ذرائع ابلاغ :کبھی راویانِ خبر زدہ پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے

اس میں شک نہیں لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور لوہا لکڑے کو بھی کاٹتا ہے مگر لکڑا لوہے کو نہیں کاٹ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کے دوسرے نصف میں نریندرمودی نے ذرائع ابلاغ میں راہل گاندھی کومولی گاجر کی مانند کاٹنا شروع کردیااوریہ سلسلہ پانچ ریاستوں کے اندر ہونے والے انتخابات تک چلتا رہا ۔ اگر دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۳۱ کے بجائے ۳۶ نشستیں مل جاتیں اور ڈاکٹر ہرش وردھن وزیراعلیٰ بن جاتے تو ممکن ہے وہ آگے بھی جاری و ساری رہتا لیکن ہوا یہ کہ بی جے پی سب سے زیادہ ووٹ اور نشستوں پر کا میابی حاصل کرنے کے باوجود اکثریت سے محروم رہ گئی ۔عام آدمی پارٹی کے جھاڑونے اس کا صفایا کردیا اوربی جے پی کوسیاست کے بازار میں ایسا بکاؤ مال بھی میسر نہیں آیا جس کو خرید کر وہ اپنی حکومت بنا پاتی ۔ اسی کے ساتھ عامآدمیپارٹیکیکامیابینے ذرائع ابلاغ کو ایک متبادل سے نواز دیا اور اروند کیجریوال نام کی آندھی ایسی اٹھی کہ اس نے نریندر مودی کو میڈیا کے گلیارے سے خس و خاشاک کی مانند اڑا کر باہر پھینک دیا۔

اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ تین ریاستوں میں اپنی زبردست کامیابی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے بجائے کےخود نریندر مودی ان انتخابی نتائج سےحواس باختہ ہوکردہلی سے منہ چھپا کر نکل بھاگا اوراس کے بعد میڈیا نے اس سے اپنی طوطا چشمی نگاہیں پھرلیں ۔ وقت کے ساتھ نہ صرف مودی بلکہ اس کے آقا آر ایس ایس کو بھی اس تبدیلی کا احساس ہو چکا ہے اور ان لوگوں نے دوبارہ اپنے قدم جمانے کیلئے ہاتھ پیر مارنے شروع کردئیے ہیں۔ گوا میں نریندر مودی کی حالیہ تقریر اس کی جھنجلا بیان کررہی تھی ۔ اس نے کہا ٹیلی ویژن پر نظر آنے سے انتخابات نہیں جیتے جاتے لیکن بیچارہ مودی بھول گیا کہ کل تک وہ خودبھی اسی راستے سے انتخاب جیتنے کی کوشش کررہا تھا اب چونکہ انگور چھن گئے ہیں تو اس لئے کھٹےّ لگنے لگے ہیں۔ مودی نےاپنے آپ کو ٹی وی پر لانے کیلئے ابھی حال میں سلمان خان کو اپنے ساتھ پتنگ بازی دعوت دی تاکہ اس کے طفیل ٹیلی ویژن پر نظر آسکے۔ مودی کی ایسی محتاجی توزیر اعظم کا امیدوار بننے سے قبل بھینہیں تھی۔

