پر امن علاقہ اور شرارت ……

پاکستان کے معروف کالم نگار منو بھائی اپنے ایک کالم جس میں دہشت گردی آبرو ریزی قتل و غارت گری اغواء برائے تاوان جیسے مسائل کے بارے میں لکھتے ہوئے پاکستان کے چاروں صوبوں ،دارالحکومت فاٹا وغیرہ کے بارے میں لکھنے کے بعد ایک جگہ یوں قلم کشائی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان جیسے نسبتاً امن پسند علاقے میں بھی آبروریزی کی بائیس وارداتیں رجسٹر کی گئی ہیں-

منو بھائی کا یہ جملہ سن کر تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی ان کا یہ جملہ جس قدر حیران کن تھا اسی قدر پریشان کن تھا حیران کن اسلئے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں شاید یہ اعداد و شمار ریکارڈ ساز ہونگے کیونکہ یہاں کے مکین اس الجھن کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ آبرو ریزی کے واقعات یہاں بہت ہی کم رونما ہوتے ہیں اور یہ اعداد و شمار تقریباً پانچ سالوں کے دورانیہ کا ہے نسبتاً یہ علاقہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت پھر بھی محفوظ ہے لیکن افسوسناک ضرور ہے-

منو بھائی کا جملہ پریشان کن اسلئے ہیں کہ انہوں نے گلگت بلتستان کے ساتھ جان بوجھ کر یہ لفظ’نسبتاً امن پسند ‘ لکھا ہے حالانکہ وہ حقائق کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کل اور پرسوں تک یہاں فرقہ واریت کو بنیاد بناکر ہر ہاتھ آنے والے کو موت کے گھاٹ اتارا جاتارہا پاکستان کی کونسی ایسی فوج ہے جو حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے گلگت کی طرف پیش قدمی نہ کرچکی ہوجن میں لوکل پولیس جی بی سکاؤٹس ایف سی سے لیکر پاک آرمی اور رینجرز تک ہر قسم کی ملٹری یہاں پہنچی اور دہشت گردوں سے لڑی اور نتیجتاً فوج کے بھی کئی مرتبہ سپاہی اس میدان میں جام شہادت نوش فرماگئے اس کے باوجود انہوں نے اس علاقے کو امن پسند لکھ دیا یہ بات یقینا پریشان کن ہے،اس پریشانی کو ختم کرنے کیلئے میں دربدر گھوما پھرا کہیں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا آخر میں عقل نمبردار کے پاس گیا انہوں نے مجھے دو خاص بندوں وزیر تاریخ اور منشی علم کے پاس بھیج دیا میں اپنا وقت ضائع کئے بغیر ان کے پاس پہنچ گیا علیک سلیک کے بعد میں نے جب تاریخ اور علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ منو بھائی ہمارے گھرانے کا ہی بندہ ہے انہوں نے جان بوجھ کر آپ کے علاقے کو امن پسند لکھا ہے میں نے فوراً بات کو ٹوک کرمندرجہ بالا دلائل دے دئے اس پر سب سے پہلے وزیر تاریخ نے ایک بھرپور قہقہہ لگائی اور کہا کہ اگر آپ اس چیز کو دہشت گردی کہتے ہو تو میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ کوئی بھی دور اس بات سے خالی نہیں گیا ہے حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علیؓ کے دور سے لیکر عباسی دور اموی دور فاطمی دور ہندوستان میں مغل دور تقسیم ہندسے لیکرخمینی انقلاب تک کوئی بھی دور اس فتنے سے نہیں بچ پایا ہے اس پر منشی علم نے فوراً بات کاٹی اور کہا کہ ہاں اگر آپ اس سے امن پیدا کرنا چاہتے ہو تو بہت ہی آسان ہے میں نے اس پر طنز کر کے کہا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے تو انہوں نے مجھے گزشتہ سال امن کے قیام کیلئے اور فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ہونے والے کچھ دستاویزات دے دی اور کہا کہ آپ مملکت خداداد پاکستان کے شہری ہیں اور ریاست پاکستان آپ کے امن کی ضامن ہے اور وہ اس سلسلے میں جو کچھ کررہی ہے آپ کو اس پر اعتبار اور اعتماد ہونا چاہئے دستاویزات میں پہلے اسلامی نظریاتی کونسل میں ہونے والے کوششوں کا زکر تھا اسلامی نظریاتی کونسل میں کچھ عرصہ پہلے پندرہ نکاتی ضابطہ اخلاق پیش کیا گیا تھا لیکن ان پندرہ میں سے نو نکات ایسے تھے جن پر تمام شرکاء نے اتفاق کیا جس کے تحت خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام کے بارے میں کسی بھی قسم کے توہین آمیز کلمات کہنے سے گریز کیا جائے کسی بھی فرقے کا مذہبی پیشوا اور مذہبی عالم کسی کو بھی کافر قرار نہیں دے گا اور نہ ہی کسی کو قتل کا سزاواسر قرار دیا جائے گا آذان اور عربی میں دیے جانے والے مذہبی خطبے کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی کوئی بھی نفرت آمیز تقاریر تبصرے نعرے نہیں لگائے گا ہینڈ بل کتابوں کتابچوں یا پریس ریلیز وغیرہ کی صورت میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت نہیں کی جائے گی اس کے علاوہ ایک دوسرے کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ وال چاکنگ سے گریز کیا جائیگا تمام فرقے مشترکہ عوامی اجتماعات کا انعقاد کرکے بین المسالک ہم آہنگی تعاون اتحاد اور محبت کو فروغ دیں گے اور تمام فرقوں کے مذہبی پیشوا اور مذہبی رہنماء ایک دوسریکا احترام کریں گے اور اسلحے وغیرہ کی سختی سے پابندی ہوگی۔

