آجکل میڈیا میں پرویزمشرف کیس کی
بہت شہرت ہے کئی میڈیا اینکر اور سیاستدان بہت مزے لے لے کر بغلیں بجاتے
نظرآرہے ہیں جیسے ان کے ہاتھ میں ایسا شخص آگیا ہوجس کو سزادینے سے پاکستان
کو تمام مسائل سے چھٹکارا مل جائے گالیکن اگر اس کیس کو گہری نظرسے دیکھا
جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیس پانی میں ڈالی گئی وہ مدھانی ہے جس سے
کچھ نہیں نکلے گا سوائے اس کے کہ حکومت کو چندروزکیلئے عوام کی توجہ انہی
کے حقیقی مسائل سے ہٹانے کا موقع مل جائے گا بلکہ اگر افواج پاکستان کے
سابق سربراہ پرویزمشرف کو اس طرح single outکرکے انہیں تذلیل کا نشانہ
بنایاجاتا رہا تو اس کے نتائج مزید خوفناک صورت بھی اختیارکرسکتے ہیں کیوں
کہ یہ کون نہیں جانتا کہ پرویزمشرف نے جو کچھ کیا (اس بحث میں پڑے بغیر کہ
انہوں نے جو کیا وہ ملک و قوم کے مفاد میں تھا یا نقصان میں )ہرگز تنہا
نہیں کیا بلکہ وہ تو اس وقت ہوا میں تھے تمام کاروائی تو ان کے دیگر
ساتھیوں نے کی تھی اور اس کے بعد انہوں نے جو بھی فیصلے کئے وہ اس وقت کی
کابینہ کی مکمل مشاورت سے کئے گئے اور سب سے بڑھ کر اس وقت کے چیف جسٹس
افتخار چوہدری کو اس کیس سے کس طرح نکالا جاسکتا ہے جس نے پرویزمشرف کو تین
سال کیلئے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا تھا کیوں کہ آرٹیکل 6تو یہ کہتا ہے
کہ غداری کے جرم میں مددگارہونے والے ہرشخص کو بھی سزادی جائے گی۔لیکن
اکیلے پرویزمشرف کو غدار ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگانے والوں
میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ وہ کسی اور جانب انگلی اٹھائیں البتہ
اس موقع پر مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے جس طرح جرأت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو پرویزمشرف کیساتھ ٹرائل کیلئے پیش کیاہے اس پر ان
کا سیاسی قدبہت بلندہوگیاہے انہوں نے مزیدکہا کہ اگر پرویزمشرف نے غداری کی
ہے تو اس میں وہ تنہا نہیں تھے اگر یہ مقدمہ چلانا ہے تو اس میں سابق جنرل
کیانی،سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور خود انہیں اور ان کے بھائی چوہدری
پرویزالٰہی کو بھی شامل کیا جائے ۔چوہدری شجاعت حسین نے درست جانب نشاندہی
کی کہ ایک آرمی چیف کو غدار کہہ کر ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں انہوں
نے اسی تناظرمیں چیئرمین سینٹ کوآئین میں ترمیم کا مسودہ بھی بھجوادیاہے جس
میں انہوں نے موقف اختیارکیا کہ آئین کے آرٹیکل 6کی ذیلی دفعات1,2,3میں
موجود لفظ ہائی ٹریژن کو ختم کرکے مملکت کے خلاف جرم سے بدل دیا جائے۔کیوں
کہ غداری کے لفظ سے یہ تاثرابھرتا ہے کہ مذکورہ شخص نے غیرملکی قوتوں کے
ساتھ مل کر اپنے وطن سے غداری کی ہے ۔خیر اس کا ترمیمی مسودے کا فیصلہ تو
سینٹ میں پیش ہونے اور اس پر بحث مباحثے کے بعد ہوگا لیکن عوام بہرحال یہ
ضرور سوچ رہے ہیں کہ حکومت اور عدالتیں جس زوروشور سے آج آرٹیکل 6کے نفاذ