گوا کے اندرمودی نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس ڈاکٹر پریکر جیسا پڑھا لکھا آدمی موجود ہے اگر دہلی میں ہوتا تو لوگ اسے جانتے ۔ مودی کو اپنے چائے بیچنے پر فخر جتانے فرصت ملے تب تو وہ اپنے آپ کو کیجریوال کی طرح پڑھا لکھا ثابت کرے۔ مودی نےسابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا وہ اس قدر سادگی ہیں کہ ان کااپنا گھر نہیں ہے لیکن اپنی شاہانہ زندگی کے پیش نظر وہ خود مثال نہیں پیش کرسکا ۔ کیجریوال کے خلاف آخری بات اس نے یہ کہی کہ ہمارے پاس تجربہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بی جے پی سے زیادہ سیاسی تجربہ کانگریس کے پاس ہے اس لئے اگر اسی بنیاد پر ووٹ دینا ہے تو کانگریس اس کی زیادہ مستحق ہے۔ مودی کا اس طرح صفائی پیش کرنا غمازی کرتا ہے کہ اروند کیجریوال کی سیاسی افق پر بنودار ہونے سے وہ اقدامی پوزیشن کے بجائے دفاعی حالت میں آگیا ہے۔ بی جے پی کے کارکنان کا حال یہ ہے کہ وہ مایوسی کے عالم میں کبھی عام آدمی پارٹی کے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ مچاتے ہیں تو کبھی بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔ مودی سے لے کر جیٹلی تک سارے بی جے پی رہنما ہذیانی کیفیت کا شکارہیں لیکن یہ بیچارے عقل کے مارے نہیں سوچتے کہ بقول شاعر ؎
یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جو آگ تھی ہو کہاں کی تھی
کبھی راویانِ خبر زدہ پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے

ذرائع ابلاغ میں فی الحال ٹیلی ویژن کا ڈنکا بجتاہے اور اس پر مختلف طرح کے چینل پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ سائنسی معلومات کے یا مذہبی چینلس ہیں جن پر لوگ تفریح کیلئے نہیں جاتے۔ اس کے علاوہ ڈراموں کےچینلس ہیں جن کے گھسے پٹے موضوعات سے لوگ اس قدر بیزار ہیں کہ اب و ہی لوگ اُدھرکا رخ کرتے ہیں جو منشیات کی مانند ان کے عادی ہو چکے ہیں۔ صاف ستھری تفریح کے طالب فلموں اور موسیقی کے چینلس سے بھی دور رہتے ہیں اس لئے ان پردن رات عریانیت و فحاشی کا طوفانِ بدتمیزی برپا رہتا ہے۔ اب لے دے کر خبروں کے چینلس بچ جاتے ہیں اس لئے عوام کی بہت بڑی تعدادتفریح کی خاطر خبریں دیکھتی ہے۔ ویسے بھی ہندوستانی سیاست کی نوٹنکی کے آگےسارے ناٹک پانی بھرتے ہیں ۔یہاں پراینگری ینگ مین سے لے کر کامیڈین تک سارے جمع ہوجاتےہیں ۔ناظرین کے جمِ غفیراسی لئے ان کی کشش محسوس کرتا ہے۔خبروں کے چینلس پر دکھلائے جانے والے اشتہارات سے ان کی مقبولیت اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

تفریحی عنصرنے ہیجان انگیزی کو خبروں کے چینلس کی ایک بہت بڑی ضرورت بنا دیاہے۔ اگر کوئی چینل خبرکو مرچ مصالحہ لگا کر پیش نہ کرے تو ناظرین کو مزہ نہیں آتا اور ان کے ہاتھوں میں پڑا ہوا ریموٹ کنٹرول حرکت میں آجاتا ہے جس کی مدد سے وہ دوسری دوکان پر چلے جاتے ہیں۔ ناظرین بھی بہت جلد کسی ایک خبر یا چہرے سے اوب جاتے ہیں اس لئے انہیں اپنی جانب متوجہ رکھنے کیلئےنت نئےچہروں کوخوب سجا سنوار کرلایاجاتاہے اس کے باوجود چہروں کو بدلتے رہنا ذرائع ابلاغ کی مستقل مجبوری ہے ۔ میڈیا پر اس دباؤ کا اندازہ کھلاڑیوں کے ساتھ اس کے رویہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جب تک کوئی کرکٹ کھلاڑی رنوں کا ڈھیر یا وکٹوں کا انبارلگا تا رہتا ہے اس کی تصاویر اور تبصرےشائع ہوتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی بلہّ رکتا ہے یا گیند تھمتی ہے میڈیا اس کو بھول کر اس کھلاڑی کی جانب نکل جاتا ہے جس کا بلہّ چل رہا ہوتا ہے۔

