شیخ محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رضی
اﷲ تعالی عنہ بن سیف الدین بن سعد اﷲ بن شیخ فیروز بن ملک موسیٰ بن ملک معز
الدین بن آغا محمد ترک بخاری کی ولادت ماہ محرم ۹۵۸ھ /۱۵۵۱ء کو دہلی میں
ہوئی۔آپ کے آباء واجداد میں آغا محمدترک بخاری،سلطان محمد علاؤالدین خلجی
کے زمانے میں بخاراسے ہجرت کرکے دہلی میں وارد ہوئے اور بلند مناصب پر فائز
رہے۔آپ کے والد ماجد شیخ سیف الدین دہلوی شعروسخن کاذوق رکھنے والے عالم
اور صاحبِ حال بزرگ تھے۔سلسلۂ عالیہ قادریہ میں شیخ امان اﷲ پانی پت کے
مرید اور خلیفۂ مجاز تھے۔جس وقت آپ کی ولادت ہوئی وہ سلیم شاہ سوری کا
زمانہ تھا ، مہدوی تحریک اس وقت پورے عروج پر تھی جس کے بانی سید محمد
جونپوری تھے۔
محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اﷲ تعالی عنہ نے اپنی
طویل زندگی دین اسلام کے تحفظ اور اس کاپیغام عام کرنے اور مقام مصطفیﷺکی
حفاـظت کرنے میں صَرف کردی۔دینِ متین کے خلاف اٹھنے والے نئے نئے فتنوں کی
مؤثر سرکوبی کی اور مسلک حق کی شاندار ترجمانی کی،بالخصوص عقیدۂ ختم نبوت
پرڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف علمی وقلمی جہاد کیا۔اس دور میں مہدوی تحریک
عروج پر تھی،جس کاآغاز سنّت کی ترویج اور بدعت کے خاتمے سے متعلق
تھا۔بعدازاں مہدویت کاتصور اس سطح تک پہنچا کہ دین اسلام کے قطعی عقیدے’’
ختم نبوت‘ ‘سے ٹکراگیا،اس تحریک کے بانی سید محمدجونپوری کہتاتھاکہ ہروہ
کمال جوشاہکاردست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺکوحاصل تھا،وہ مجھے بھی حاصل
ہوگیاہے۔فرق صرف یہ ہے کہ وہ کمالات وہاں اصالۃً تھے اور یہاں تبعاً ہیں ۔اتباع
رسول اس درجہ کوپہنچ گئی کہ امتی نبی کی مثل ہوگیا،علامہ ان حجر مکی،حضرت
علی متقی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی(رحمہم اﷲ تعالیٰ)نے اس تحریک کی شدید
مخالفت کی اور مقام مصطفیﷺکے تحفظ کااہم فریضہ انجام دیا۔
پروفیسرخلیق احمدنظامی(استاذشعبۂ تاریخ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ )لکھتے
ہیں:’’اگر سولہویں اور سترھویں صدی کی مختلف مذہبی تحریکوں کابغور تجزیہ
کیاجائے تویہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اس زمانے کاسب سے اہم مسئلہ پیغمبر
اسلام کاصحیح مقام اور حیثیت متعین کرنااور برقرار رکھنا
تھا۔تصورامام،عقیدۂ مہدویت،نظریۂ الفی(دین اسلام کی عمر صرف ایک ہزارسال
ہے)،دین الٰہی،یہ سب تحریکیں پیغمبراسلام علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مخصوص
مقام اور مرتبہ پرکسی نہ کسی طرح ضرب لگاتی تھیں۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی
رحمۃ اﷲ علیہ کاسب سے بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبراسلام ﷺکے اعلیٰ
وارفع مقام کی پوری طرح وضاحت کردی اور اس سلسلہ کی ہرہر گمراہی پرشدت سے
تنقید کی‘‘۔(حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی)
پروفیسر شیخ عبدالرشید صاحب(صدر شعبۂ تاریخ،علی گڑھ مسلم یونی
ورسٹی)تحریرفرماتے ہیں:شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی سب سے بڑی
خدمت یہی تھی کہ انہوں نے مسلمانان ہند کے بکھرے ہوئے شیرازے کودرسِ حدیث
کے ذریعے منظم کردیا،اور ان میں دینی غوروفکرکی وہ صلاحیتیں اُبھاردیں
