اگست1942ء کا واقعہ ہے کہ امریکی بحریہ نے اپنا نیا
جنگی بحری جہاز یو ایس ایس سائوتھ ڈکوٹا بحرالکاہل میں اتارا۔ یہ جنگی جہاز
نہایت مضبوط دھاتوں سے بنایا گیا تھا۔ نیز اس میں بھاری توپیں اور طاقتور
انجن نصب کیے گئے۔
عملۂ جہاز میں اکثریت ’’سبز لڑکوں‘‘ (Green boys) کی تھی۔ یہ نوخیز لڑکے
پرل ہاربر میں جاپانی حملے کے بعد بھرتی کیے گئے تھے۔ انھیں پھر ابتدائی
فوجی تربیت دے کر جنگ میں بھیج دیا گیا۔ تب دوسری جنگ عظیم زور و شور سے
جاری تھی۔ جہاز کا کپتان، تھامس گیچ جاپانیوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ کپتان
کی شدید خواہش یہ تھی کہ اس کا عملہ زیادہ سے زیادہ جاپانیوں کو ہلاک کر
ڈالے۔
یہی وجہ ہے کہ بحرالکاہل میں داخل ہوتے ہی سائوتھ ڈکوٹا جوش و خروش سے
جاپانیوں پر پل پڑا۔ اس جنگی جہاز نے صرف چار ماہ کے دوران انتہائی خوں ریز
معرکوں میں حصہ لیا اور کئی چرکے سہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مرمت کے لیے
نیویارک بندرگاہ آنا پڑا۔
آنے والے مہینوں میں بھی جہاز کا عملہ پوری یک سوئی سے جنگ میں مصروف رہا۔
یہی وجہ ہے کہ سائوتھ ڈکوٹا کا شمار ان امریکی جنگی بحری جہازوں میں ہوتا
ہے جن کے عملے نے دوسری جنگ عظیم میں سب سے زیادہ تمغے حاصل کیے۔ یہی نہیں،
اس نے اپنا ’’راز‘‘ چھپانے کے لیے نیا نام بھی پایا۔
دراصل ایک بحری جنگ میں اتنا زیادہ گولہ بارود استعمال ہوا کہ سائوتھ ڈکوٹا
دھوئیں میں چھپ گیا۔ تاہم جاپانی یہی سمجھے کہ ان کے حملوں نے جہاز کو ڈبو
دیا۔ امریکی بحریہ نے فیصلہ کیا کہ جاپانیوں کی یہ خوش فہمی برقرار رکھی
جائے۔ چنانچہ جہاز کے تمام شناختی نشان مٹادیے گئے۔ نیز تمام ملاحوں کو منع
کر دیا گیا کہ وہ باہمی رابطے میں جہاز کا نام نہ لیں اور نہ ہی ڈائریوں
میں اس کا ذکر کریں۔ حتیٰ کہ بعدازاں امریکی اخبارات نے بحرالکاہل میں
سائوتھ ڈکوٹا کے کارنامے شائع کیے، تو اسے محض ’’جنگی جہاز ایکس‘‘
(Battleship X) کے عرف سے پکارا۔ یوں امریکی میڈیا میں جہاز پھر اسی عرفیت
سے مشہور ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکیوں نے یہ راز بڑی حفاظت سے رکھا کہ سائوتھ
ڈکوٹا بحرالکاہل کی تہ میں موجود نہیں بلکہ پوری تندہی سے جاپانیوں کے خلاف
نبردآزما ہے۔ اسی جہاز میں ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا بطور
توپچی بھی سوار تھا۔ اسے جلد ہی تمغے لینے والے سب سے کم عمر فوجی کا
اعزازحاصل ہونے والا تھا۔
کیلون گراہم ریاست ٹیکساس کے قصبے، کروکٹ کا رہائشی تھا۔1942ء کے موسم گرما
میں جب جھوٹ بول کر کیلون نے امریکی بحریہ میں شمولیت کا منصوبہ بنایا، تو
اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔ کیلون کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ باپ
مقامی کارخانے میںفورمین تھا۔ غصیلا اور فحش گالیاں بکنے والا تھا۔ بات بات
پہ اپنے 7بچوں کو پیٹ ڈالتا۔
