وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس
طاہر نے کشمیر کونسل میں کرپشن کے خاتمے کا دعوی کیا ہے۔گزشتہ دنوں ہی
وفاقی وزارت امور کشمیرو کشمیر کونسل کے مشترکہ سیکرٹری کی اخبارات میں
شائع خبر کے مطابق کرپشن کے الزامات میں کشمیر کونسل کے تین افسران سمیت
چند اہلکاران کے خلاف کاروائی کی گئی ہے اور کشمیر کونسل سے کرپشن کا قلع
قمع،خاتمہ کر دیا گیا ہے۔وفاقی سیکرٹری کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ
کشمیر کونسل اور وزارت امور کشمیر میں ہونے والی تمام کرپشن چند افسر اور
چند ملازمین ہی کر رہے تھے۔یوں کونسل کے اعلی افسران اور وزارت امور کشمیر
میں متعین رہ چکے وفاقی وزراءکو کرپشن سے پاک ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل ہو
گیا ہے۔وفاقی وزارت امور کشمیر اور آزاد جموں و کشمیر کونسل میں کشمیر سٹیٹ
پراپرٹی سے متعلق کرپشن ایک بڑا موضوع ہے لیکن نہ جانے کیوں اب تک کشمیر
سٹیٹ پراپرٹی کی فروخت اور دوسری بدعنوانیوں کی چھان بین کی ضرورت محسوس
نہیں کی گئی ہے ۔
تاہم میرے آج کے کالم کا موضوع راولپنڈی میں موجود پونچھ ہاﺅس ہے جسے کشمیر
کے ایک تاریخی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔24اکتوبر1947ءکو ریاست جموں و کشمیر
کی آزاد حکومت کے قیام کے اعلان کے بعد یوں تو تراڑ کھل کو آزاد حکومت کا
صدر مقام بنایا گیا تاہم راولپنڈی میں واقع پونچھ ہاﺅس آزاد کشمیر
حکومت،صدر آزاد کشمیر کے کیمپ آفس کے طور پر کام کرتا رہا۔جنرل ضیاءالحق کے
مارشل لاءسے پہلے تک پونچھ ہاﺅس راولپنڈی میں ہی آزاد کشمیر حکومت،چیف
ایگزیکٹیو کا کیمپ آفس قائم رہا۔میں نے خو 1975-76ءمیںد سردار ابراہیم خان(
مرحوم) کو پونچھ ہاﺅس کے کیمپ آفس میں دیکھا ہے۔اس لحاظ سے بھی پونچھ ہاﺅس
کی قدیم عمارت کو کشمیر کی کے ایک تاریخی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔لیکن ریاست
جموں و کشمیر کی اس تاریخی عمارت کو محفوظ رکھنے کے کوئی اقدامات نہیں کئے
گئے۔شاید جو معاشرے،ملک اپنی قومی شخصیات،ان کی خدمات کا ادراک نہیں رکھتے
،وہ تاریخی اثاثے والی قدیم عمارات کی محفوظ رکھنے کی اہمیت کو کیا محسوس
کر سکتے ہیں۔
پونچھ ہاﺅس راولپنڈی کی آراضی 23 کنال 11 مرلہ ہے اور اب تک فروخت ہونے سے
بچی ہوئی ہے۔پونچھ ہاﺅس کی اس 23 کنال 11 مرلہ زمین پہ پونچھ ہاﺅس کی قدیم
تاریخی عمارت اور ساتھ ہی کئی سال قبل تعمیر کردہ پونچھ ہاﺅس کمپلکس کی
کثیر المنزل عمارت ہے۔پونچھ ہاﺅس کی پرانی عمارت کے عقب میں چار ،پانچ
خاندان عرصہ دراز سے مقیم ہیں۔برسر تذکرہ کہ سرائے خردو کلاں راولپنڈی 10
کنال اراضی ہے ۔جس میں 83 کرایہ دار مقیم ہیں جبکہ پنڈی ہزارہ ٹرانسپورٹ
کمپنی اینڈ ناردرن پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کی 17 کنال 13 مرلہ پر مبنی
جائیداد تھی جو تمام کی تمام زیر لیٹر نمبر KP-30/(2)/56-(-1) مورخہ
7-3-1964 فروخت کر دی گئی۔راجہ بازار راولپنڈی میں 7 کنال 162 مربع فٹ
اراضی پرقائم 17 دوکانیں تھیں جو زیر لیٹر نمبر K-II(4)61(K-1) مورخہ
14-2-1962 فروخت کر دی گئیں۔وفاقی وزیر امور کشمیر و انچارج کشمیر کونسل
چودھری برجیس طاہرنے آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب سے ملاقات میں بتایا
تھاکہ پاکستان میں 22ارب سے زائد مالیت کی کشمیر پراپرٹی موجود ہے جس کی
آمدنی صرف چار کروڑ روپے ہے۔اس حوالے سے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر
کسی نے توجہ نہیں دی۔
پونچھ ہاﺅس راولپنڈی کی قدیم تاریخی عمارت میں سالہا سال سے آزاد جموں و
کشمیر الیکشن کمیشن کا دفتر قائم ہے۔پونچھ ہاﺅس راولپنڈی میں کشمیر سٹیٹ
پراپرٹی کا انتظام کرنے والے ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے متعین افسر کا دفتر بھی
موجود ہے۔پونچھ ہاﺅس کمپلکس کی کثیر المنزل عمارت کی تعمیر کی بھی ایک الگ
ہی کہانی ہے۔تقریباًتین عشرے قبل کشمیر کونسل اور وزارت امور کشمیر نے”
کشمیری مہاجرین کے مفاد میں“ایک منصوبہ بنایا جس سے کشمیری مہاجرین مقیم