جنہوں نے مسلمانوں کے معاشرے میں ایک نئی جان ڈال دی۔علاوہ ازیں انہوں نے
حدیث کی مستند کتابوں کوفارسی میں منتقل کرکے اور معارج النبوۃ کی ترتیب
فرماکر ہندی مسلمانوں پرجواحسان کیاہے وہ اسلامی تاریخ کاطالب علم کبھی
فراموش نہیں کرسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ سترہویں صدی میں مسلمانوں کی
مذہبی،سیاسی،علمی اورسماجی اصلاح وتربیت کاسہراحضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ
علیہ اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ہی کے سر ہے۔ان دونوں بزرگوں
نے اپنے زمانے کی مذہبی بے رواہ روی کودور کیااور علوم اسلامی کے احیاء کے
لئے پُرخلوص جدوجہدکی۔(حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی خدمات ِحدیث گیارہویں صدی ہجری سے تعلق رکھتی
ہیں،اس لئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم دسویں صدی ہجری میں علوم حدیث کی عام
حالت کاجائزہ لے کر آگے بڑھیں۔دسویں صدی ہجری میں یوپی،دہلی،پنجاب کے سارے
علاقوں میں صرف دومحدثین کے نام نظر آتے ہیں۔ مولانا اسماعیل
لاہوری(المتوفی:۹۸۰ھ)اورحاجی ابراہیم قادری محدث (المتوفی : ۱۰۰۱ھ) ۔شمالی
ہند کاعلاقے علمِ حدیث اور محدثین سے خالی تھے،اس کی وجہ پروفیسر خلیق احمد
نظامی یوں بیان کرتے ہیں:
’’محمدبن تغلق نے جب علماء ومشائخ کوملک کے دوردراز حصوں میں بھیج
دیاتوشمالی ہندوستان میں علمی محفلیں سرد پڑ گئیں،فیروزتغلق نے اس بکھری
ہوئی مجلس کوسمیٹنے کی کوشش کی لیکن اس کے بعدجوسیاسی ابتری پیداہوئی اس سے
تنگ آکرعلماء صوبوں میں چلے گئے اور یہ علاقہ علماء سے یکسر خالی
ہوگیا۔تیمور کے حملہ نے تباہی کومکمل کردیا۔سکندرلودھی نے اس بزم کوپھررونق
دینی چاہی لیکن سیاسی انتشار اور غیریقینی حالات کے باعث زیادہ کامیابی نہ
ہوئی۔پھر اکبر کی بے رواہ روی سے متاثرہوکراکثر علماء ومشائخ اس علاقہ سے
ہٹ گئے۔انہوں نے یاتوحرمین شریفین کی راہ لی یاپھردارالسلطنت سے دور ساحلی
علاقوں میں اقامت اختیار کرلی‘‘۔(حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ص:۴۲)
علم حدیث شمالی ہند سے تقریباً ختم ہوچکاتھا،جب اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے شیخ
محقق نے علوم دینیہ خصوصاًعلمِ حدیث کی شمع روشن کی،نیز درس وتدریس اور
تصنیف وتالیف کو ایک مشن کے طور پر اپنایا ، توہندوستان کی فضائیں قال اﷲ
قال الرسول کی دل نوازصداؤں سے گونج اٹھیں۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:
’’حضرت شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی نے جس وقت مسند تدریس بچھائی اس وقت
شمالی ہندوستان میں حدیث کا علم تقریباًختم ہوچکاتھا،انہوں نے اس تنگ
وتاریک ماحول میں علومِ دینی کی ایسی شمع روشن کی کہ دوردور سے لوگ پروانوں
کی طرح کھینچ کر ان کے گردجمع ہونے لگے۔درسِ حدیث کاایک نیاسلسلہ شمالی
ہندوستان میں جاری ہوگیا۔علومِ دینی خصوصاً حدیث کامرکزِثقل،گجرات سے منتقل
ہو کردہلی آگیا۔گیارہویں صدی ہجری کے شروع سے تیرہویں صدی کے آخر تک علمِ
حدیث پرجتنی کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں،ان کابیشترحصہ دہلی یاشمالی
ہندوستان میں لکھاگیا،یہ سب شیخ عبدالحق محدث دہلوی کااثرتھا‘‘۔(حیات شیخ
عبدالحق محدث دہلوی،ص:۴۳) |