تبلیغ دین کے سلسلے میں اولیاء کرام
اورصوفیاء عظام کے جو ناقابل فراموش کارنامے ہیں، ان احسانات سے برصغیر پاک
وہند کا کوئی مسلمان سبکدوش نہیں ہو سکتا، تاریخی طور پر یہ ایک مسلم حقیقت
ہے کہ اسلامی دورِ حکومت میں اگر دہلی اور اس کے اَطراف و اَکناف سلسلہ
چشتیہ کے بزرگانِ کرام کے فیوض و برکات کا مرکز رہا ہے، تو ملتان اور اس کے
اطراف و اکناف میں سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے مشائخ طریقت نے علم و عمل،
حقیقت و معرفت اور انسانیت کی رہنمائی و ہدایت کا فریضہ احسن انداز سے
نبھایا ہے۔سب سے پہلے بانی سلسلہ سہروردیہ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے
خلیفۂ اجل حضرت خواجہ بہاؤ الدین زکریا قدس سرہ نے اپنے تبلیغی و اصلاحی
مشن کیلئے ملتان کو اشاعتِ دین کا مرکز بنایا اور وہاں سے رُشد و ہدایت کا
سلسلہ جاری کیا۔
بعد میں اسی سلسلے کی ایک شاخ نے ملتان کے قریب اوچ شریف میں تعلیم و تعلم،
تزکیہ و تربیت کیلئے ایک نئے مرکز کی بنیاد ڈالی، یہ اس دور کی بات ہے جب
آج کا یہ اُجڑا دیار اُس زمانے میں سیاسی مرکزیت اور بڑی اہمیت کا حامل تھا،
یہ بات آٹھویں صدی ہجری کے حوالے سے کہی جارہی ہے اور جس صوفیانہ شاخ کا
تذکرہ مقصود ہے، اُس کے نمایاں ترین فردِ فرید کا نام گرامی’’ جلال الدین‘‘
لقب’’مخدوم جہانیاں اور جہاں گشت‘‘ ،والد کا نام احمد کبیر اور آپ کے دادا
حضرت جلال سرخ بخاریؒ ہیں ، آپ کے والد اور دادا دونوں اپنے وقت کے نامور
شیوخ اور’’ بخاری‘‘ خاندان کے ممتاز فرد تھے۔
مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے دادا محترم کو حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ سے اجازت
و خلافت حاصل تھی،جبکہ والد محترم کو حضرت بہاؤ الدین کے جانشین حضرت صدر
الدین عارفؒ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔
خزینۃ الاصفیاء کی روایت کے مطابق جھنگ شہر کی بنیاد آپ کے دادا حضرت جلال
الدین سرخ بخاری کے ہاتھوں قائم ہوئی۔
حضرت مخدوم جہاں گشت کی ولادت باسعادت ۱۴ شعبان المعظم ۷۰۷ ہجری بروز
جمعرات اوچ میں ہوئی، تاریخی نام ’’ غلام نبی‘‘ نکالا گیا، صاحبِ خزینۃ
الاصفیاء نے اس لفظ کو یوں نظم کیا ہے:
میر کامل ولی جلال الدین
قرہ ٔدیدۂ علی آمد
سالِ تولید آں شہِ مخدوم
از دلم’’خادم نبی‘‘ آمد
حضرت مخدوم جہاں گشت کی پرورش بہت ناز ونعم اور بڑے سلیقہ شعار طریقے سے
ہوئی کیوں کہ آپ کا خاندان دو پشت سے برصغیر پاک و ہند میں رُشد و ہدایت کا
مرکز بنا ہوا تھا، اس لئے آپ کی تعلیم و تربیت اُسی اعلیٰ پیمانے پر ہوئی۔
ابتدائی تعلیم و تربیت اوچ شریف میں ہی ہوئی، مقامی طور پر دواساتذہ شیخ
جمال اور شیخ بہاؤ الدین قاضیٔ اوچ کے نام ملتے ہیں، آپ کے استاذ شیخ جمال
علم ظاہر و باطن کے جامع تھے، ان کے درس میں فقہ حنفی کی بلند پایہ کتاب ’’ہدایہ‘‘،
اصولِ فقہ میں علامہ فخر الاسلام بزدوی کی’’ اصول بزدوی‘‘، علم حدیث میں
مشارق الانوار اور مشکوۃ المصابیح، جبکہ فن تصوف میں’’ عوارف المعارف‘‘
شامل نصاب تھیں، آپ کے اساتذہ کا علمی پایہ کتنا بلندتھا اوروہ ان کی تربیت
کا کتنا خیال رکھتے تھے، اس کا اندازہ حضرت مخدوم کے بیان کردہ اس واقعے سے
