گٹکا ہمارے معاشرے کا ایک ایسا
سستا ترین زہر جو ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے پھیل رہا اور استعمال کیا
جارہا ہے کہ کوئی بھی اس کے استعمال سے بری ازذمہ نہیں،اس کی بری عادت میں
بوڑھے ،جوان،لڑکے ،لڑکیاں اور بچے بلکہ ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے انسان
شامل ہیں کہ اس کے بغیر گزارا ہی نہیں اور اس کو کھانے سے ان میں نشے کی
عادت بڑھتی ہی جاری ہے اور اس طرح کھایا جارہا ہے جیسے کوئی ذائیقہ دار چیز
ہو اور نہ کھائیں تو پیٹ نہ بھرے اور یہ نہ صرف اب پاکستان میں بنایا جارہا
ہے بلکہ دوسرے ملکوں سے برآمد بھی کیا جارہا ہے اور بڑی تعداد میں چھوٹی
چھوٹی پان کی دکانوں پر بہت ہی کم پیسوں میں فروخت کیا جارہا ہے جس میں اَن
پڑ ھ اور پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں کیونکہ اس کی اسیی لت لگتی ہے کہ اگر کوئی
اس عادت کو لگوادے تو پھر عادت چھوٹے نہ چھٹیـــــــ اور پھر عادت لگنے کے
بعد نہ کھا ئے تو زندگی عذاب جیسی گزرے
گٹکا بہت سی مختلف چیزوں سے ملا کر بنایا جاتا ہے اور اس میں اس طرح کی
چیزیں استعما ل کی جارہی ہیں کہ اگران کے بارے میں کسی نئے شخص کو بتایا
جائے تو شاید اسکو سن کر عجیب لگے مگر گٹکا کھانے والے تقریباً تمام لو گوں
کو اسکا علم ہے ان میں کیڑے لگی ہوئی چھالیا،بیٹری کا استعما ل شدہ
پانی،چونے کا پسہ ہوا پتھر ،تمباکو، پسہ ہوا کانچ ،رنگ ملا کھتہ ،افیم
،اسپا گھول ،خوشبو والے ذائیقے دار فلیورز،مختلف کیمکلز اور خون شامل ہیں
اور یہ تمام چیزیں انسانوں کی جان لئے بغیر نہیں رہتی اور انہیں موت کے
گھاٹ اتار کر ہی چھوڑتی ہے اور ان تمام چیزوں کو ان برتنوں میں مکس کیا
جاتا ہے جو سالوں سے دھلے ہی نہیں ہیں،
ایک ڈاکٹر جو کراچی کے جناح ہسپتا ل کے وارڈ نمبر 4میں بیٹھتے ہیں ان سے
معلوم ہوا کہ روزانہ تقریباً 150سے زائد مریض جو منہ،زبا ن ،گلے،اور گردن
کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں انہوں نے مزید بتایا کے ہر سال تقریباً
20ہزارکینسر میں مبتلا لوگ علاج کے لیے آتے ہیں اور اسکے علاوہ اب گٹکے سے
اور بھی بیماریاں پیدا ہوری ہیں جسمیں ہارٹ اٹیک ،معدہ میں تیزابیت ،بلڈ
پریشر ،اور نفسیاتی بیماریاں شامل ہیں اور بتایا کے کینسر کی بیماری اگر
پہلے اسٹیج پر معلوم ہوجائے تو احتیاط کر کے اسکو کنٹرول کیا جاسکتا ہے مگر
یہ بیماری جان لیکر ہی دم لیتی ہے ا ورایک خبر تو بہت وحشت ناک لگتی ہے کہ
ابھی چند ہفتوں پہلے ایک اخبار میں یہ بتایا گیاکہ ایک علاقے میں پولس کی
نگرانی میں خون ملا گٹکا تیار کیا جا رہا ہے انکا مقصد یہ گٹکا عام سے عام
انسان تک پہنچانا ہے اور اسکی کھپت ہرجگہ پوری کی جاسکے اب ظاہر ہے پولس کو
بھی اپنا فائدہ دیکھنا ہے کیونکہ کچھ پولس والے غیر قانونی کام کرنا شاید
ضروری سمجھتے ہیں جب قوم کی حفاظت کرنے والے ہی قوم کے دشمن بن جائینگے تو