میں نے اس دستاویز کو بند کرکے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کس طریقے کار کیلئے کام کرتی ہے منشی علم نے قہقہہ لگائی اور کہا کہ اس میں تمام فرقوں کے اکابر ہوتے ہیں اور کسی بھی دینی مسئلے پر دلائل اور براہین کی روشنی میں یہ کونسل سفارشات مرتب کرتی ہے اور ان سفارشات کو قومی اسمبلی میں پیش کرتی ہے جو حسب ضرورت ان سفارشات کی روشنی میں کوئی قانون ،ایکٹ یا دفعہ بناتے ہیں اور ان کو ملک میں نافز کرتی ہے لیکن بہرحال کونسل کا کام صرف سفارشات مرتب کرنا ہوتا ہے اتنے میں وزیر تاریخ نے ایک اور دستاویز میرے ہاتھ میں دی اور کہا کہ میرا تازہ ترین کارنامہ ہے یہ اور یہ آپ کے اس پر امن علاقے کی قانون ساز اسمبلی نے مجھ پر عنایت کی ہے ’یہ 18نکات پر مشتمل ایک دستاویز تھی جو کہ ملکت خدااداد پاکستان کے گزٹ میں چھپ چکی تھی یعنی ایک لحاظ سے یہ ایک قومی ایکٹ بنا تھا اور گلگت بلتستان اسمبلی سے اتنی آسانی سے یہ ایکٹ پاس ہونا خود کمال کی بات ہے ان 18نکات میں دونوں فرقوں کے خطباء ،جامع مساجد،گورنمنٹ آف جی بی،مساجد بورد اور تمام سرکاری ملازمین کو مخاطب کیا گیا ہے جس کے مطابق کسی بھی دہشت گرد کو مذہبی پناہ نہیں دی جائیگی،لاؤڈسپیکر کا استعمال صرف ازان تک محدود کردیا جائے،مساجد عبادت گاہیں ہیں اورکسی بھی سیاست کا کسی بھی طریقے سے کوئی مرکز نہیں بن جائے گا،موبائل کے زریعے دل آمیز پیغامات پر مکمل پابندی کے علاوہ سوشل میڈیا کے زریعے بھی اس قسم کے حرکات وسکنات کو محدود کیاجائے،ایک دوسرے کا باہمی ادب و احترام کیا جائے،جامع مساجد کے خطباء تمام شہریوں کی جان مال کے تحفظ کی زمہ داری دے اور خصوصاً ان جگہوں پر جاہں ایک فرقہ majority میں ہے وہاں پر دوسرے تمام مکاتب فکر کے جان مال کی تحفظ دی جائے گی اور ہر تین ماہ کے بعد joint sessions کا انعقاد کیا جائے گا جس میں خطباء بھی شرکت کریں گے،مسجد بورڈ کا کام عوام اور حکومت کے درمیان ایک رابطہ پل کی حیثیت سے ہوگا اور کوئی بھی بنی نوع انسان اس بل کی مخالفت کریگا اس پر دفعہ 14،15اور دہشت گردی کا قانون نافذ ہوگا-

درج بالا دستاویز کو سرسری پڑھنے کے بعد میں نے فوراً سوال داغ ڈالا ’اگر یہ سب کچھ گلگت بلتستان سے ہوگیا ہے تو پھر یہاں پر امن کا نام و نشاں پھر بھی نہیں پایا جاتا ہے اور مسلسل ٹارگٹ کلنگز اور دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے‘ علم آگے آیا اور کہا کہ میرے مطابق جب یہ قانون بن چکا ہے تو پھر صرف ایک چیز کی کمی ہے اور وہ حکومت کی رٹ ہے کیونکہ یہ حکومت کے اثاثے کی حیثیت ہے اگر کوئی اس میں اونچ نیچ کرتا ہے تو اس پر لازمی طور پر مضبوظ گرفت ہونی چاہئے‘اتنے میں تاریخ سامنے آئی اور کہا کہ اب آپ کو سمجھ میں آنا چاہئے کہ منو بھائی نے اس خطہ بے نظیر کو کیوں امن پسند کہا ہے ‘میں نے اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے سر ہلا یا تو اس نے کہا کہ جس کو آپ دہشت گردی کہتے ہو وہ درحقیقت شرارت ہے اور شرارتی عناصر ہر جگہ اور ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں اور اس قسم کی شرارت بہت مہنگی پڑتی ہے جیسے کہ مجھے بغداد کا پتہ ہے جب وہاں پر ہلاکو خان نے قتل غارت گری کی نئی داستاں رقم کی اور مجھے ہلاکے رکھ دیا تھا اس وقت بھی علاقہ بغداد میں بس کچھ اسی قسم کی شرارت چل رہی تھی‘مجھے عقل نے علم اور تاریخ کا دروازہ دکھایا جنہوں نے ثابت کردیا کہ یقینا گلگت بلتستان خطہ بے نظیر ہے اور پرامن علاقہ ہے جہاں پر اغواٗ برائے تاوان کے کیسز سب سے کم آبرو ریزی کے کیسز سب سے کم بھتہ خوری کے واقعات سب سے کم اور کسی بھی قسم کے دیگر مسائل یقینا اس خطہ بے نظیر اور امن پسند علاقے میں بہت کم ہے سوائے شرارت کے اگر حکومت تھوڑی سی مضبوط ہوگئی تو وہ وہ اس شرارت کو بھی بآسانی سے کنٹرول کرسکتی ہے -
Faheem Akhtar
About the Author: Faheem Akhtar Read More Articles by Faheem Akhtar : 46 Articles with 34433 views Student of media and communication .. View More