دلدار بھٹی کا گھر !

کُچھ روز قبل ’’کاکے‘‘ (فراز اکرم‘ دلدار پرویز بھٹی کے بھانجے) کا فون آیا کہ بھائی جان وحدت کالونی میں مکان نمبر17-S جس میں ماموں (دلدار پرویز بھٹی) کی رحلت کے بعد سے ممانی مسز عقیدہ دلدار رہائش پذیر ہیں کو سیل کردیا گیا ہے۔ فراز اکرم نے یہ بھی بتایا کہ شعیب بن عزیز صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے ایک ڈائریکٹو بھی ایشو کروا دیا ہے کہ دلدار مرحوم کی اہلیہ کو فی الحال اس گھر میں رہنے دیا جائے لیکن اس کے باوجود متعلقہ حکام گھرکو’’ڈی سیل‘‘ نہیں کررہے۔ میرے لئے یہ عجیب صورت حال تھی کیونکہ میں نے جب دلدار بھٹی زندہ تھے تو اُس گھر کی رونق دیکھ رکھی ہے۔ لوگ‘ بلکہ بڑے بڑے لوگ اُن کے گھر کی طرف کھنچے چلے آیاکرتے تھے کہ دلدار بھی تو بڑا آدمی تھا۔ وہ کھرا آدمی بھی تھا۔ کڑاکے دار سچ بولنے والا دبنگ آدمی۔

دلدار بھائی کی اپنی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی مرحومہ بہن کی اولاد یعنی بھانجی اور بھانجے کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ بھانجی کی شادی تودلدار بھائی نے اپنی زندگی ہی میں کردی تھی۔ جبکہ بھانجا فراز اکرم (کاکا) ابھی ’’کاکا‘‘ ہی تھا۔ وہ چھوٹا تھا۔ جب دلدار بھائی کی رحلت ہوئی تو اُس وقت بھی شائد کاکا چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھا۔ دلدار بھائی کا جنازہ وحدت کالونی اور وحدت روڈ سے ملحقہ بہت بڑی گراؤنڈ میں تھا۔ جب 1995 میں دلدار بھائی فوت ہوئے تو اُس وقت کا دور سوشل میڈیا اور ٹِکر میڈیا کا دور نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہزاروں لوگ اخبار پڑھ کر یا شاید پی ٹی وی سے خبر سُن کرجنازے کے لئے پہنچ گئے۔ جنازے کے وقت ہجوم قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے گویاہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہر کوئی اپنے دلدار کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے چین تھا ۔ لوگوں کو بے قابو ہوتے دیکھ کر صف میں میرے ساتھ کھڑے کاکے (فراز اکرم ) نے مجھے کہا ’’بھائی جان آج اگر ماموں زندہ ہوتے تو ایک منٹ میں کراؤڈ(ہجوم) کو کنٹرول کرلیتے۔‘‘ میری نمناک آنکھوں نے اس بات کی تائید کی۔ دلدار صرف کراؤڈ ہی کو کنٹرول کرنے میں ماہر نہیں تھے وہ دلوں پر بھی کنٹرول کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ انسانیت سے محبت کرنے والا اور ضرورت مندوں کے کام آنے والا شخص تھا۔ لیکن مقدر انسان کے ساتھ کیسا کھیل کھیلتا ہے کہ وہ دلداربھٹی جس کا گھر ضرورت مندوں کے لئے کھلا رہتا تھا آج اُسی گھر میں اُن کی بیوہ ‘ عقیدہ دلدار بھابھی‘ اس طرح مقید ہیں کہ گھر کے مین گیٹ کو تالا لگادیا گیا ہے۔ وہ تالا ایسا تالا ہے کہ جو وزیرِاعلیٰ کے ڈائریکٹو کے بعد بھی کھلنے کا نام نہیں لے رہا۔ دلدار کے بہت دوست تھے‘ شاید اب بھی ہوں گے‘ لیکن یوں لگتا ہے جسے تالا جیت گیا ور دوست ہار گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی دلدار بھائی کے دوستوں میں شامل تھے۔ جس پروگرام کے لئے دلدار بھٹی امریکہ گئے ہوئے تھے اور وہیں اُن کے دماغ کی شریان پھٹی اور اپنی اہلیہ سے بہت محبت اور عقیدت رکھنے والا دلدار اُنہیں زمانے کے تھپیڑے سہنے کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ کر چلاگیا‘ وہ شوکت خانم کیسر ہسپتال کے لئے فنڈ اکٹھے کرنے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔

ویسے جہاں تک اُن کے دوستوں کا تعلق ہے تو موجودہ وزیرِاعظم محترم نواز شریف صاحب بھی دلدار پرویز مرحوم کے دوستوں میں شامل تھے۔جناب وزیراعظم کو جو لوگ ذاتی طور پر جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ آپ ضرورت مندوں کے کام آنے والے اور دوستوں کاخیال رکھنے والے حلیم شخص ہیں جو آج کے دور میں ایک بہت بڑی خوبی گردانی جاتی ہے۔