پاکستان کو کوئی فائدہ تو کیا ہونا تھا البتہ وزارت امور کشمیر اور کشمیر
کونسل سے وابستہ کئی افراد ’خوب خوب‘مستفید ہوئے۔ وزارت امور کشمیر اور
کشمیر کونسل کے اس منصوبے کے مطابق پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے موضوع پورب
میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی ایک جائیداد میں ”پورب کالونی“ کے نام سے
مہاجرین کی ایک آبادی قائم کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔”پورب کالونی سیکنڈل“
کا آغاز یوں ہوا کہ مہاجرین کے لئے رہائشی کالونی بنانے کے نام پر کشمیر
سٹیٹ پراپرٹی کی آراضی وزارت امور کشمیر کی طرف سے کشمیر کونسل کو فروخت کی
گئی اور اسی کی کچھ رقم سے راولپنڈی میں پونچھ ہاﺅس کمپلیکس تعمیر کر ا کے
کرائے پہ چڑھایا گیا۔حالانکہ کشمیری مہاجرین کے لئے رہائشی پورب کالونی کی
زمین کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا حصہ ہے لہذا کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی متعلقہ
آراضی وزارت امور کشمیر کی طرف سے کشمیر کونسل کو فروخت کئے بغیر بھی
مہاجرین کے لئے استعمال میں لائی جا سکتی تھی۔کشمیر کونسل نے1983ءمیں کافی
تعداد میں کشمیری مہاجرین کو ” پورب کالونی“ میں پلاٹ الاٹ کئے جبکہ خود
کشمیر کونسل کے مطابق اس وقت ”پورب کالونی“ کی آراضی کرائے پہ تھی اور وہاں
فصلیں لگی ہوئی تھیں۔معتبراطلاع کے مطابق ” پورب کالونی “ پر ڈیڑھ ارب روپے
خرچ ہوئے جبکہ زمین پہ کچھ بھی نہیں ہے۔وزارت امور کشمیر اور کشمیر کونسل
کے”اعلیٰ دماغوں“ نے مال بنانے کے چکر میں یہ بھی نہ سوچا کہ شہری علاقوں
میں رہنے والے کشمیری مہاجرین دیہی علاقے میں کیسے سکونت پذیر ہو سکتے ہیں۔
وزارت امور کشمیر کی زیر نگرانی قائم کشمیر سٹیٹ پراپرٹی ایڈمنسٹریٹیو آفس
عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن کمیشن سے پونچھ ہاﺅس کی
عمارت خالی کرائی جائے۔اس طرح پونچھ ہاﺅس راولپنڈی کی یہ عمارت آزاد کشمیر
حکومت اور وزارت امور کشمیر کے درمیان تنازعہ بنی ہوئی ہے۔گزشتہ دنوں ہی
شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا کہ پونچھ ہاﺅس کے ایڈ منسٹریٹر مسرور
عباسی نے چھ عشروں سے پونچھ ہاﺅس کی عمارت کے عقبی حصے میں رہنے والے
عبدالقدیر نامی شخص کو پولیس کے ذریعے زبردستی اپنی رہائش سے بیدخل کر
دیا،اس کا سامان ضبط کر کے پونچھ ہاﺅس کمپلکس کے سٹور میں رکھوا دیا اور
عبدالقدیر سمیت اس کے بیٹوں کے خلاف مزاحمت بے جا کا مقدمہ درج کرا دیا
۔پونچھ ہاﺅس میں عبدالقدیر کی طرح کی دیگر کئی خاندان بھی نصف صدی سے زائد
عرصہ سے مقیم ہیں لیکن پولیس کے ذریعے زبردستی بیدخلی کی کاروائی صرف
عبدالقدیر کے خلاف عمل میں لائی گئی۔بتا یا جاتا ہے کہ پونچھ ہاﺅس کے
ایڈمنسٹریٹر نے پونچھ ہاﺅس کے عقب حیدر روڈ پر واقع ایریا میں ایک حصہ
گاڑیوں کے ٹائر فروخت کرنے والے ایک تاجر کو کرائے پر دیا ہوا ہے
۔عبدالقدیر کے مطابق ایڈمنسٹریٹر اس کا خالی کردہ گھر اسی ٹائروں کے تاجر
کو سٹور کے لئے دینا چاہتا ہے اور اسی لئے اس سے زبردستی اس کی قدیم رہائش
کو خالی کرایا گیا ہے۔بعض کشمیری حلقوں کے مطابق بعض افراد پونچھ ہاﺅس کی
بیش قیمت جگہ کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔
کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے متعلق میں پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔آزاد کشمیر
حکومت کے لئے لازم ہے کہ وہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں کی جانے والی
بدعنوانیوں،بندر بانٹ کا معاملہ اٹھائے،کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام واپس
لینے کا مطالبہ کرے۔تاہم یہ بات فوری توجہ کی متقاضی ہے کہ پونچھ ہاﺅس
راولپنڈی کا انتظام آزاد کشمیر حکومت کے حوالے کیا جائے۔پونچھ ہاﺅس کی
تاریخی ورثے کی حامل عمارت کو محفوظ بنانے کے اقدامات کئے جائیں۔ کشمیر
سٹیٹ پراپرٹی کے حوالے سے کی جانے والی بدعنوانی کے موضوعات وفاقی حکومت ہی
نہیں مملکت کے خلاف بھی مخالفانہ جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ |