گجرات کے و زیر اعلی اور سرخیو ں
میں ہمیشہ رہنے کے شوق کے حامل نریند رمودی آج کل بڑی کشمکش کا شکار ہیں ان
کی یہ بے چینی زیادہ معنی نہیں رکھتی تا ہم کچھ امور ایسے لا حق ہو گئے ہیں
کہ کلفتیں بڑھتی جارہی ہیں او ردل کی خلش مائل بہ عروج ہے ،دنیا جانتی ہے
کہ بے جی پی اور ْراج ‘ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں دونوں کے اغراض و مقاصد
گرچہ جدا ہوں تاہم نشان منزل اور مطمح نظر ایک ہی ہے ،دو نو ں اپنے اپنے
علاقہ میں اپنے متعینہ خطوط و نکات پر عمل پیرا ہیں دونو ں میں مخالفت اگر
ہوئی بھی تو آپسی مصالحت او رافہام و تفہیم کے ذریعہ حل کر لی گئی ، خو شی
و غم دونو ں میں برابر کے شریک رہے ہیں ۔الغرض ابھی ْراج ‘کا عجیب بیان آیا
ہے کہ و زیر اعظم کیلئے نو منتخب او ربی جے پی کیلئے ْہر دیہ سمراٹ‘تصور
کئے جانے والے کے لیے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک کی گفتگو نہ کر کے محض
گجرات کی رٹ لگائے پھریں ،یہ تو محض اس کا گمان ہے کہ گجرات ماڈل مستقبل کے
بھارت کیلئے سود مند ہو گا ،جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کا گجرات مو دی کے
لاکھ دعو وں اور غیر معقول دلیلو ں کے باوجود اپنے متعینہ خطو ط سے بہت دور
ہے ۔اس کی ریاست میں ظاہری ترقیات کی نگہہ خیری ایسی و اقع ہو رہی ہے کہ
بڑا سے بڑا دانشمند ذی فہم بھی مرعوب ہو جارہا ہے اور یقین کر بیٹھتا ہے کہ
ترقیات ہر سطح کی ہیں ۔ذ را تصور کیجئے !تر قیات کے معنی توہر گز یہ نہیں
ہو سکتے کہ انسانیت کی حرمتو ں کو روند دیا جائے او راس امر کو ثابت کر نے
کی پر زور کو شش کی جائے کہ تر قیات کے کوہ ہمالہ کو سر کر لیاگیا ہے آخرش
ترقیات کے کیا معنی ہو سکتے ہیں ؟ترقی کے یہ معنی ہو نگے کہ تمام انسانی
اور تہذیبی اقدار کو مٹا کر اور تمدنی بنیاد کو کھو کھلا کر کے ہندو تو کی
بلند و بالا عمارت کھڑی کردی جائے؟ہاں ترقیات نے اوج ثریا سے ہم کلامی کر
لی ہے اور اس کے دورس نتائج بھی سامنے آرہے ہیں مگر انسانیت کی مردہ لاش کو
روند کر کے یہ شرف حاصل کیا گیاہے اور مودی نے جس گجرات ماڈل کی بات کو
اپنا تکیہ کلام قرار دیتا ہے وہ یقینا ہندوستان کو گجرات بنانے کا ایک
ادھورا خواب ہے کہ ملک کی عظیم جمہوریت او رگنگا جمنی تہذیب کو لخت لخت کر
کے ھندو تو او رمکمل ہندو راشٹر کی بنیاد و طرح رکھ دیں ۔ ْراج ‘کی شخصیت
سیکو لر نہیں کہی جاسکتی او رنہ ہی کبھی ملک کی سالمیت و تحفظ کے تئیں اپنی
فکر کو متحرک کیا ہے بلکہ ازل سے ہی منافرت ،تفریق اور عداوت کو پیش نظر
رکھا ہے وہ آج مودی کو نصیحت کرتے نظر آرہے ہیں کہ آپ گجرات کی بات نہ کریں
بلکہ ہندوستان کی بات کریں ،آخر حق حق ہے کبھی نہ کبھی اس کا اظہار ہو کر
رہتا ہے۔ ْراج ‘جیسے آدمی نے بھی نصیحت دے ڈالی کہ آپ ھندوستان کو ہندوستان
رہنے دیں اپنا گجرات بنانے کی نا مشکور سعی نہ کریں ،اب مودی کیلئے مزید
ذلت و خواری کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے گمان کی رو میں اس قدر
بدحواس ہو گیا ہے کہ یار غار بھی پند و نصیحت کو اپنا لازمہ قراردے رہا ہے
۔بی جے پی کی کشتی کا ناخدا جس ْ شخص ‘کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے وہ کسی نہ
کسی حد تک مشکو ک ہے ،جس طرح اس کا تکیہ کلام گجرات ہے اسی طرح اپنے آئیڈیل
