دفعہ 341پر لگی مذہبی قید کے پیچھے کیا سازش ہے؟

 ڈاکٹر ایم اعجاز علی

دانشور طبقات و علماء حضرات کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنے وسیع وروادار دستور ہند میں دفعہ341پر ہی مذہبی قید کیوں لگائی گئی تھی۔ جب مسلمانوں کو آزاد بھارت میں زیر کرنا ہی طے تھا تو پھر اس کام کیلئے آئین ہند میں اور بھی تو کئی دفعات تھے لیکن انہیں نہ چُن کر اس دفعہ ( 341) کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا ۔ اس کے پیچھے بہت بڑی سازش تھی ۔ دراصل آئین کی دفعہ 341پر جو دو شرائط نافذ کئے گئے یہ ہندو مہاسبھا کی طرف سے تیار کئے گئے تھے۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ آزاد ہندمیں شیڈول کاسٹ ریزرویشن صرف ہندو مذہب کے ماننے والوں کو ہی دیا جائے گا۔ یہ شرط 10؍ اگست 1950کو نافذکیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ملکی پیمانے پر دیئے جانے والے اس ریزرویشن سے سارے مذہبی اقلیتی سماج کو محروم کر دینا ہے تاکہ آزاد بھارت میں ان کی بیشتر آبادی، جو بلا شبہہ دلت نسبت کے ہیں، کی حالت دلتوں سے بھی خراب ہو جائے۔ مذہبی اقلیت گر وہ میں سب سے بڑی آبادی تو مسلمانوں کی ہے اسی لئے توجسٹس سچر کمیٹی نے جو حالات پیش کئے ہیں وہ در اصل 10؍ اگست 1950کے اُس آرڈر کارپورٹ کا رڈہے جس کو آزادی کے تقریباً نصف صدی بعد ملک کے سامنے لایاگیا ہے۔ دوسرا آرڈر 23؍ جولائی 1959کو نافذ کیا گیا جس میں ریزرویشن کو پانے کیلئے اقلیتوں پر ہندو ازم قبول کرنے کی شرط لگائی گئی۔ اس دوسرے شرط کارپورٹ کارڈ کب آئے گا اور کون سرکار لائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن یہ دونوں شرائط ہندو مہاسبھا کے دماغ کی اُپج تھی جو انہوں نے اسپین میں ریسرچ کرنے کے بعد ، اُسی اسپینی تاریخ کو ہندوستان میں دُوہرانے کے مقصد سے لایا تھا۔ پردے کے پیچھے بیٹھی فرقہ پرست طاقتیں شروع سے اس ملک کو ہندو رارشٹر بنانے کا مشن دل و دماغ میں پالے ہوئے ہیں تاکہ یہاں صرف ہندومذہب کے ماننے والے ہی رہیں اور ہندی اس ملک کی واحد زبان ہو۔ یا د کیجئے ہندی ، ہندو، ہندوستان ان کا پرانا نعرہ ہے اور جسے پاکستان کے قیام نے مزید تقویت دے رکھی ہے۔ اردو کو زیر کر ہندی زبان کو پانے میں تو وہ پہلے ہی کامیاب ہو چکے ہیں۔ بچ گیا ہندو اور ہندوراشٹر کے مشن کو پو را کرنے کی بات تو اس کیلئے حکمت عملی کے تحت انہوں نے آئین کی دفعہ 341کو چنا اور اس پر یکے بعد دیگرے دو شرطیں جبراً(کیونکہ یہ آئین کی روح کے خلاف ہیں) نافذ کئے ۔ہندو راشٹر کے مشن کو لے کر چلنے والی طاقت اتنا تو جا نتی ہی ہے کہ یہ سالوں سال کامعاملہ ہے اور جمہوری نظام میں پارلیامنٹ کے ذریعہ ہی اسے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کے لئے پہلے ہندوازم کی بنیاد پر ایوان پرقبضہ کرنے کیلئے ہندو ووٹ کو یکجا کر نا ضروری ہوگا، جو صرف ہندو مسلم دنگوں سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا آپ غور کریں گے تو آزادی کے بعد سے اب تک ہزاروں ہزار دنگے فساد ہوئے جو دراصل کرائے جاتے رہے ہیں تاکہ ہندو ووٹ یکجا کیا جاسکے۔ اس میں 75فیصد تک وہ کامیاب بھی ہیں۔ دفعہ 341پر لگی مذہبی قید نے انہیں اپنے مشن میں دو طرح سے مدد کی ہے۔ پہلا تو یہ کہ ریزرویشن سے باہر کر دیئے جا نے کی وجہ کر آج مسلمانوں کی بڑی آبادی دلتوں سے بھی پیچھے چلی گئی اوراب تو دینی اعتبار سے بھی کمزور ہوتی نظر آنے لگی ہے۔ مذہبی ذہنیتوں سے دور ہونے کے ساتھ بعض اوقات مذہبی پابندیوں سے بھی دور ہوتی دکھائی دینے لگتی ہے ۔