فلمی ہستیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے جب تک کسی اداکار کی فلمیں چلتی ہیں تواس کے متعلق دنیا بھر کی افواہیں تک ذرائع ابلاغ کی زینت بنی رہتی ہیں اورعوام بھی ان سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی اس کا ستارہ گردش میں آتا ہے میڈیا اسے چھوڑ کر کسی ابھرتے ہوئے ستارے کی جانب دوڑ پڑتا ہے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا میں دولت کے زور سے بھی بہت کچھ دکھلایا جاتا ہے لیکن اس کی بھی اپنی حدود و قیود ہیں ایک حد کے بعد وہ حربہ نہیں چل پاتا ۔ چونکہ ذرائع ابلاغ کا تجارتی مفاد کسی فرد کی ناموری کے بجائے ناظرین کی تعدادسے وابستہ ہوتا ہے اس لئےجب ناظرین کسی شخصیت سے بیزار ہوکر اس سے نظر پھیر لیتے ہیں تو میڈیا کوبھی لازماًاپنی وفاداریتبدیل کرنی پڑتی ہے۔

گزشتہ سال کےابتداء میں یکے بعد دیگرے منظرِ عام پر آنے والے بدعنوانی کے واقعات میڈیا پر چھائے رہے جب ان کی یکسانیت سے لوگ بیزار ہوئےتوذرائع ابلاغ پر اناّ ہزارے کے لوک پال نے قبضہ کرلیا ۔ اس کی وجہ قومی میڈیا کی اس تحریک سے ہمدردی نہیں تھی اس لئے وہ نہ صرف بدعنوانی کے سرچشمہ تجارتی اداروں سے ساز باز کئے رہتا ہے بلکہ اس میں دن رات ڈبکی لگانے والے سیاستدانوں کا شراکت دار بنا رہتاہے ۔ پچھلے سال اکتوبر میں رکن پارلیمان نوین جندل سے کول گیٹ کی منفی رپورٹنگ نہ کرنے کیلئے زی ٹی وی کے مدیر سدھیر چودھری نے ۱۰۰ کروڈ کا مطالبہ کیا اوراعتراف کیا کہ ایسا صرف ہم نہیں کرتے بلکہ سارا میڈیا کرتا ہے۔ ہم تو صاف شفاف انداز میں اشتہار مانگتے ہیں دوسروں کی مانند روپیہ لے کر پہلے صفحے کی خبر نہیں بناتے۔ چودھری نے ٹائمز دکھلا کرجندل سے کہا اگر آپ نے اس اخبار کو اشتہار دینے بند کردئیے تو یہ آپ کے خلاف لکھنے لگے گا۔ چودھری کے مطاابق دہلی ٹائمز اور ممبئی ٹائمز کی ساری تصاویر ، انٹرویوزاورفلمی تبصرےروپیوں عوض شائع کئے جاتے ہیں۔ زی والوں کی مادہ پرستانہ حرکات پر میڈیا کے متعلق یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
دہشتگرد کہو اب ہم کو، کل پھرکہہ لینا ہیرو
سوچ کا دریاسوناچاندی،سوچ کادھاراکٹھ پتلی

انا ہزارے کی تحریک کو ذرائع ابلاغ میں پذیرائی اس لئے ملی کہ اس کے سبب ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا تھا اور اسی کے ساتھ نہ صرف اشتہارات کمیت بلکہ نرخ بھی بڑھ جاتا تھا۔ دوچار ہفتوں کے بعدجب لوگ انا ہزارے سے بور ہونے لگے تو نریندر مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بنا کر بی جے پی نے میڈیا کو اپنی دوکان چمکانے کا ایک اور نادر موقع عطا کردیا۔ اس طرح ایک نئی ڈگڈگی میڈیا کے ہاتھ آگئی۔ نتیش کمار کے ساتھ الحاق کا ختم ہونا ایک بہت بڑی خبر بن گیا چہار جانب سے قیاس آرائیوں کا بازارگرم کردیا گیا اور اسی کے ساتھ نریندر مودی کوسپر اسٹار بنا دیا گیا ۔

