صحافت اور وزارت اطلاعات

اقتداراﷲ کی نعمتوں میں سے ایک ایسی آزمائش ہے جو سروخرو ہوا اسی نے معراج پائی ، تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو دوام صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے ،یہ عارضی دنیا کا جاہ و جلال فانی مخلوق کیلئے ہوا کا جھونکا ہے۔چنگیز خان سے ہلاکو خان اور بنو امیہ سے مغلیہ ادوار تک محیط اقتدار کی داستانیں اس امر کی صداقت ہیں کہ طاقت و احتیار کے تمام تر واقعات جہاں ہمارے لئے سبق آموز ہیں وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خالق کائنات ہر ذی شعور سے مخلوق کی آبیاری کیلئے کام لینے کا کسی کو اختیارات دیکر اسے آزماتا ہے اگر وہ سیدھی ر اہ پہ چل پڑا تو اسے تاریخ نے سنہری حروف میں مقام نصیب ہوا مگر جس نے بھی اختیارات کا منفی استعمال کیا وہ نشان عبرت ٹہرا،اقتدار کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی صدر ،وزیر اعظم ،وزیر تک محدود ہے بلکہ اقتدار ہر شہری کو ملتا ہے جو ایک گھر کے سربراہ سے لیکر ہر ادارے میں کام کرنے والے نائب قاصد سے سیکرٹری تک محیط ہے۔اس ضمن میں ماضی قریب کی چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں،آزادکشمیر کے نامور سیاستدان اور سابق صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس راجہ حیدر خان جو ایک متمول خاندان کے چشم و چراغ تھے ان کا دیوان ان کی حیات میں ہر خاص و عام کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا تھا ،یہی ان کا وصف ان کے دنیا سے جانے کے بعد اب بھی نصف صدی گذرنے کے باوجودان کی یاد دلاتا ہے۔ایسا ہی ایک اور واقعہ ایک بیوروکریٹس سے منسوب ہے ،خواجہ حبیب اﷲ نامی ڈی ایف او مظفرآباد جب کہیں دفتر سے باہر ٹور پر جاتے تو وہ کھانا کسی کے ہاں محض اس لئے نہ کھاتے کہ مبادہ کہیں رشوت کے طور پر ناجائیز کام کرنے کی راہ ہموار نہ کر دے ،وہ کھانا اپنے ساتھ لاتے اور ہمراہی سات ھیوں کے ساتھ تناول کرتے ،بظاہر آج کے دور میں یہ واقعہ معمولی نوعیت کا تصور ہوتا ہے مگر بغور دیکھا جائے تو حقوق العباد کے حوالے سے بنیادی اہم یت کے حامل ہے۔

ہمارے ملک میں بے شمار شخصیات کئی اعلیٰ اوصاف کے حامل ہیں جن کی بدولت خلق خدا مستفید ہو رہی ہے ۔اسی اقتدار و اختیار کی دوڑ میں آج بھی ہر سطح پر افراد اپنے اپنے کردار کو رقم کر رہے ہیں ،اس ساری تمہید کا لب و لباب یہ ہے کہ آجکل آزادکشمیر کی کابینہ میں ایک وزارت کے لئے غیر معمولی دوڑ دکھائی دے رہی ہے ،وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدلمجید نے گذشتہ دنوں وزارت اطلاعات سید بازل نقوی سے لیکر اپنے پاس رکھی ہے جبکہ بازل نقوی کو وزارت زراعت و لائیو سٹاک دی گئی ہے ،اب وزارت اطلاعات کے لئے کابینہ کے وزراء میں شدت سے لابنگ جاری ہے ،اطلاعات کے مطابق چوہدری جاوید بڈھانوی ،چوہدری مطلوب انقلابی ،میاں عبدالوحید ،ماجد خان اور صدر ریاست کی بیٹی فرزانہ یعقوب وزارت اطلاعات کیلئے دوڑ میں شامل ہیں ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات میں کیا اہمیت ہے کہ اس قدر وزراء اپنی وزارتوں کو کم اہمیت دیتے ہوئے اس وزارت پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ۔دراصل صدر ووزیر اعظم کے بعد وزارت اطلاعات اہم حیثیت رکھتی ہے ،صحافت ریاستی نظم و نسق میں چوتھا ستون کہلاتا ہے ،اکیسویں صدی کے اس دور میں میڈیا نے اپناسکہ پوری دنیا میں جما رکھا ہے ،جس کی وجہ سے صحافتی نیٹ ورک اہمیت کا حامل قرار پاتا ہے۔اس لحاظ سے کسی ملک و ریاست کی سلامتی،استحکام اور ترقی میں میڈیا کا رول بنیادی اہمیت رکھتا ہے ،اس نسبت سے صحافت کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا معاشرے میں منفرد مقام مسلمہ حیثیت رکھتا ہے ،یہ امر خوش آئند ہے کہ وزارت اطلاعات کیلئے اہم وزراء میدان میں اتر آئے ہیں ،اس وزارت کی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے متوقع امیدواروں کو جان لینا چاہئے کہ صحافتی شعبہ میں اب بھی استحصالی طبقہ نے کارکنوں کو محرومیوں کا شکار کر رکھا ہے،جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ،ہر حکومت ہر سال صحافیوں کی فلاح و بہبود کا عزم دوہراتی ہے مگر دیکھا گیا کہ ریاست کے چوتھے ستون کو مفاداتی طور پر تقسیم در تقسیم کرنے کے سوا کوئی پیش رفت نہیں کی گئی،وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کہنہ مشق سیاست دان ہیں جن سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ صحافیوں کی قدر دانی کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے یاد گار اقدامات اٹھائیں گے۔اس حوالے سے وزارت اطلاعات کاقلمدان بھی میرٹ پر سونپنے کی سعی ضروری ہے، سیاسی میدان میں چوہدری مطلوب انقلابی سے فرزانہ یعقوب تک جو نام زیر بحث ہیں ان میں چوہدری جاوید بڈھانوی کی شخصیت نمایاں اہمیت رکھتی ہے ،چوہدری جاوید بڈھانوی نے سیاست کے میدان میں سالار جمہوریت کو چت کر کے نمایاں مقام حاصل کیا ان کی عوام دوستی اور مثالی کردار اس امر کا تقاضہ کرتا ہے کہ انہیں وزارت اطلاعات کی بھاری ذمہ داری دیکر عہدہ براء ہونے کا موقع دیا جائے تو امید کی جاتی ہے کہ ان کی خد ا داد صلاحیتوں کے بروئے کار لانے سے وزارت اطلاعات میں نمایاں تبدیلی رونما ہو سکے گی ،بلا شبہ دیگر وزراء بھی کسی طور کم حیثیت نہیں رکھتے مگر انہیں اپنی وزارتوں تک کارکردگی بہتر بنانے کیلئے ٹارگٹ کیا جانا بھی ضروری ہے بہرحال حکومت تک مفید مشورہ پہنچانا ہماری صحافتی ذمہ داری ہے فیصلہ بہر حال قومی مفاد میں کیا جانا ضروری ہے۔

Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 25464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.