کی گفتگو کو سرراہ بیان کرنا اعزاز سمجھتا ہے اس ذیل میں بھی ْ راج‘نے
مشورہ دیا کہ آپ سردار پٹیل کے مطمح نظر کو کیوں اپنا نصب العین گردانتے
ہیں اور بھی دیگرآنجہانی قائد ہیں کیو ں نہیں ان کے افکار و خیالات سے
اتفاق رکھتے ہیں ؟مو دی کے لیے جہاں تعریفی کلمات کہے وہیں نکیر بھی کی کہ
ہم آپ کے ہر ایک امر سے اتفاق نہ رکھنا اپنا فریضہ گمان کر تے ہیں ۔گویا ْراج‘نے
نصیحت سے ہی کام نہ لیا بلکہ جھنجھوڑا اورچیخ ماری کہ اٹھ ہوش کے ناخن لے
بقول جگر
ﷲ جگر !اب تو ذرا ہوش میں آجا
تنگ آگئے احباب تری بے خبری سے
یہ حقیقت ہے کہ جب سے ہردیہ سمراٹ کے وزیر اعظم کیلئے انتخاب کا اعلان
ہواہے ہندوستان میں بڑی ہلچل سی مچی ہے بلکہ ایک طوفان بد تمیز نے سر اٹھا
رکھا ہے کہ مودی اپنے کو اس عہدہ کیلئے منتخب ہو نے کے بعد خوشی میں اس قدر
سر شار وبے ہوش ہے کہ خود کا احساس نہیں کہ وہ عرش پر ہے یا فرش پر اورایسے
ایسے ہفوات وہذیان کا شکار ہورہا ہے کہ خود احباب بھی تنگ آگئے۔ وہ عناصر
جو جمہوری وعددی طاقت کے فہم میں خطا کے شکار ہوگئے وہ اس امر پر اپنے عزم
بالجزم کی مہر ثبت کرچکے ہیں کہ اپنے ہِردیہ سمراٹ کو وزیر اعظم کی کرسی
تفویض کرکے دم لیں گے یہ ان کی صریح غلطی اور فکری گمراہی ہوگی کہ وہ ایک
ایسے فرد کو اس ذمہ دار منصب کے لیے موزوں خیال کررہے ہیں جس کادامن ماضی
میں ہی معصوموں کے خون سے رنگین ہے۔اب ہندوستانی عوام اپنی صواب دید کا
اظہار کرے کہ کیا ایسا شخص اس کا اہل ہے؟مگر افسوس !مذہبی جنون اور ہندوتو
کاایسا طوفان کھڑا کیا گیا کہ عوام کی تمام فکری لیاقتیں اس کی رو میں خس و
خاشاک کی طرح بہہ رہی ہیں اور بجائے ہوش و حواس کے مزید مدہوشی اور فکری
مغلوبیت کا پیہم اظہار کیا جا رہا ہے یہ نہ تو ہندوستان کے تہذیبی اقدار کے
موافق ہے اور نہ ہی معقولیت و انسانیت کا تقاضہ بلکہ یہ تو تمام تر ہلاکت و
بربادی سے یاری ودلداری کی علامت ہے پر افسوس! آج کے عظیم بھارت کا ایک بڑا
طبقہ اسی کو مستقبل میں بھارت کے لیے مناسب خیال کررہا ہے۔اس کو کیا نام
دیں بے حسی ،غفلت یا پھر ہندوتو کا طوفان عظیم ؟
راج کی نصیحتیں کاش ان غفلت شعاروں کے دل میں اتر جائے جو کسی اور مجہول
سرگرمیوں کے حامل اور تخلیق کار ہیں ان کو تو صاف شبیہ کے مالک اور عدم
تشدد کے نشان موہن کرم چندر گاندھی کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہئے اور ہندوتو
کی بات ترک کرکے انسانیت کی گفتگو کرنی چاہئے کیا موہن کرم چندرگاندھی کے
ہندوستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا ؟ کیا اقوام عالم میں بھارت اپنی پاک
جمہوریت کی ثناخوانی کرسکے گا ؟ اور کیا ہم تمام اہل وطن باہم یگانگت کے
گیت گنگنا سکیں گے ؟شاید مجھ کو میرے سوالوں کا کوئی نقطۂ جواب ہو لیکن راج
کے اس پند و نصیحت اور موعظت سے مودی جھنجھلاہٹ میں کہہ رہا ہوگا بقول غالب
ؒ
کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
مگر یہ حقیقت ہے کہ مو دی ان تمام افکار و نظریات کو اپنے لیے نامناسب خیال
کر تے ہیں جو اس کو انسانیت کے اسباق دے رہے ہوں بلکہ اس کا مطمح نظر ازل
سے یہ رہا ہے کہ وہی افکار و نظریات تسلیم ہے جو کہ اس کو فرقہ واریت پر
ابھاریں اور تشدد کے راہ کوہموار کریں- |