مودی کے پاس ذرائع ابلاغ پر لٹانے کیلئے بدعنوانی کے ذریعہ جمع کردہ دولت کا انبار تھا۔ اس نے اس کام کے کیلئے ایک امریکی کمپنی کی خدمات بھی حاصل کررکھی تھیں اس لئے وہ بڑی آسانی کے ساتھ چھوٹے پردے کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔اس کے بیانات، اس کے مکالمے، اس کے جلسے ، یہاں تک کہ اس کی حماقتوں تک کوخوب بنا سنوار کر پیش کیا جانے لگا ۔ اس کی مخالفت کو اچھالا جاتا اور مخالفین کا تمسخر اڑایا جاتا ۔ میڈیا کا یہ جادو اس طرح سر چڑھ کر بولا کہ لوگوں کو اور خود نریندر مودی کو ایسا لگنے لگا گویا وہ امیدوار نہیں بلکہ بھرا پوراوزیراعظم ہے ۔ میڈیا کا کمال یہ ہے کہ جسے ہیرو بنا یا جاتا ہےاس پر تنقید کرنے والے کوولن بنا دیا جاتا ہے اور مخالف کی مخالفت کرنے والوں اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بھی ہیرو ہو۔ ناظرین چند ماہ تک تواس تماشےسے محظوظ ہوتے رہے لیکن پھر مودی کی ندرت بھی ختم ہوگئی اور اس نے اپنے آپ کو دوہرانا شروع کردیا جس کے سبب لوگ بور ہونے لگے۔

یہ اسی طرح کی صورتحال تھی جس کا سامنا کسی زمانے میںمقبول ترین ٹی وی سیریل ’’ کون بنے گا کروڈ پتی ‘‘کو کرنا پڑا تھا ۔ اس کا ایساغلغلہ تھا کہ لوگ اس میں شمولیت کی خاطر صبح چار بجے اٹھ کر فون کیا کرتے تھے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسے بند کرنا پڑا اور جب وہ دوبارہ شروع کیا گیا تو امیتابھ بچن کے بجائے چہرہ بدل کر شاہ رخ خان کو لانا پڑا۔ اب پھر شاہ رخ کو بچن سے بدل دیا گیا ہے اسی طرح جب میڈیا والے مودی کا متبادل ڈھونڈ رہے تھے اروند کیجریوال ان کے ہاتھ لگ گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے وہ پردۂ سیمیں پر چھا گیا۔ نریندرمودی کی حالت فی الحال کسی زمانے کے سپراسٹار راجیش کھنہ کی سی ہوگئی ہے جس نے بڑے تکبر کے ساتھ نامہ نگاروں سے کہا تھا یہ اٹنّ بٹنّ تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کاکا (بذاتِ خود) صدیوں میں آتا ہے۔میڈیا میں یہ فقرہ بڑے طمطراق سےشائع بھی ہوا لیکن بعد میں جب امیتابھ بچن سپر اسٹار بن گیا تو ذرائع ابلاغ کو یاد بھی نہیں رہا کہ راجیش کھنہ کون تھا ؟ بلکہ اس کی دن رات تعریف کرنے والے اس میں کیڑے نکالنے لگے ۔