وہ تو یوں سمجھئے کہ جمعہ کے اہتمام، مدرسوں کے نظام ، عُرس کے انتظام و محرم کے اکھاڑوں نے مسلمانوں کی بڑے آبادی کو اسلام کے دائرے میں باندھ کر رکھا ہے ۔ اس گھیرے کو بھی توڑنے کے لئے سنگھ پریوار شروع سے کوشاں ہے ۔ مدرسوں کو تو آتنکوادوں کی فیکٹری کہنے میں ہی لگے ہیں۔دفعہ 341پر مذہبی قید لگانے سے مسلمانوں کو نقصان یہ ہوا کہ یہ قوم Sc/Stایکٹ( جسے انسداد ایکٹ کہا جاتا تھا) کے حفاظتی دائرے سے باہر ہوگئے۔ اس حفاظتی کَوچٔ سے باہر ہونے کا فرقہ پرست طاقتوں نے یہ فائدہ اُٹھایا کہ جب چاہو، جہاں چاہو اور جیسے چاہو مسلمانوں کے خلاف دنگا فساد کراکر ہندو ووٹ کو یکجا کرنے کا مظبوطی سے کام کیا۔اس کام کے لئے اب دنگوں کے ساتھ آتنکواد کا بھی سہارا لیا جانے لگا ہے۔ دلتوں کے ساتھ پہلے اسی طرح کا دنگا فساد ہوتا تھا جس پر Sc/Stایکٹ سے اتنا تک روک تو ضرور لگا ہوا ہے کہ اُس قوم کے خلاف بد کلامی کرنے سے بھی اب باقی سماج کو ڈر لگتا ہے لیکن دوسری طرف اسی ایکٹ سے خارج کر دیئے جانے کی وجہ کر مسلمانوں کے ساتھ مار پیٹ ، ان کی عورتوں کی آبرو لوٹنے کے ساتھ بستیاں تک اجاڑ دی جاتی ہیں لیکن دلتوں کی طرح کوئی قانونی کَوچَ ہے ہی نہیں جو انہیں حفاظت دے سکے۔ اتنا بھی یاد رکھئے کہ یہ کوئی ایسا نیا قانون کسی بھی قیمت پر بننے نہیں دیں گے جو دنگے فساد پر بریک لگانے کا کام کرے کیونکہ یہ بریک دراصل ان کی، واحد ٹارگٹ، ہندو راشٹر کی مہم پر بریک لگانے کا کام کرے گا۔ دفعہ341کے آڑ میں اگر ایک طرف اسی طرح مسلمانوں کی بد حالی کا سلسلہ جاری رہا اور دوسری طرف ہندوووٹوں کی قطب بندی (Polarisation) کی مہم بھی جاری رہی تو پھر ،نعوذ باﷲ، وہ دن دور نہیں جبکہ پارلیامنٹ پر سنگھی ذہنیت کے ممبران کا قبضہ ہو جائے گا۔ ایسی حالت پہنچ جانے کے بعد ووٹنگ کے ذریعہ اس بل کو پاس کیا جائے گا جو فی الوقت پارلیامنٹ میں ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ ملک کو ہندو راشٹر کر دینے کے لئے داخل کیا ہوا ہے لیکن التوا پڑا ہوا ہے۔ خدانہ کرے کہ ملک کو کبھی ہندو راشٹر قرار دیا جائے کیونکہ جس دن ایسا ہوگا اس کے بعد ملک کی مسلم مخالفت طاقتیں اپنی بازوؤں کے زورپر مسلمانوں کو ’’ تبدیلی‘ مذہب ‘‘ کو مجبور کرینگی یا پھر ہندوستان چھوڑدینے کا حکم جاری کرینگی۔ میانمار، انگولا یا برطانیہ میں کس طرح کی فضا بنائی جارہی ہے ،یہ یہاں کی مسلم مخالف طاقتوں کو بھی اندورونی طور پر تقویت بخشنے کا کام کر رہی ہے ۔ ایسی صورتحال میں مسلم قوم کے لئے دور اندیشی تو اسی میں ہے کہ فی الوقت سارے مسائل کو درکنار کرتے ہوئے دفعہ 341پر لگی مذہبی قید کو ہٹانے کی مشن میں شامل ہوں ۔ یہ آسان ہے کیونکہ دفعہ 341پر لگی دونوں شرطیں دراصل آئین کی روح کے خلاف ہے اور آئین کے سیکولر پیشانی پرایک کالے داغ کی مانند ہے۔ سیاسی جماعتیں ایوان کے ذریعہ اسے حل کرنے میں جتنا بھی ٹال مٹول کرے لیکن سپریم کورٹ تو اس کی نوٹس لے ہی سکتا ہے ،شرط ہے کہ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے مسلم قوم دفعہ 341پر لگی مذہبی قید کے خلاف اپنی شدید بے چینی کا بارہا کھلے طور پر اظہار تو کرے جیسا کہ اننا ہزارے ٹیم نے کرپشن کے خلاف کیا تھا۔ یہ معاملہ 2007سے مرکزی کابینہ میں ز یر غور ہے اور 2011ء سے سپریم کورٹ و مرکزی سرکار کے بیچ معلق ہے۔ معقول وقت پر ہمارا معقول تحریری و تحریکی دباؤ اسے یقینا حل کرا سکتا ہے۔
Azam nayyar
About the Author: Azam nayyar Read More Articles by Azam nayyar: 12 Articles with 9027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.