کیلے فکرمندہورہی ہیں ان کو آرٹیکل 62اور 63نظرکیوں نہیں آتا جس پراگر
عملدرآمد کرلیا جائے تو اسمبلی میں صاف ستھرے لوگ پہنچ سکتے ہیں جو حقیقی
معنوں میں عوام کے خادم ہوں گے لیکن ایسا شائد سیاسی جماعتوں کو وارانہیں
کھاتا اس لئے اس پر عمل درآمد بھی نہیں ہوتااور ایک عام آدمی یہ بھی سوچنے
پر مجبور ہے کہ اس سے قبل سیاستدانوں پر قائم ہونے والے مقدمات میں تو کسی
عدالت نے اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا حالاں کہ ان پر قائم مقدمات وہ
ہیں جن کا تعلق براہ راست عوامی مفادات سے تھامثلاََ زرداری صاحب پر چودہ
سال سے مقدمات ہیں لیکن کچھ بھی ثابت نہیں کیا جاسکا بلکہ اس دوران ہی وہ
پانچ سالہ اقتدار کے بھرپور مزے بھی اڑاگئے کیااور اس سے قبل 1997ء میں
سپریم کورٹ جیسے مقدس ادارے پر ہونے والا حملہ کون بھلا سکتا ہے جو ہماری
تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دھبا ہے جس کے داغ کبھی مٹ نہیں پائیں گے لیکن کیا
ان بڑے جرائم کے مجرموں کا کبھی کوئی احتسا ب ہوسکا نہیں کبھی نہیں۔ کیااس
سے یہ تاثر نہیں ابھررہاکہ سیاستدان تو ملک و قوم کو لوٹ کر بھی پارسا رہتے
ہیں اور ایک آرمی چیف کو اقتدار میں آنے پر مجبور بھی انہی سیاستدانوں کی
حماقتیں کرتی ہیں لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ایک عام آدمی یہ بھی
سوال پوچھ رہاہے کہ موجودہ حکومت نے تو ہم سے غربت،بیروزگاری،بجلی وگیس کی
لوڈشیڈنگ اور بدامنی پر قابو پانے کے وعدے کرکے ووٹ لئے تھے لیکن آج معلوم
ہوتا ہے کہ حکومت کی نظر میں سب سے بڑا مسئلہ پرویزمشرف کو سزادلوانا ہے جب
کہ عوام کے اصل مسائل کو حکومت نے پسِ پشت ڈال دیا ہے اسی سے ہی عوام میں
یہ خیال تقویت پکڑرہا ہے کہ پرویزمشرف کے ٹرائل کے پیچھے سابق چیف جسٹس اور
موجودہ وزیراعظم کے ذاتی غصہ اور انتقام کا عنصر واضح ہے ۔لیکن انہیں یہ
سوچنا چاہئے کہ کہیں حکومت خود ہی کسی سازش کا شکار ہونے تو نہیں جارہی جس
کے مطابق پرویز مشرف کے ٹرائل کی آڑ میں آرمی اور حکومت کے مابین اختلافات
پیدا کرکے فوج کے ہاتھوں ایک بار پھر تختہ الٹانا مقصود ہوشائد محترم کالم
نگار جناب حسن نثار صاحب نے بھی اسی بات کے پیش نظرکہا ہے کہ نوازشریف جو
گڑھا پرویزمشرف کیلئے کھودرہے ہیں اس میں خود بھی گرسکتے ہیں ۔اس لئے ہم یہ
سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ اگر اس نے واقعی انصاف کرنا ہے تو پورا
کرے اور سب سے پہلے تو خود کو سپریم کورٹ پر حملے کے جرم میں پیش کرے اس کے
بعد عدالتوں کو یہ بھی چاہئے کہ وہ بھی selective justiceکی بجائے انصاف کے
تقاضوں کو مکمل پورا کرے اور آرٹیکل 6کے ہی تحت پرویزمشرف کے ساتھیوں اور
ان کے ہاتھ مضبوط کرنے والے جنرل کیانی اور افتخار چوہدری کو بھی کٹہرے میں
لائے ورنہ یہ فضول مشق بند کرکے حکومت اور عدلیہ مل کر عوام کے اصلی مسائل
کے حل اور ان کو انصاف فراہم کرنے کی کوششوں میں لگ جائے کہ عوام نے انہیں
اسی مقصد کیلئے ان عہدوں پر بٹھایا ہے۔ |