اسلم خان سواتی ،چوہدری اسلم بنے اور ترقی پاکر ایس ایس پی تک پہنچے ،
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ڈی ایس پی بنے اور اپنے محسن پولیس افسران کی
مہربانی سے دوبارہ ایس پی بن گئے . وہ ایسے چوہدری بنے کہ کوئی انہین خان
تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوا ، ان کی جی داری اور مجرمون کے خلاف سخت ترین
روئیے نے انہین سندھ پولیس کا " چوہدری " بنادیا . سندھ پولیس مین " خان "
پولیس کے مقابلے مین ہمیشہ ہی چوہدری صاحبان کے لیے وسیع جگہ رہی .....چوہدری
پولیس آفیسرز بھی واقعی واقعی چوہدری ہوتے تھے نام کے بھی کام کےبھی ،
انسانیت کے بھی . ان مین ایک نام تھا چوہدری حمید جو ایس پی ہوکر ریٹائرڈ
ہوئے پھر حکومت نے ان کی خدمات کنٹریکٹ پر حاصل کی....اور نا جانے اب کہان
اور کس حالت مین ہونگے ، انہین گورنر وزیراعلی ، کوئی وزیر نہین جانتا تھا
ہان پولیس فورس مین انہین ہر کوئی عزت قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتا
تھا وہ ایس ایچ او بنے تو موٹر سائیکل پرتھانے پہنچتے تھے ، چوہدری حمید کا
نام ایسا تھا کہ اس نام دوسرا تحقیقاتی افسر پوری سندھ پولیس مین نہین تھا
. چوہدری اسلم شائد چوہدری حمید سے متاثر تھے اس لیے وہ اسلم خان سے چوہدری
اسلم ہوگئے . اپنےاوپر انہین بہت اعتماد تھا،پولیس کے نظام کوبھی سمجھنے کا
وہ دعوئ کرتے تھے ....مگرشائد " over confidence "تھے ،وہ شائد یہ بھول چکے
تھے جس محکمہ مین وہ کام کررہے ہین ، وہان دوستون رشتے دارون اورتعلقات کی
وقت کے کوئی حیثیت نہین ہوتی ، پولیس آفیسر اس وقت تک پولیس افسر ہوتا ہے
جب تک وہ اپنےفرائض کی ادائیگی کے دوران اپنے تعلقات اور رشتے داری کی فکر
نہ کرین ،ایک اچھا پولیس افسر وہ ہی ہوتا ہے جو صرف قانون سے محبت کرے اور
اس پر عمل کرے ، اصولون پر کاربند رہے ...... اور اوپرکےاحکامات پرقانون کے
تحت عمل کرے ، بدقسمتی سے اصولون اور قوانین کا جنازہ پولیس ہی کیا دیگر
سرکاری ادارون مین اٹھنا اب معمول بن چکا ہے ...
چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم کےساتھ نوجنوری کو پیش آنےوالا واقعہ اگرچہ
سیدھا سادہ واقعہ لگتا ہے لیکن ایسا ہر گز نہین ...اس واقعےکے بعد پولیس
افسران کے بیانات خود ان کا مذاق اڑانےکے ساتھ نئے سوالات پیدا کررہے تھے
،سب سے اہم بات یہ تھی کہ اتنےاہم ترین واقعہ پر ہر پولیس افسر کیون اور کس
حیثیت سے میڈیا کے سامنے زبان کھولے جارہا تھا ؟ صرف ٹی وی پر آنے کےشوق نے
اس واقعہ پرپولیس افسران کی غیر سنجیدگی کا نمایان کیا اور ڈسپلین فورس کا
مذاق اڑایا ......اس تحریر کا مقصد اس واقعہ کے پہلوون کو سامنےلانا ہے اور
اس مین غفلت و لاپرواہی کےمرتکب افراد کو جاننا ہے
مفروضہ کی بنیاد پر تحقیقات کی جائین تو ایسا ہی ہوتا ہے ...اور پھر مقدمہ
کے اندراج مین تاخیر کے ساتھ شواہد بھی ضائع ہوجاتے ہین ..،..شواہد کو ضائع
کرنا یا مٹانا جتنا مشکل اتنا ہی آسان ہوتا ہے .... بے نظیر بھٹو بلا شبہ ،
چوہدری اسلم کے مقابلےمین بہت بڑی شخصیت تھین . لیکن ان کے قتل کے شواہد
بھی بہت اطمینان سے مٹادییے گئے. بے نظیر کے قتل پر بھی طالبان قاتل ٹہرے
مگر صرف زبانون مین اور تحریرون مین....... بےنظیر کے قتل کا مقدمہ بھی غیر
معمولی تاخیر کا شکار ہوا مگر قاتل یا قاتلون کا چھ سال گزرنے کےباوجود
پتانہین چل سکا.......ہم ایک ہی جملے مین یہ کہہ سکتے ہین کہ جب بے نظیر
بھٹو ، اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قاتلون کا سراغ نہین
لگایا جاسکا تو چوہدری اسلم کے قاتلون کا کیاپتہ چلے گا؟ لیکن
کیون.....کیون نہین پتا چل سکتا....... قتل چھپتا نہین تو کون ہے جو اہم
افراد کے قاتلون کو چھپالیتے ہیں؟ عام افراد کے قتل کا سراغ نہین لگ سکا تو
پولیس فورا کہتی ہے کہ لواحقین اور متعلقہ افراد نے تعاون نہین کیا .......
