رجس کام کو کرنے کا حکم دیں، پوری رضا و رغبت سے اس پر عمل پیرا
ہوں، یہی ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اتباع رسول کا راستہ
اختیار کرنا ہوگا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ اطاعت سے آگے بڑھ کر رسول اﷲ
علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ہر معاملے میں اتباع اور پیروی کو اختیارکیا جائے
یعنی آپﷺ کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند اورناپسند بنا لینا۔
آپ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نبیﷺپرمسنون طریقے سے مسنون الفاظ
میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔اذان کے بعد آپﷺ کے لئے مقامِ
وسیلہ کی دعا کی جائے۔اس کے لئے مسنون دعا کو ہی اختیار کیا جائے او راﷲ
تعالی سے اْمید رکھی جائے کہ وہ روزِ قیامت ہمیں رسول اﷲﷺ کی شفاعت نصیب
فرمائیں گے۔
(بشکریہ: کتاب و سنت ڈاٹ کام) |