جب معاملہ حد سے باہر ہوا، تو کیلون گھر سے فرار ہو گیا۔ اس نے ایک کچی
بستی میں ٹھکانا ڈھونڈا اور اخبارات بیچ کر گزارہ کرنے لگا۔ تاہم اس نے
اسکول جانا نہ چھوڑا۔ وقتاً فوقتاً ماں اس کا حال پوچھ جاتی۔ تب امریکا جنگ
میں پوری طرح لتھڑ چکا تھا۔ اخبارات فروخت کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ کیلون
کو موقع ملتا رہا کہ وہ ملکی حالات سے باخبر رہے۔
امریکی دانش وروں کے جذبات انگیز مضامین پڑھ کر کیلون کے دل میںبھی یہ جذبہ
ابھرا کہ دشمن کے خلاف لڑے۔ وہ ہٹلر اور جاپانیوں کو سخت ناپسند کرتا تھا۔
اس زمانے میں امریکی افواج کو تازہ خون کی ضرورت تھی۔ لہٰذا والدین کی
آمادگی پر سولہ سترہ سالہ لڑکے بھی فوج میں بھرتی کیے جاتے۔ مگر کیلون کو
منظور نہ تھا کہ وہ مزید 5 برس انتظار کرے۔ چنانچہ وہ 11سال کا ہوتے ہی شیو
کرنے لگا۔ اسے امید تھی کہ یوں وہ فوجی افسروں کے سامنے بڑا لگے گا۔
جب شیو کرتے ایک سال گزرا، تو کیلون بالغوں کے کپڑے پہن کر بھاری آواز میں
بولنے کی مشق کرنے لگا۔ جب یہ مرحلہ بھی طے ہوا، تو اس نے فوج میںداخلے کا
فارم بھرا، ماں کے جعلی دستخط کیے اور پھر اپنا نمبر آنے کا انتظار کرنے
لگا۔
کیلون کو یہ خطرہ نہیں تھا کہ جعلی دستخط پکڑے جائیں گے۔ اسے ڈر یہ تھا کہ
دندان ساز نے جب بھی اس کے منہ میں دانت دیکھے، تو وہ اصل عمر جان جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ جب کیلون کی کال آئی اور وہ ڈینٹسٹ کے کلینک برائے معاینہ
پہنچا، تو وہ پندرہ سولہ سالہ لڑکوں کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔
تاہم دندان ساز جلد جان گیا کہ اس لڑکے کی عمر 12؍بارہ سال ہے۔ تاہم کیلون
خود کو 17سالہ نوجوان بتاتا رہا۔ جب بحث طویل ہو گئی، تو کیلون نے ترپ کا
پتا پھینکا۔ اسے بعض لڑکوں نے راز کی یہ بات بتائی تھی کہ دندان ساز رشوت
لے کر عمر بڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ کیلون نے اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے 17سال
عمر نہ لکھی، تو وہ فوجی افسروں کو اس کی رشوت خوری کا بتا دے گا۔ دندان
ساز ڈر گیا اور چپ چاپ کیلون کو 17سالہ نوجوان بنا دیا۔
واضح رہے اس زمانے میں سیکڑوں امریکی نوجوانوں نے اپنی عمرغلط بتائی، لیکن
انھیں افواج میں شامل کر لیا گیا۔ وجہ یہی تھی کہ تب امریکی افواج کو
فوجیوں کی اشد ضرورت تھی۔ دوسری طرف جھوٹ بولنے والے بیشتر لڑکے غریب یا
انتشار زدہ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔
بہرحال کیلون امریکی بحریہ کا حصہ بن گیا۔ اس نے ماں کو بتایا کہ وہ گھومنے
پھرنے نیویارک جا رہا ہے۔ حقیقتاً وہ فوجی تربیت پانے سان ڈیاگو پہنچ گیا۔
وہاں اسے بحیثیت توپچی بنیادی تربیت ملی اور پھر سائوتھ ڈکوٹا میں تعینات
ہوا۔
26اکتوبر1942ء کو سائوتھ ڈکوٹا امریکی طیارہ بردار بحری جہاز، یو ایس ایس
انٹر پرائز اور دیگر 2 جنگی جہازوں کے ساتھ جاپانیوں سے دو دو ہاتھ کرنے