تو کیا اہم شخصیات کےقاتلون کا پتہ لگانے اور انہین پکڑنے مین ناکامی کے
اسباب بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں ؟
جوہدری اسلم کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے دلچسپی سےزیادہ ان کی جلد سے
جلد تدفین ، اور ان کی خدمات کی تعریفون مین متعلقہ افراد زیادہ سرگرم نظر
آئے ..... چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیون کے ساتھ پیش آنے والے المناک
واقعہ کا مقدمہ ہفتے کی شام درج کرلیاگیا...مقدمہ ان حالات مین درج کیا گیا
کہ تحقیقاتی جماعتین کسی حتمی بات پر متفق بھی نہین ہون پائی تھین . چوہدری
اسلم کی بیوہ کے مطابق وہ بچون کو لیکر کہین جارہے تھے کہ اچانک ان کے
موبائل پر کال آئی ،کال سننے کے بعد چوہدری صاحب نے انہین بتایا کہ مجھے
ہیڈ کوارٹر جاناہے اس لیے ڈرائیور کو بجھوادو......اب سوال یہ ہےکہ کیا
تحقیقاتی افسر نے فون ریکارڈ چیک کیا کہ کال کس کی تھی ؟ پولیس کے درائع کا
کہنا ہے کہ وہ کال طالبان لیڈر کی تھی شاہد اللہ شاہد کی تھی. پوسٹمارٹم
رپورٹ کے مطابق چوہدری اسلم کا چہرہ ، پیٹ ، اور ٹانگین بری طرح متاثر ہوئی
تھین ،جبکہ بعض اعضا جسم سے الگ ہوجکے تھے . تحقیقاتی جماعتین حتمی طور پر
یہ طے نہین کرپائین کہ بم دھشت گردون کی گاڑی مین تھا یا اسے سڑک پر نصب
کیا گیا تھا ،بعض کا خیال یہ ہے کہ بم چوہدری اسلم کی گاڑی مین اندر یا
نیچے نصب کیا گیا تھا ،ایسے ہی شواہد پر یہ بھی بات سامنے آئی جسے بعض
اخبارات نے رپورٹ بھی کیا ہے کہ چوہدری اسلم حفاظتی نکتہ نظر سے اپنی گاڑی
مین روسی ساختہ بم بھی رکھتے تھے اگر یہ بات درست ہے تو ایک سے زائد
دھماکون کی آوازین آنی چاہیے تھین لیکن ایسا نہین ہوا ...سوال یہ ہے کہ
حملہ آورون کی گاڑی سے زیادہ چوہدری اسلم کی گاڑی کو کیون نقصان پہنچا ،
اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر بم سڑک پر نصب کیا گیا تھا تو سڑک پر اس طرح کا
گہرا گڑھا کیون نہین پڑا ،ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہین کہ بم چوہدری
اسلم کی گاڑی مین نصب کیا گیا تھا...اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ اور
ایماندارانہ تحقیقات کا تقاضہ ہے کہ یہ بھی معلوم کیا جائے کس کی ہدایت پر
چوہدری اسلم کی بم پروف گاڑی کو مرمت کی غرض سے ورکشاپ کے حوالے کرکے دوسری
گاڑی دی گئی تھی جو اس معیار کی نہین تھی جس کی چوہدری اسلم کو ضرورت
تھی....پولیس ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب چوہدری اسلم کا جسم بری طرح
متاثر ہوکر وہ اسپتال ہنچنے سے قبل ہی جان بحق ہوچکے تھے تو اس کا علم
پولیس افسران کو تاخیر سے ہوا یا بے نظیر بھٹو کی طرح ان کی موت کی خبر
چھپانے کی کوشش کی گئی ؟
چوہدری اسلم ، دلیرانہ کارروائیون کے باعث صرف طالبان ہی نہین بلکہ کئی اور
گروپ کی ہٹ لسٹ پر تھے ..... ایسی صورت مین کیا یہ آسان ہوگا پولیس اصل
ملزمان تک پہنچ جائے اور اس کیس کا معمہ حل کرلے.......چوہدری اسلم کے ساتھ
پیش آنے والا واقعہ ہمھین یہ سوال کرنے پر بھی مجبور کررہا ہے کہ " کیا
چوہدری اسلم اپنی آمد و رفت اور دیگر پوزیشن سے قوائد کے تحت افسران کو
آگاہ کرتے تھے اور کیا دوسرے افسران بھی آئی جی اور ڈی آئی جیز کو آگاہ
کرتے ہیں؟ اگر اس اصول اور پر عمل کیا جارہا ہے تو چوہدری اسلم کی آخری
پوزیشن سے بھی افسران آگاہ ہونگے-
چوہدری اسلم بم دھماکے کی ایف آئی آر ہفتے کو پی کالونی تھانے مین درج
کرادی گئی ایف آئی آر مین طالبان کے دو رہنماءون ملا فضل اللہ اور شاہد
اللہ شاہد کو نامزد کیا گیا ، تاہم پولیس انسپکٹر ملک عادل نے رپورٹ مین
لکھایا ہے کہ وہ اپنی گاڑی مین جارہا تھا جبکہ اس کی گاڑی کے پیچھے چوہدری
اسلم کی جیپ آرہی تھی جب وہ لیاری ایکسپریس وے پر پہنچے تو پہلے موڑ پر تین
مشتبہ افراد کو دیکھا ،ملک عادل نے بیان دیا کہ جب ان کی گاڑی آگے بڑھی تو
پیچھے دھماکا ہوا .
