عام آدمی تک تبدیلی کیسے ممکن ہوگی۔۔۔۔؟؟؟

میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ پر براجماں ہونے کے بعد بڑی معنی خیز بات کی تھی کہ ’’ملک میں مسائل اسقدر ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کہاں سے شروعات کی جائے‘‘ ان کا یہ جملہ انتہائی گہرا اور گھیرا ہے۔واقعی وطن عزیز میں بے شمار مسائل ہیں جنہیں لکھنے کیلئے بھی سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے تحریر کا آغاز کیا جائے۔آج اسی گہرے اور گھیرے جملہ پر قلمبندی کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔

دنیا میں پاکستان ۴۳ ویں نمبرمہنگائی کے درجہ پر پہنچ چکا ہے جبکہ بے روزگاری کی زد میں نوجوانوں کی ستر فی صد ، جہالت کا بڑھتا ہواطوفان ،چالڈ لیبر میں روز بروز اضافہ ،افراط زر،توانائی کا بحران ،کرپشن، لاقانونیت ،احساس غیر ذمہ داری ،غیر سطحی منصوبہ بندی ،حب الوطنی کا فقدان اور ان حالات کے نتیجہ میں جرائم کے بڑھتے ہوئے گراف نے سماج کو دم بخود کر دیا ہے جبکہ انہی مسائل سے دہشتگردی کو ہوا مل رہی ہے جس سے ملک بھر میں بد امنی کی فضا ء نے جھنجوڑ رکھا ہوا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جس ملک کے منصوبہ سازوں نے ۱۹۵۳ء میں کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بنایا جو تاحال بوجہ اختلاف نہیں تعمیر ہو سکا،جہلم نیلم ۱۹۸۴ء میں فیزیبلٹی بنائی گئی جس پر ۲۰۰۷ء میں کام کا آغاز کیا گیا ،اسی طرح بھاشادیامر ڈیم بھی خود ساختہ حدود کے تعین کے حوالے سے متنازعہ بنایا جارہا ہے ۔یہ حال تو ہماری کج فہمی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اب آئیے ملک کے اہم اداروں پر طاہرانہ نظر دوڑائیں۔۔۔۔۔۔۔پی آئی اے،سٹیل ملز،ریلوے،واپڈاجو دنیا بھر میں منافع بخش ادارے کہلاتے ہیں ہمارے وطن میں نشان عبرت بنا دئیے گے ہیں ۔ بے شمار قدرتی وسائل ہونے کے باوجود انہیں کارآمد نہیں بنایا گیا جن میں ماہی گیری ،قدرتی نبا تات ،زرعی اجناس شامل ہیں ،مگر کسی بھی طرف بھر پور توجہ نہیں دی جا رہی ، آخر کون اس کا ذمہ دار ہے ۔۔۔؟کون ہے جوشکل مومناں غدار وطن ہیں،کیا ان مجرموں کیلئے بھی کہیں آئین میں گرفت کی گنجائش ہے ۔۔۔؟؟؟