ہوتا ہے، حضرت مخدوم فرماتے ہیں
:
’’ مولانا بہاؤ الدین قاضی اچ دعاگو(خود حضرت مخدوم مراد ہیں) کے استاد تھے،
میں ان کے پاس پڑھتا تھا اور تواضع کرتا تھا، ایک دن مجھ سے کہا کہ تو سر
کو بلند کر کے سلام کر، نیچا کر کے سلام مت کر کیوں کہ مکروہ
ہے۔(الدّرّالمنظوم)
علاوہ ازیں حضرت مخدوم نے ملتان اور حرمین شریفین حاضر ہو کر خوب محنت اور
طلب کیسا تھ علم حاصل کیا، علماء حرمین میں شیخؒ عبداﷲ یا فعی مدنی اور شیخ
عبداﷲ مطری مکی آپ کے نامور اساتذہ میں شامل ہیں۔ سات سال تک حضرت مخدومؒ
مکہ مکرمہ میں مقیم رہ کر تحصیل علم فرماتے رہے، علم حدیث میں بڑاکمال پیدا
کیاتھا، آپ نے حرمین شریفین میں رہ کر حدیث شریف کی جو کتابیں پڑہیں، ان
میں موطا امام مالک، بخاری شریف، مسلم شریف، سنن ترمذی، اور سنن امام بیہقیؒ
کے نام خاص طور سے ملتے ہیں، علاوہ ازیں علوم قرآن میں قراء ات سبعہ، تجوید،
شانِ نزول اور علمِ تفسیر میں بڑا مقام پیدا کیا تھا۔
آپ کی پہلی بیعت اپنے والد ماجد سے اور دوسری حضرت رکن الدینؒابوالفتح سے
تھی، وہیں سے سلسلۂ سہروردیہ میں اجازت وخلافت پائی، علاوہ ازیں سلسلۂ
چشتیہ میں خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلویؒ سے اجازت حاصل تھی، جبکہ بیس
دیگر مشائخ کرام سے خرقہ پوشی کا تذکرہ بھی ملتا ہے، آپ کی سیرو سیاحت اس
قدر تھی کہ اس کے سبب سے آپ کا لقب’’ جہاں گشت‘‘ مشہور ہو گیا ہے، آپ سلطان
محمدتغلق کا طرف سے اسلامی حکومت کے’’شیخ الاسلام‘‘ کے منصب پر بھی فائز
کئے گئے تھے، آپ اپنے وقت کے عظیم صوفی بزرگ ہونے کیساتھ علم ظاہر کے بھی
جامع تھے۔ آپ کے ہاں امام نسفی حنفی کی مشہور تفسیرِ مدارک، قراء ات سبعہ،
بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، مشکوۃ اور جامع صغیر کی تدریس و تعلیم جاری
رہتی تھی، جبکہ عقائد میں علم العقائد کی مشہور نصابی متن ’’عقائدا
لنسفی‘‘، امام ابو حنیفہ کی ’’فقہ اکبر‘‘ اور تصوف میں عوارف المعارف کا
درس دیا کر تے تھے۔
حضرت مخدوم نے ۷۸ سال عمر پائی، سال وفات ۷۸۵ ہجری ہے، یوم وفات ۱۰ ذی
الحجہ عید قربان کا دن تھا، دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد طبیعت کافی خراب
ہوگئی اور بالآخر غروب آفتاب کیساتھ رشد و ہدایت، فلاح و خیر اور علم و فضل
کا یہ آفتاب بھی ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا، مگر ان کا سلسلۂ خیر اپنی کرنیں
بکھیرتا رہا، آپ کے ایک لاکھ سترہزار دو سو چھیاسی مرید تھے، جبکہ بیالیس
نامور مریدین و خلفاء کرام کانام تاریخوں میں اب تک محفوظ ہے، آپ کی اولاد
میں تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی کا تذکرہ ملتا ہے۔
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت قدس سرہ کے ملفوظات وارشادات میں حکمت ومعرفت
کے بیش بہا خزانے جمع ہیں، جو آپ کے مجموعہ ملفوظات میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے
ہیں۔ ان میں صرف تین ملفوظ یہاں بطور نمونہ کے درج کیے جاتے ہیں:
(۱)انسان جو کام کرے خدا کی دوستی کے لئے کرے۔
(۲)تین آدمیوں سے بچنا چاہئے:(۱)جاہل پیر(۲)جابر حاکم(۳) دنیا دار عالم۔
(۳) علم ایساہونا چاہئے کہ جس پر عمل ہو سکے اور وہ آخرت میں مفید ہو۔ |