ملک عادل کے بیان کی روشنی مین ان سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ " جب انہون نے
مشتبہ افراد کو دیکھا تھا تو انہین گاڑی روک کر چیک کیون نہین کیا گیا ؟
ملک عادل کو اس بات کا بھی جواب دینا پڑے گا کہ وہ تینون افراد پیدل تھے یا
کسی گاڑی مین اور جائے وقوعہ سے کتنی دور ،کتنے فاصلے پر تھے.
ملک عادل سے یہ سوالات کرنا تحقیقاتی افسرون کا کام ہے. مقدمہ مین کسی کی
نامزدگی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نامزد ملزم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان
ملزمان کی گرفتاری کے بعد ہی اصل تحقیقات آگے بڑھے گی...اب غور کیجیے
ملزمان بھی وہ جن سے حکومت مزاکرات کرنا چاہتی ہے .....مزاکرات کی صورت مین
ہی اس مقدمہ کا مستقبل بھی ہے ،اس سے پہلے نامزد ملزمان کی گرفتاری کا
امکان کم ہے .
یہ واقعہ میری نظر مین ایس پی چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیون کا قتل نہین
ہے بلکہ ہہ پولیس کے سی آئی ڈی پر حملے اور پولیس کے نظام پر قاتلانہ حملے
کے مترادف ہے. فوری طور پر مدعی از خود اپنے بیان کے مطابق فرائض سے غفلت
کا مرتکب نظر آتا ہے......اس حوالے سے تحقیقاتی ٹیمون کو تفتیش کرنی چاہیے.
اسلم خان سواتی عرف چوہدری اسلم کی دہشت اور خوف کے بارے مین بہت کچھ لکھا
جاچکا ہے ، چوہدری اسلم کی خصوصی طور پر خدمات سابق آئی جی سندھ رانا مقبول
جنہین مسلم لیگ نواز کی 98 کی حکومت نے پنجاب سے خصوصی طور پر سندھ مین
لاکر تعینات کیا تھا نے حاصل کی تھی جنہون نے چوہدری اسلم کو آصف زرداری سے
پوچھ گچھ کا خصوصی ٹاسک بھی دیا تھا ،لیکن آصف زرداری کی سیاسی مجبوری یا
پھر سیاسی بصیرت سمجھین کہ انہون نے ہی انہین گورنر سندھ عشرت العباد کی
سفارش پر 2012 مین تمغہ شجاعت دیا . لیکن ایوان صدر مین ہونے والی تقریب
مین صدر زرداری کے بجائے گورنر عشرت نے تمغہ شجاعت کا بیج انہین لگایا جو
اصول کے خلاف تھا.
چوہدری اسلم اپنی زندگی مین کیسے بھی رہے ہون لیکن اپنی ہلاکت کے بعد وہ
پنجاب مین بھی مقبول شخص کیطرح یاد کیے گئے ، عموا دوسرے صوبے سے خراج
عقیدت کےپیغامات موصول ہونے کی مثال نہیں ملتی ..... شائد شہباز شریف کو
چوہدری اسلم کی آصف زرداری کے لیے مخصوص حالات مین کی گئی خدمات یاد آگئی
ہو .....
ہمھارے ملک کے نظام میں پولیس کا سیاسی انتقام کےلیے استعمال کیا جانا عام
بات ہوچکی ہے .... لیکن اب توکرمنلز بھی سیاسی قوت کی طرح سامنے آرہے ہیں
اور حکومت ان سے مزاکرات کے لیے آگے بڑھ رہی ہے ..... پولیس اپنے پیشہ
ورانہ کام میں محدود ہوکر رہ گئی ہے ، اسے طالبان ، ایک سیاسی جماعت اور
لیاری گینگ وار سےزیادہ کچھ نظر ہی نہیں آتا..
مین اپنی تحریر مین اس بات کااشارہ دےچکاہوں کہ چوہدری اسلم بم دھماکے کی
فائل کچھ عرصہ بعد داخل دفتر کردی جائے گی اور وزیراعلئ ہی نہین بلکہ گورنر
سندھ عشرت العباد بھی زاتی تعلقات ہونے کے باوجود چوہدری اسلم کیس پر کسی
قسم کی پیش رفت میں ناکام رہیں گے .... حالانکہ چوہدری اسلم کی گورنر ہاوس
حاضری کی بازگشت پولیس ہیڈ آفس ہی نہین بلکہ دیگر دفاتر میں عام تھی...# |