اس ملک کا کیا حال ہوگا یہ سب جانتے ہیں
اور ایک ماہر سرجن ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کے مختلف چھالیا کھانے کی عادت
سے گٹکا کھانے کی عادت لگ جاتی ہے اور گٹکے میں جو چھالیا استعمال کی جاتی
ہے اسکا جوس مختلف کینسر میں مبتلا کر دیتا ہے
ہما ری حکو مت نے گٹکے کی خریدوفروخت پر پابندی تو لگادی کیا اصل میں وہ پا
بندی نظر آتی ہے ! شاید نہیں ،صرف کراچی میں 4500کلو گرام گٹکے کی فروخت
جاری ہے اورحیران کن بات ہے کہ اسکو استعما ل کرنے والے13 سے18 سال کی عمر
کے لڑکے اور لڑکیاں ہیں اور ان کی اوسط 60% ہے یہ کہنا برا نہ ہوگا کہ گٹکے
پر پابندی لگانا اچھی با ت ہے لیکن اس پر عمل کیا جارہا ہے یہا ں پابندی تو
لگا دی گئی پر اس طرح لو گوں نے گٹکا اسمگل کرنا شروع کردیا اور گھروں میں
ہی اس کی تیاری شروع کردی،ایک رپورٹ کے مطابق جب ڈاکٹر سیف الرحمن ( ڈپٹی
کمیشنر کراچی) سے گٹکے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسکے جواب میں
کہا کہ ہم ایک جنگ کی طرح اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس
کی جڑیں بہت ہی مضبوط اور گہری ہیں اس مسئلہ کو جلد سے جلد ختم کرنے کے لئے
ہمیں لوگو ں کے ساتھ کی ضرروت ہے اور انہوں نے مزید بتایا کہ39 افراد کے
خلاف گٹکے کی FIRدرج ہوئی ہیں اور اس میں ہروئن بھی بڑی تعداد میں شامل ہے
تا کہ پاکستان میں گٹکے کی زیادہ سے زیادہ استعما ل کے بعد لوگوں کو اسکی
عادت میں مبتلا کر کے وہ لوگ اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو ختم کردیں تاکہ
اس بری عادت میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہوجائیں
میں گٹکے کی معلومات کرنے کے لئے جب پان کی بہت سی دکانوں پر گیا تو میں نے
دکان دار سے پوچھا کہ آ پ گٹکے کاروبار کر کے کیوں لوگو ں کو تباہی کے
راستے پر لا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بھا ئی آج کل لوگ گٹکا پہلے
مانگتے ہیں پان بعد میں اور بتایا کے گٹکے کی ضرورت بہت زیادہ ہو نے لگی ہے
اور اگر گٹکا نہ ہوتو ہما را کاروبار نہ چلے ، اور ہم اپنے بچوں کا پیٹ
کیسے پالیں وہاں کھڑے میں نے ایک نوجوان لڑکے سے پوچھا کہ بھا ئی کیوں گٹکا
کھا کر اپنی زندگی داؤ پر لگاتے ہو تو انہوں نے کہا کے عادت ایسی لگ گئی ہے
کھا ئے بغیر گزارا نہیں اور رہا بھی نہیں جاتا ،چکر آتے ہیں ،پیٹ میں درد
ہونے لگتا ہے،بھو ک مر جاتی ہے اور میں نے جب پوچھا کے کتنے روپے کے گٹکے
خریدتے ہو تو کہا کہ0 4سے50کاکھا لیتا ہوں میں نے اور گٹکا کھانے والوں سے
معلومات کی تو تقریباً ایک ہی جواب ملا مگر ایک نے تو عجیب سا جواب دیا اس
نے کہا کے مجھے کھا نا نہ ملے بس گٹکا مل جائے تو پورا دن گزار لو نگا تو
میں نے دل میں سو چا کہ کیسا انسان ہے جسکو نہ اپنی پروہ نہ اپنے گھروالوں