اروند کیجریوال کے بعدآج کل نریندر مودی کو کوئی پوچھ کر نہیں دیتا یہاں تک کہ بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ نے مودی کو اپنے لئے نمونہ بنانے کے بجائے کیجریوال کی نقالی شروع کردی۔ راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے نے اپنے حفاظتی دستے کو کم کردیا ، سرکاری گاڑی اوروزیراعلیٰ کےشاندار مکان میں منتقل ہونے کے بجائے اپنے پرانے سرکاری مکان میں رہنا پسند کیا حالانکہ ایسا نہ انہوں نے اپنی گزشتہ میقات میں کیا تھا اور نہ مودی نے ابھی تک کیا ہےیہ کیجریوال کے نقشِ قدم ہیں۔ شیوراج سنگھ نے بھوپال میں سرکاری شراب کی دوکان پر بدیسی شراب کی فروخت پر اسی طرح پابندی لگا دی جیسے کہ عام آدمی پارٹی نے خوردہ بازار میں غیرملکی کمپنیوں پر روک لگائی۔ گوا کےمنوہر پاریکر نے کیجریوال کی مثال دے کر گندے انڈوں پارٹی سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کر کے ظاہر کردیا کہ وہ مودی بھکت نہیں بلکہ کیجریوال کے دلدادہ ہیں اور دہلی کے بی جے پی کارکنان نےپارٹی کے پروگرام میں ٹوپی پہن کر عام آدمی پارٹی کی پیروی کی ۔

قدرت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی وقت نریندر مودی نے منموہن سنگھ کو عمر کا طعنہ دیاتھا لیکن اب حال یہ ہے کہ اس سے کم عمر دوحریف اس کو منہ چڑھا رہے ہیں۔ نریندر مودی نےتبدیلی کا نعرہ لگایا تھا لیکن اب اس کے علاوہ دو نوں امیدوارتبدیلی کے علمبردار ہیں ۔ نریندر مودی نے اپنے آپ کو کانگریس کا واحد متبادل بنا کر پیش کیا تھا اب اس سے زیادہ تگڑا متبادل کیجریوال میدان میں موجود ہے ۔ مودی اپنے آپ کو بہترمنتظم کہتا تھا فی الحال دہلی کی ریاستی حکومت کی برق رفتار کارکردگی اسے پیچھے چھوڑ دیاہے۔ مودی نے بدعنوانی کو ختم کرنے کا عزم کیا تھا لیکن یدورپاّ کو پارٹی میں دوبارہ شامل کرکے اس نے خود بدعنوانی کی کمان اپنے ہاتھوں سے توڑ دی ہے۔اسی لئے جب منموہن نے کہا کہ مودی کا وزیراعظم بن جانا ملک کی تباہی کا شاخسانہ ہوگا تو اروند کیجریوال کا ردعمل تھا کانگریس اور بی جے پی دونوں کا اقتدار میں آجانا ملک کو تباہ برباد کردے گا ۔ اب ملک کی عوام حقیقی متبادل کے طلبگار ہے۔

اروند کیجریوال کی مقبولیت سے کانگریس کا ایک فائدہ تویہ ہوا کہ اس سے حریف ِ اول مودی کے غبارے کی ہوا نکل گئی لیکن کانگریس عام آدمی پارٹی کو منظم ہونے کیلئے بہت زیادہ وقت نہیں دینا چاہتی ہے۔کانگریس یہ ضرور چاہتی ہے کہ وہ تبدیلی کے حاملین کا ووٹ تو کاٹے مگر اس کا روایتی ووٹ کٹے یہ اسے گوارہ نہیں ہے۔اس لئےچار ماہکےاندرکانگریس نےانتخابکےانعقادکااعلانکردیا۔ اسی کے ساتھ منموہن سنگھ نے اپنی سبکدوشی کا اعلان کرکےراہل کی راہ ہموار کردی اورراہل نے اپنے آپ ہر ذمہ داری کیلئے پیش کرتے ہوئے نریندر مودی کے انداز میں کہا ایک پرانی جماعت گنجے کو کنگھی بیچ رہی ہے اور نئی جماعت اس کی حجامت بنا رہی ہے۔ اب اس احمق شہزادے سے کون پوچھے کہ ملک کی عوام کے سر سے خوبصورت گھنگریالے بال اڑا کر اسے گنجے پن کا شکار کس نے کیا ہے؟

