اعلان بغاوت

 مقدمے کا فیصلہ ہو چکا، اس کی حیرت زد ہ نظریں مدعی کے پر نو ر چہرے کا احاطہ کیے ہوے ہیں ۔ فیصلہ تو اس کے حق میں ہوا مگر وہ یہ خوب جانتا ہے کہ وہ حق پہ نہیں ۔ عدل و انصاف کے شفاف اور اجلے رنگ نے اسے حیرت کے اس بھنور میں لا کر رکھ چھوڑا ہے جہاں سے نکلنے کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ وہ ضمیر زندہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سچ سے پردہ اٹھا کر حقیقت کوبے حجاب کر دے۔ دارالخلافہ مدینے سے کوفے منتقل ہو چکا۔سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت ہے۔ شریح اسلامی مملکت کے چیف جسٹس ہیں ۔ امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ ایک یہودی کا تنازع ان کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں ۔ امیر المؤمنین کی زرہ کہیں گر پڑی تھی اور اِس یہودی کے ہاتھ لگ گئی۔ امیر المؤمنین کو پتا چلتا ہے تو اِس سے زرہ کا مطالبہ کرتے ہیں ، مگر یہودی کہتا ہے کہ زرہ میری ہے، چنانچہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ امیر المؤمنین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ چیف جسٹس شریح فریقین کے بیان لیتے ہیں ۔ یہودی اپنے بیان میں کہتا ہے کہ زرہ میری ہے اور اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میرے قبضے میں ہے۔ چیف جسٹس شریح، امیر المؤمنین سے اپنے دعوے کے ثبوت میں گواہ پیش کرنے کو کہتے ہیں ۔ وہ دو گواہ پیش کرتے ہیں ، سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ او ر حضرت قنبر چیف جسٹس شریح کہتے ہیں کہ قنبرکی شہادت تو قبول کرتا ہوں لیکن حسن کی شہادت قابلِ قبول نہیں ۔ امیر المؤمنین کہتے ہیں کہ آپ حسن کی شہادت کو مسترد کرتے ہیں ! کیا آپ نے رسول اللہ کا ارشاد نہیں سنا کہ حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ چیف جسٹس شریح کہتے ہیں ’’سناہے ؎، مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں ۔‘‘ دوسرا شاہد نہ ہونے کی وجہ سے امیر المؤمنین کا دعویٰ خارج کر دیا گیا۔امیر المؤمنین نہ تو کوئی آرڈی نینس جاری کرتے اور نہ کسی قانون کی پناہ ڈھونڈتے ہیں بلکہ اِس فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں ۔ یہودی اِس فیصلے سے بے حد متاثر ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص صاحبِ اقتدار ہونے کے باوجود زرہ اِس سے نہیں چھینتا بلکہ عدالت کے دروازے پر دستک دیتا اور مدعی کی حیثیت سے اِس کے سامنے جاتا ہے۔ پھر عدالت اِس کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ نہیں کرتی، مدعی اور مدعا علیہ دونوں یکساں حالت میں اِس کے سامنے پیش ہوتے ہیں ۔ عدالتی کارروائی میں بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا، روز مرہ کی سی کارروائی ہوتی ہے اور عدالتی طریق کار کے عین مطابق۔ پھر عدالت کا جج امیر المؤمنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا اور امیر المؤمنین بے چون و چرا اِس فیصلے کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ اسلامی عدالت کا بے لوث عدل اور امیر المؤمنین کا منصفانہ کردار اِس کے دل میں کھب جاتا ہے۔ وہ وہیں عدالت میں پکار اۡٹھتا ہے کہ’’ زِرہ امیر المؤمنین ہی کی ہے اور جس دین کا ماننے والا قاضی، امیر المؤمنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا ہے اور امیر المؤمنین اِس فیصلے کو بلا حیل و حجت تسلیم کر لیتا ہے، وہ یقینا سچا ہے۔ امیر المؤمنین اِس یہودی کے اسلام قبول کر لینے پر اِتنے مسرور و شادماں ہوتے ہیں کہ بطور یادگار اپنی زرہ اِسے دے دیتے ہیں ۔ اب اگر مدعی اور گواہ کے مقام و فضیلت کی بات کی جائے تو چیف جسٹس شریح بھی اس بات سے خوب واقف تھے کہ باروز حشر مالک کوثر کے پہلو میں جس ساقی کوثر سے ملاقات ہونی ہے وہ جناب سیدنا حضرت علی رضی اللہ ہی ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور اللہ اور اس کا رسول انھیں محبوب رکھتا ہے ۔مسلمان اپنی ہر سانس کے ساتھ جنت کا طلبگار ہے مگر سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کی شان کہ بوقت پیدائش ہی نہ صرف جنت بلکہ جنت کی سرداری کی بشارت سنا دی جاتی ہے۔ آغوش رسالت ص میں پرورش پانے والی ان پاک ذاتوں سے کذب بیانی کی توقع جہنم کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے مگر پھربھی کیا وجہ کے سردار جنت کی شہادت کے باوجود ساقی کوثر کا دعویٰ خارج کر دےا جاتا ہے؟ وہ بھی ایک یہودی کے حق میں ؟ اگر مرتبہ وفضیلت کی بنیاد پر فیصلہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ کے حق میں کر دیا جاتا تو آج اسی فعل کو حجت بنا کر شاید صدارتی استشنا کے انتہائی غیر اسلامی اور مکروہ حق کو بھی اسلامی قرار دے دیا جاتا، جیسے تمام ترغیراسلامی شقوں کے باوجود ہم آئین پاکستان کو ایک اسلامی آئین ماننے پر ڈھٹائی سے بضد ہیں ۔ بقول قرآں اللہ اور اس کا رسول سود کے خلاف جنگ میں ہیں مگر اسلامی جمہوریہ کا معاشی نظام جس کا بال بال سود ی نظام میں ڈوبا ہوا ہے بلواسطہ ےا بلاواسطہ اس جنگ میں ہمیں اللہ اور اسکے رسول کے مخالف لا کھڑا کر رہا ہے۔ قصاص میں اللہ نے زندگئی رکھ دی مگر سیکولر انتہا پسندوں کی ایما پر ہم کس قدر بے خوفی سے اللہ کے اس قانون کا تمسخر اڑانے میں مصروف ہیں ۔ آج ہم اللہ کے بجائے مغرب کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور حق کے بجائے باطل سے مرعوب ہیں ۔ اب نجات اسی میں ہے کہ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا جاے اور انسانی حقوق کے اصل محافظ نظام ؛نظام خلافت؛ کی طرف لوٹا جاے کہیں ایسا نہ ہوکہ اللہ کے خلاف یہ اعلان بغاوت ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دے۔
Khurram Awan
About the Author: Khurram Awan Read More Articles by Khurram Awan: 2 Articles with 1178 views A freelance writer, Website developer and an average Pakistani. .. View More