بے شک کوئی جیسی بھی رائے قائم کرئے مگر یہ عین حقیقت ہے کہ امن ،ترقی اور خوشحالی کیلئے صرف اور صرف ون پو ائنٹ ایجنڈا ’’عام آدمی‘‘ کی بہتری ہی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے جس کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانا پڑیں گے ،اس ایجنڈا پر عمل کرنے کیلئے پورا انفراسٹکچربدلنا پڑے گا،خائن ،کام چور اور شاہانہ افسر شاہی کو گرینڈ آپریشن کے ذریعے راہ راست پر لانا ہوگا،جب تک عام آدمی کو کچھ ڈیلیور نہیں ہوتا اس وقت تک نعروں ،تقریروں اور خوشنما بیانات کا عوام کو کسی حد اورسطح تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ پا سکتابلکہ اندیشہ تو یہ ہے کہ محرومیوں ،مایوسیوں اور مشکلات سے جنم لینے والا بحران ساری کہانی کو لپیٹ لے سکتا ہے،ہماری حکومتوں کو جانے کی جلدی ہمیشہ رہی کسی نے نہیں سوچا کہ ملک و ملت کیلئے وسیع تر منصوبہ بندی کی جاتی ،ہر حکمران نے صرف حکمرانی کو دوام بخشنے کیلئے اپنے اہداف سامنے رکھے جس کے نتیجہ میں ملک کی انتظا می صورت حال آج قابو سے باہر نظر آ رہی ہے جو لوگ جمہوریت کو ناکام سمجھتے ہیں وہ دراصل اس ساری پیچیدگی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ماضی میں آمرانہ طرز حکمرانی نے خرابیاں پیدا کیں ،نظام مملکت پر افسر شاہی سوار ہو گئی اور ملک کو لوٹنے کی راہ ہموار کی جاتی رہی ،مثلاً گذشتہ ماہ یہ خبر سب نے سنی ہوگی کہ ایک بیش قیمت طیارہ کراچی ائیر پورٹ کئی ماہ سے گراؤنڈ ہے جس کا یومیہ کرایہ لاکھوں روپوں میں دیا جارہا ہے یہی نہیں بلکہ ہمارے دیگر قومی اداروں کو بھی ایسے ہی مفلوج کر رکھا ہے۔ پولیس کی یہ حالت ہے کہ قانون کے محافظ ہی قانون کو روندتے جا رہے ہیں ، گذشتہ روز سندھ کے کندھ کوٹ کے علاقہ میں پانچ بچوں سمیت آٹھ افراد جن میں خواتین شامل تھیں دریائے سندھ میں ڈوب کر ہلاک ہوئے جن بارے علم ہوا ہے کہ وہاں کوئی پولیس اہلکار قتل ہوا تھا جس کے قاتلوں کی تلاش کی جارہی تھی ،پولیس کی روایتی ہتھکنڈوں ،تشدد آمیز رویوں او ر مظالم سے تنگ یہ خواتین اور بچے ڈر کے مارے دریا میں اترے جو اپنی زندگیاں کھو چکے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا قاتل کون۔۔؟؟؟ پولیس تھانے امن کا گہوارہ ہونے کے بجائے دہشتگردی کے مراکز بنتے جا رہے ہیں پھر کیسے تعین کیا جائے کہ ملک میں قانون کی عملداری قائم ہو،یہ مثالیں ساتھ ساتھ اس لئے دی جا رہی ہیں تاکہ ہمارے اداروں کی کارکردگی کا اندازہ ہو سکے ، مہنگائی کا جہاں تک تعلق ہے اس کے معاون بھی ہمارے منافع خور ،ذخیرہ اندوز مافیا ہیں ، عالمی سطح پر اتنا بحران نہیں ہو تا جتنا پیدا کیا جاتا ہے، ماہانہ بنیادوں پر پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ردو بدل براہ راست منافع خوروں کو دیگراشیاء کے نرخوں کا اپنی مرضی سے تعین کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ، سال نو پر اوگرا نے ایسی ہی کوشش کی تھی جسے وزیراعظم نے مستر د کر کے’’ عوام دوستی‘‘ کا مظاہرہ کیا، اگر حکومت پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو کم از کم سہ ماہی بنیادوں پر ردوبدل کرئے تو امکان ہے کہ مہنگائی کا خود ساختہ بحران کنٹرول ہوسکتا ہے ۔آبادی کا بڑا حصہ نجی شعبہ میں کام کرنے والے کارکنوں پر مشتمل ہے جنہیں ان کی خدمات کے تناسب سے معاوضہ نہیں مل رہا ہے ،بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے والوں کو سات ہزار روپے ماہوار دیئے جاتے ہیں جس سے ملک کی اکثریتی عوام متاثر ہو رہی ہے ،حکومت کو چائیے کہ انتخابی وعدے کے مطابق ہر محنت کش کو پندرہ ہزار روپے ماہوار دئیے جانے کا نوٹیفکشن جاری کیا جائے ،ایسے اقدامات سے عام آدمی تبدیلی دیکھ پائے گا اور کھرے کھوٹے کی تمیز بھی ہو سکے گی ۔اگر حکمرانوں نے خوشامد پسند ماحول میں رہنا ہے تو پھر انہیں اپنے انجام سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ نوجوانوں کی بہتری کیلئے یوتھ لون سکیم کا اجراء کیا گیا ہے مگر اس میں بھی بہت سی خامیاں ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ کی طرح کا’’خاکم بدہن‘‘ ناکام ہونے کا امکان ہے،اگر ا نتظامی اخرا جات قرض کی مد سے زیادہ ہونگے تو کیسے بہتر نتائج نکلیں گے۔۔۔؟؟؟ لہذا ’’ن لیگی‘‘ اس جانب توجہ دیں ،وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ہاؤسنگ کی منفرد سکیم متعارف کرائی ہے جس سے پچاس ہزار خاندانوں کو پلاٹس دیئے جائیں گے ،اسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب نے محکمہ مال کو کمپیوٹرائیز کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے یہ بھی احسن اقدام ہے لیکن ان سب اقدامات پر عمل درآمد کرنے والوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔اگر ایسے اقدامات کئے جاتے رہے جن کا عام آدمی تک ریلیف میسر ہوتو مثبت تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے ۔
Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.