روانہ ہوا۔ چلا ہی سانتا کروز نامی جزائر میں دونوں کا ٹکرائو ہو گیا۔
جاپانی بمبار طیاروں نے زبردست حملہ کیا، مگر سائوتھ ڈکوٹا کے توپچیوں نے
کمال مہارت اور طیارہ شکن توپوں کی مدد سے 26طیارے مار گرائے۔
تاہم جاپانی طیارے بھی غول در غول آتے رہے۔ آخر ایک500پونڈ وزنی بم سائوتھ
ڈکوٹا پر آ گرا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تب جہاز کا کپتان، تھامس گیچ عرشے
پہ کھڑا تھا۔ اس نے بم آتے دیکھ لیا، مگر چھپنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
لہٰذا بم کے شارپنلوں نے اسے شدید زخمی کر دیا ۔ اگر اسے بروقت طبی امداد
نہ ملتی، تو اُس کا مرنا یقینی تھا۔ جب کپتان گیچ سے پوچھا گیا کہ وہ بم سے
بچنے کے لیے کیوں نہ چھپا تو وہ بولا:
’’میرے نزدیک یہ ایک امریکی جنگی جہاز کے کپتان کی شان کے منافی تھا کہ
جاپانی بم سے بچنے کی خاطر فرار ہو جاتا۔‘‘
سائوتھ ڈکوٹا کی فولادی چادر بہت مضبوط تھی، اس لیے بم اسے خاص نقصان نہ
پہنچا سکا۔ تاہم کچھ عرصہ پرل ہاربر میں اس کی مرمت ہوئی اور پھر وہ دوبارہ
میدان جنگ میں پہنچ گیا۔ چونکہ جہاز کے توپچی بشمول کیلون ناتجربہ کار تھے،
لہٰذا وہ ہر اڑتی چیز کو نشانہ بنانے لگے۔ حتیٰ کہ امریکی ہوائی جہازوں پر
بھی فائرنگ کر دیتے۔ چنانچہ امریکی پائلٹوں کو خبردار کر دیا گیا کہ وہ
سائوتھ ڈکوٹا کے آس پاس احتیاط سے اڑیں اور بہتر ہے کہ اس سے دور ہی رہیں۔
14نومبر کی شام ساوہ جزیرے کے نزدیک ڈکوٹا کا آمنا سامنا 8جاپانی جنگی بحری
جہازوں سے ہوا۔ توپچی تین جاپانی جہاز غرق کرنے میں کامیاب رہے۔ لیکن بقیہ
پانچ جاپانی جہازوں نے سائوتھ ڈکوٹا پر زبردست گولہ باری کی۔ ایک شارپنل
کیلون کے منہ پر بھی لگا اور اس کے تین دانت توڑ گیا۔ دوسرا شارپنل بازو پر
لگا اوراسے خاصا زخمی کر گیا۔
اس وقت تک کیلون13برس کا ہو چکا تھا۔ اس عمر میں عموماً لڑکے غیر ذمے دار
اور کھلنڈرے ہوتے ہیں۔ لیکن کیلون نے زخمی ہونے کے باوجود بڑی ہمت دکھائی۔
اس کے جو ساتھی شدید زخمی تھے، وہ انھیں محفوظ مقام پر لے گیا۔ یوں اس نے
دس ساتھیوں کی قیمتی جانیں بچائیں۔
جاپانیوں کے ساتھ یہ زبردست معرکہ ’’گواڈلکنال جنگ‘‘ (Battle of
Guadalcanal) کے نام سے مشہور ہوا۔ گولہ بارود کے باعث سمندر پر کثیف دھواں
پھیل گیا۔ اسی دھوئیں کا فائدہ اٹھا کر سائوتھ ڈکوٹا جاپانیوں کی دسترس سے
دور نکل گیا۔ جاپانی یہی سمجھے کہ وہ ڈوب چکا ہے۔ تاہم خاصی ٹوٹ پھوٹ کے
باوجود جہاز امریکی بندرگاہ تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ تبھی بیٹل شپ ایکس
کی دیومالا مشہور ہوئی۔
گواڈلکنال جنگ میں سائوتھ ڈکوٹا کا تقریباً آدھا عملہ جاں بحق ہو گیا۔ جب
جہاز بندرگاہ پہنچا، تو نہ صرف اس کی مرمت ہوئی، بلکہ دلیری دکھانے والے
فوجیوں کو تمغے بھی ملے۔ کیلون کو بھی دو تمغے ملے، تمغا کانسی (Bronze
Star) اور پرپل ہارٹ (Purple Heart) نامی تمغا۔
کیلون کو تمغے پا کر قدرتاً خوشی ہوئی۔ تاہم یہ مسرت عارضی تھی۔ جب تمغا
