شام میں حکومت اور باغیوں کے
درمیان جاری جنگ میں شامی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے
باغی گروہ عقب نشینی پر مجبور ہیں اور باغیوں کی عقب نشینی کی وجہ سے ایک
نیا فنومنا سامنے آیا ہے اور دہشت گردی اور تکفیری گروہوں کے خاتمے کے
بجائے یہ مسئلہ شام کی حدود سے نکل کر عراق میں پھیلتا ہوا محسوس ہورہا ہے.
شام سے فرار ہونے والے باغی گروہوں کی پناہ گاہ اردن، ترکی اور عراق کے
سرحدی علاقے ہیں. اردن اور ترکی کی حکومت کو باغیوں کی طرف سے کسی خاص خطرے
کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کی ایک وجہ ان ممالک کی طرف سے باغیوں کی حمایت
ہے لیکن عراق اس جنگ کی لپیٹ میں آتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ عراق میں گھس
آنے والے دہشت گردوں نے ایک نئے گروہ کی بنیاد ڈالی ہے جس کا نام "داعش"
یعنی دولت اسلامی عراق و شام رکھا ہے. عراق میں ان باغی گروہوں کو مضبوط
کرنے میں ان عرب ممالک کا بھی کافی ہاتھ ہے جو خطے میں عراق کے مخالف شمار
ہوتے ہیں. انہی ممالک کی فنڈنگ اور لوجسٹک سپورٹ کی وجہ سے عراق میں موجود
باغی گروہ صوبہ الانبار اور اس کے مرکزی شہر فلوجہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب
ہوگئے.
عراق شام اور خطے کی موجودہ صورتحال میں سب سے دلچسپ اور عجیب منافقانہ
رویہ امریکی حکومت کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکہ نے عراقی حکومت
کو یقین دہانی کروائی ہے کہ باغیوں کو کچلنےکے لیے ہر قسم کا اسلحہ اور
دیگر ضروری سامان عراقی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے! یہاں یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف امریکہ شام میں باغی گروہوں کو اسلحہ اور دیگر
سہولتیں دینے میں ایک لمحے کی کوتاہی نہیں کررہا اور دوسری طرف وہی دہشت
گرد جب عراق میں داخل ہورہے ہیں تو انہیں کچلنےکے لیے عراق حکومت کو بھی
مکمل سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہے! یہ معاملہ کیا ہے؟ اس سلسلہ میں مختلف
تجزیات پیش کیے جارہے ہیں جن کے مطابق شام میں فوج کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی
کے پیش نظر یہ یقین ہوچلا ہے کہ شامی حکومت کو باغی دہشت گردوں کے ذریعہ
سرنگوں نہیں کیا جاسکتا ہے لہذا امریکہ اپنی پرانی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے
ان گروہوں کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے عراقی صوبے
الانبار کا انتخاب کیا ہے. ماضی میں بھی امریکہ اپنے ایسے اہم کارندوں کو
راستے سے ہٹا چکا ہے جب اسے یقین ہوگیا کہ اب یہ خطے میں مزید کارآمد ثابت
نہیں ہوسکتے.
دوسری طرف دہشت گردی اور ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے حکومت اور عراقی عوام
یکزبان ہوکر باغیوں کے خلاف کاروائی میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے حال ہی میں
داعش کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے کہ عراقی حکومت اور الانبار کے سنی قبائل
کے ہاتھوں ان کے کئی اہم لیڈر مارے جاچکے ہیں. ہمیں پاکستان میں بھی اسی
قسم کے بعض چیلنجز کا سامنا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو پاکستان کے مخالف
ممالک سپورٹ کررہے ہیں اور پھر انہی کو بنیاد بناکر ہمیں عالمی سطح پر
بدنام کررہے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے اس عفریت سے مقابلہ
کرنے کے لیے صرف مینڈیٹ دیکر جان نہیں چھڑوالینی چاہیے بلکہ سب کو مل کر اس
کے بارے میں سوچنا اور اقدامات کرنا چاہیئیں.
|