کی ،اور کچھ تو ایسے بھی گٹکا کھا نے والے تھے جو روز کے 70 سے80 روپے
کمانے والے چھوٹے لڑکے ہیں جو 20 سے30روپے گٹکے میں اڑا دیتے ہیں اور اسمیں
پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے والدین سے چھپ کر گٹکا کھا تے ہیں او
صرف میرے علاقے میں مجھے اندازا ہوا100 میں سے95 لوگ گٹکا کھانے والے ہیں
اورجتنی بھی دکانوں پر میں گیا تو ہر دکان دار تقریباً2000 سے2400 تک
روزانہ کا گٹکا فروخت کرتا ہے جسمیں انہیں 1000روپے تک فائدا ہوجاتا ہے اور
انکے تمام گھروالے بھی گٹکا کھاتے ہیں تو ذہن میں بات آ ئی کہ وہ ملک کیسے
ترقی کر سکتا ہے ب اسمیں رہنے والے ہی اس ملک کو بہتر بنا نا نہ چاہتے ہوں
کچھ روپوں کی خاطر لوگوں کی اور اپنی زندگی بربا دی کی طرف لیجارہے ہوں تو
انکی کیا سوچ ہوگی
آ ج کل کراچی میں گٹکے کی فروخت کراچی کے ایک علاقے ابراھیم ہیدری میں بہت
بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اسکے علاوہ کھارادر ،لیاقت آباد ،لسبیلہ،گولی مار
بھی شامل ہیں اور اسمیں گٹکے کے مختلف نام ہیں جیسے منےّ والا ،کھتے والا
،چونے والا ،ماوا،اور مین پوری وغیرہ شامل ہیں اور گٹکے کے ایک پیکٹ کی
قیمت 10روپے ہے جو بآسانی ہر پان کی دکان سے مل جاتا ہے
کراچی میں تقریباً 37% پڑھے لکھے لوگ گٹکا کھاتے ہیں جس میں سے 32%نو جوان
ہیں اورتمباکومیں 63%ماوہ کھایا جاتا ہے اور 57%گٹکا جو نوجوان دن میں6سے8
بار کھاتے ہے اور 20 سے30 سال کے نوجوان 84%ہیں اور اس سے کم عمر کے 76%ہیں
اور کراچی میں 7% پرائمری اسکول کے بچے شامل ہیں اور ان سب میں سے 55%مختلف
بیماریوں پھیل رہی ہیں اوربازار میں 122قسم کی مختلف چھالیافروخت کی جارہی
ہے
(( published in Express Tribune
میں بہت سے ان لوگوں کے پاس بھی گیا جواپنی آواز گٹکا کھانے کی وجہ سے کھو
چکے تھے ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ بات کرنے لئے کوئی آلہ استعمال کرتا
ہے جس کی قیمت زیادہ ہے اسکو خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اسنے بتایا
کہ اسکو استعمال کرنا بھی آسان نہیں وہ گلے کی ایک نبض پر رکھ کر استعما ل
کیا جاتا ہے تو بہت ہلکی سی آواز گلے سے نکلتی ہے پھر کچھ سمجھ آتا ہے
بہر حال اگر گٹکے کی ان تمام جڑوں کو ختم نہ کیا گیا جہاں بنایا جاتا ہے
جہاں سے بر آمد کیا جاتا ہے اور اگر ہمارے معاشرے میں میں گٹکے کا استعمال
اسی طرح جاری رہا تو یقینا وہ لوگ جو اس بیہودہ اوربری عادت سے بچے ہوئے
ہیں وہ بھی اس میں شامل ہوجائیں گے اگر سختی سے اس مسئلہ کو حل ختم نہ کیا
گیا تو ایک دن ایسا آیئگا کہ گٹکا سب سے بڑا جان لیوا مرض بن جائیگا اور
پھر پچتانے کے سوا کوئی چا رہ نہیں رہیگا ہماری گورمنٹ کو چاہئے جو لوگ اس
کاروبار میں شامل ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرے تاکہ ہر کوئی اپنی
زندگی کو بربا دی کے راستے پر گامزن نہ کرے۔
|