یافتہ کیلون کی تصویر اخبارمیں چھپی، تو اتفاقاً اس کی ماں نے دیکھ لی۔ جب
ماں نے بیٹے کا پتا چلانے کی خاطر امریکی بحریہ سے رابطہ کیا، تو یہ حقیقت
سامنے آ گئی کہ وہ تو نابالغ ہے۔
اب ملٹری پولیس نے نابالغ توپچی کو گرفتار کر لیا۔ وہ پھر تین ماہ فوجی جیل
میں رہا۔ اُدھر بیٹل شپ ایکس بحرالکاہل میں پہنچ کر دوبارہ جاپانیوں سے
پنجہ آزمائی کرنے لگا۔ خوش قسمتی سے جیل میں لاوارثوں کے مانند پڑا کیلون
بڑی بہن پرل کو اپنی حالت زار کا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہا۔ پرل نے پھر
اخبارات کے ذریعے یہ دہائی مچا دی کہ امریکی بحریہ ’’کم سن ہیرو‘‘ کے ساتھ
بڑا برا سلوک کر رہی ہے۔ تنقید سے گھبرا کر آخر فوج نے کیلون کو رہا کر
دیا۔ تاہم اس سے دونوں تمغے چھین لیے۔ نیز ہر قسم کی پنشن اور مالی مراعات
بھی روک لیں۔ چنانچہ بیچارا کیلون جیل سے باہر آیا، تو اس کی جیب میں چند
ہی ڈالر موجود تھے۔ نیز وہ باعزت سبکدوشی (Honorable Disharge) سے بھی
محروم رہا۔
لیکن کیلون جب آبائی ریاست ٹیکساس پہنچا، تو وہاں ہیرو کی حیثیت سے اس کا
استقبال ہوا۔ اخباری رپورٹر اس کے پیچھے پیچھے رہے تاکہ مسالہ بھری داستان
حاصل کر سکیں۔ انہی دنوں جنگی فلم ’’بمباڈئیر‘‘ (Bombadier) ریلیز ہوئی۔ اس
میں فلم کے ہیرو اور مشہور امریکی اداکار، پیٹ اور برائن نے کیلون کو خاص
طور پر بلایا۔ فلم ختم ہوئی، تو سبھی حاضرین نے اسے سلیوٹ مارا اور بڑی عزت
دی۔
شہرت و عزت کا یہ دور بڑا مختصر رہا اور وہ پھر گوشۂ گمنامی میں چلا گیا۔
اسکول میں پڑھنے کی عمر گزر چکی تھی۔ لہٰذا کیلون نے ویلڈنگ کا کام سیکھا
اور ایک کارخانے میں ملازمت کرنے لگا۔ تاہم 17سال کی عمر میں سابقہ تجربے
کے پیش نظر اسے امریکی بحریہ کی میرین کورپس (Marine Corps) میں ملازمت مل
گئی۔ لیکن جلد ہی دوران مشق وہ گر کر اپنی کمر تڑوا بیٹھا۔ فوج نے اسے کچھ
رقم دے کر فارغ کردیا۔ اسی رقم سے کیلون نے کتابوں، رسالوں کی دکان کھولی
اور گزر بسر کرنے لگا۔
1976ء میں جمی کارٹر صدر بنے جو امریکی بحریہ سے منسلک رہے تھے۔ کیلون نے
یہ سوچ کر انھیں خط لکھا کہ شاید وہ اس سے ہمدردی کریں۔ وہ بس یہ چاہتا تھا
کہ اسے فوج سے باعزت سبکدوش کیا جائے۔ یوں دراصل اس کی پنشن بحال ہو جاتی۔
پھر علاج کرانے کی خاطر رقم بھی ہاتھ آتی۔
کیلون کی مہم کامیاب رہی۔ 1977ء میں ٹیکساس کے سینیٹروں لائڈ بینٹین اور
جان ٹیلر نے ایک بل پیش کیا تا کہ اسے باعزت سبکدوش کیا جائے۔ 1978ء میں
صدر کارٹر نے اعلان کیا کہ اس کا مطالبہ پورا ہوا۔ نیز کانسی کا تمغا بھی
بحال کر دیا گیا۔
آخر1994ء میں امریکی حکومت کی عقل میں آیا کہ کیلون محب وطن تھا۔ کم عمری
کے باوجود وہ بہ رضا و رغبت جوش و جذبے سے فوج میں شامل ہوا اور دشمن کے
خلاف دادشجاعت دی۔ یہی بات مدنظر رکھ کر امریکی حکومت نے اس کا دوسرا تمغا،
پرپل ہارٹ بھی بحال کر دیا۔ لیکن تب تک اسے دنیا سے گزرے دوبرس ہو چکے تھے۔ |