لیکن آج جس طرح سے وحدت کالونی کے چھوٹے سے کوارٹر کو دلدار بھٹی کے بعض دوستوں کی مخلصانہ کاوشوں کے باوجود ڈی سیل نہیں کیا جارہا ہے۔ مجھے رہ رہ کر خیال آرہا ہے کہ کاش بحریہ ٹاؤن کے مالک ریاض ملک کا شمار بھی دلدار بھٹی کے دوستوں میں ہوتا تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی۔ اور شاید دلدارکے بھانجے کو آج جگہ جگہ رابطے نہ کرنے پڑتے۔ ریاض ملک شاید ان کی فیملی کے لئے کسی دو تین مرلے کا بیڈ روم کے گھر کا بندوبست کردیتے کہ جہاں مسز دلدار اپنی باقی ماندہ زندگی عزت اور پُروقار انداز سے گزار لیتیں۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے محبوب دوست معظم بن ظہور بتا رہے تھے کہ بھابھی کی صحت بھی ان دنوں اچھی نہیں ہے۔ اﷲ انہیں صحت اور زندگی سے نوازے‘ لیکن معاشرے کے ذمے کچھ قرض ہوتے ہیں جسے معاشرے کے افراد آگے بڑھ کرچکاتے ہیں۔ اور اخوت و ایثار کی ایسی مثالیں پیدا کرتے ہیں جو ہمیشہ یاد رہ جانے والی ہوتی ہیں۔ دلدار کی محبتیں بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ وہ بھلائی نہیں جاسکتیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ کس طرح دلدار اپنی محدود کمائی سے ہر مہینے بیواؤں اور ضرورت مندوں کے مکان کے کرائے اور دوائیوں کی مد میں امداداس انداز سے کرتے تھے کہ اس کا چرچا نہ ہو۔ ایسے بیسیوں واقعات جن میں سے چند کا تو میں چشم دید گواہ بھی ہوں کہ جن کے بارے میں کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ لوگوں کو بھی کئی واقعات ازبر ہیں۔

میں صرف ایک واقعہ نقل کرنے کی جسارت کروں گا۔ لاہور کے ایک فوٹو گرافر نے دلدار کی وفات کے بعد لوگوں کو خود بتایا کہ ایک روز اُس کے بچے کی طبیعت سخت خراب تھی اُس کے پاس بچے کی دوائی کے لئے بھی پیسے نہیں تھے اور ان دنوں اس کے پاس کوئی کام بھی نہیں تھا۔ دلدار نے اُس کا ماجرا سنا تو فوراًجیب سے دو ہزار روپے نکالے اور فوٹو گرافر کو تھما دیئے اور اس سے پہلے کہ فوٹو گرافر کچھ بولتا دلدار بھٹی کہنے لگے یار فلاں تاریخ کو لاہور آرٹس کونسل میں ایک تقریب ہے اُس کی کوریج کرنی ہے اور میں آپ کو یہ پیسے ایڈوانس کے طور پر دے رہا ہوں۔ فوٹو گرافر کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ اس نے فوراً رکشا پکڑا‘ گھر پہنچا۔بچے کو دوائی لے کردی اور پھر چند روز بعد بتائی ہوئی تاریخ اور وقت کے مطابق آرٹس کونسل پہنچ گیا‘ تو وہاں کوئی تقریب نہیں تھی۔ فوٹو گرافر نے انتظامیہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آج تو کوئی بُکنگ نہیں ہے۔ پھر فوٹو گرافر کو معلوم ہوا کہ اُس دن دلدار نے جو مدد کی وہ اپنی جیب سے کی اور تقریب کا جو بہانہ کیا وہ محض اس لئے کیا کہ اس سے میری عزتِ نفس پر کوئی آنچ نہ آئے اور میں وہ پیسے لینے سے انکار نہ کردوں۔

دلدار کی فیملی بھی اُسی محبت اور احترام کی متقاضی ہے جو محبت اور احترام دلدار بھٹی دوسروں کے لئے رکھتے تھے۔ دو اڑھائی کمرے کے جس گھر کی سیل اور ڈی سیل کا ڈرامہ چلاہے اگر اُسے ہی تاحیات اُن کی زوجہ کے رہنے کے لئے وقف کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ دلدار بھٹی قوم کاایک اثاثہ تھے اوراس طرح اُن کی فیملی قابلِ صد احترام ہے۔ شاید علمی‘ ادبی ‘ ثقافتی اور دیگر ادارے اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکے جومجھے خیال آرہا ہے کہ کاش ریاض ملک ہی دلدار بھٹی کا دوست ہوتا!

Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 101449 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.