اروند کیجریوال نے جمعہ کو کہا کہ کانگریس ان کی حمایت کر کے پچھتائے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اروند کیجریوال خود پچھتا رہے ہیں۔ ان کو قومی انتخابات کے دوران کانگریس کی مدد سے دہلی کی کرسی پر براجمان رہنے کے منفی نتائج کا احساس ہوگیا ہے۔اسی لئے انہوں نے تین پولس والوں کی برطرفی کا بہانہ بنا کر احتجاج کا اعلان کرکے کانگریس پارٹی کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرلی ہے۔ قومی انتخاب سے قبل اس حکومت کا گرنا عام آدمی پارٹی کے ساتھ ساتھ کانگریس کیلئے بھی بہت مفید ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمتِِعملی یہ ہے عام آدمی پارٹی کو کانگریس کی بی ٹیم قرار دے کر اپنے رائے دہندگان کو اس کے قریب جانے سے روکا جائے نیز اقتدار کے خلاف پائے جانے والے غم و غصے کو اپنے دامن میں سمیٹا جائے۔اگر بی جے پی یہ حکمتِ عملی کامیاب ہوجائےتو اس سے نہ صرف اروند کیجریوال تبدیلی کے حامی رائے دہندگان سے محروم ہو جائیں گے بلکہ ان کے سبب کانگریس کا نقصان ہوگا لیکن اگر دہلی کی ریاستی حکومت گر جاتی ہے تو وہ کانگریس کی جم کر مخالفت کرسکیں گے اور بی جے پی کےووٹ کاٹیں گے ۔ کانگریس کایہی مطمحِ نظر ہے کہ بی جے پی کا ووٹ تقسیم ہو اور اس کو اس کا فائدہ ملے ۔

اس صورتحال میں بی جے پی کو عام آدمی پارٹی پر یہ الزام لگانا پڑے گا کہ وہ ہنگامہ آرائی تو کرسکتی ہے لیکن حکومت نہیں کرسکتی ایسا کرنے کے نتیجے میں بی جے پی خود ہی کیجریوال کی مخالفت کرکے ان کو کانگریس کا مخالف بنادے گی اور اس کی توجہات بنٹ جائیں گی ۔ کانگریس عام آدمی پارٹی کو نظر انداز کرکے اپنی پوری طاقت بی جے پی کے خلاف جھونک دے گی بلکہ پسِ پردہ عام آدمی پارٹی کی حمایت بھی کرے گی اس لئے کوئی بعید نہیں کہ احتجاج کایہ تماشہ ان دونوں کے درمیان نورہ کشتی ہو ۔ انتخاب کے بعد بہر صورت ان دونوں کو ایک دوسرے کا حلیف بن جانا ہے ۔ ظاہر ہے ساری انتخابی اٹھا پٹخ کے نتیجے میں کل تین میں سے ایک منظر سامنے آئے گا ۔ اول تو یہ کہ کانگریس یا بی جے پی میں سے کسی ایک کو واضح اکثریت حاصل ہو جائے یہ ناممکن ہے۔ دوسرا کانگریس یا بی جے پی میں سے کوئی ایک تیسرے محاذ کی مدد سے حکومت سازی کرکے اس کی بھی توقع کم ہے۔ تیسراقوی امکان یہ ہے کہ غیرکانگریس و غیر بی جے پی محاذ حکومت بنائے ۔ اس صورتحال میں اگر عام آدمی پارٹی کے ۳۰ تا ۴۰ امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں جس کا امکان بہت کم ہے تو ممکن ہے اروند کیجریوال دیگر جماعتوں اور کانگریس کے تعاون سے وزیراعظم بن جائیں لیکن ان کی دیوے گوڑا یا اندر کمار گجرال جیسی لولی لنگڑی حکومت کتنے دن چلے گی اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے کیا کر سکے گی یہ کہنا بہت مشکل ہے؟ بقول شاعر ؎
نادیدہ مسیحاجولکھیں شب کی کہانی
ظلمت کولکھیں نور،نہاں آگ کوپانی
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449920 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.