بڑی امیدیں لگائی تھیں اہل وطن
نے۔ کہ میاں صاحب وزیر اعظم بن جائیں گے تو ہمارے سب مسائل حل ہوجائینگے۔
مثلاً: میاں صاحب وطن عزیز میں جاری امریکی جنگ کو خیر باد کہدیں گے۔ جس سے
نہ صرف ملک میں امن امان قائم ہوجائیگا بلکہ اس کے نتیجے میں ملکی و غیر
ملکی سرمایہ کار جو کہ بگڑتی ہوئی امن و مان کی صورتحال کی وجہ سے یہاں سے
جاچکے ہیں۔وہ دوبارہ واپس آجائینگے۔ جس سے ملک میں روزگار کے وسیع مواقع
پیدا ہوجائیں گے اور یوں ہم نہ صرف عالمی مالیاتی ادروں کے شکنجے سے نکل
جائیں گے۔ بلکہ خوشحال اور مطمئن زندگی کا خواب ’’جو کہ امریکی جنگ کی وجہ
ٹوٹ چکا ہےِِِِ،، شرمندہ تعبیر ہوجائیگا۔
اہل وطن نے میاں نواز شریف صاحب سے مندرجہ بالا امیدیں بلا وجہ یا کسی خوش
فہمی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نہیں لگائے تھے۔بلکہ اس کے پیچھے نواز لیگ
کا انتخابی منشور ، میاں صاحب کے وعدے اور انکے چہرے پر ہر وقت چھائی
سنجیدگی ہی ان امیدوں کی وجہ بنی۔مجھے یاد ہے’’ بلکہ ہر کسی کو یاد ہوگا
کیونکہ اقتدار میں آئے میاں صاحب کو تو ابھی چند ہی مہینے ہوئے ہیں،، کہ
میاں صاحب اقتدار کے زمام پکڑنے سے پہلے ملک میں بڑھتے ہوئے امریکی اثر
ورسوخ کے سب سے بڑے ناقد تھے اور وہ ہر جگہ، ہر محفل میں سابق حکومتوں کی
پالیسیوں کو نہ صرف کھل کر تنقید کا نشانہ بنا یا کرتے تھے۔ بلکہ وہ ان
پالیسیوں کا متبادل حل بھی پیش کیا کرتے تھے۔یہ میاں صاحب کے وعدے ہی
تھے۔جسکی وجہ سے عوام نے انہیں بھر پور مینڈیٹ سے نوازا۔جسکی بدولت میاں
صاحب کو وزارت عظمٰی جیسی اہم ذمہ داری مل گئی۔ لیکن آفسوس اور صد افسوس کہ
مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد اب میاں صاحب کچھ بدلے بدلے سے نظر آرہے
ہے۔اور اس کا اندازہ اپ اس بات سے لگائیں ۔کہ مکمل اختیار ملنے کے باوجود
اب تک صلیبی جنگ کے علمبر دار امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ویسا ہی تعلق
قائم رکھا ہوا ہے۔جیسے کہ اس سے پہلے پی پی پی حکومت اور اس سے پہلے ’’کمانڈو،،
کے زیر سایہ ق لیگ نے رکھا تھا ۔ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں ۔کہ
تحریک طالبان سے مذاکرات کرنے کے لیے بھر پور عوامی و سیاسی حمایت ملنے کے
باوجود ابھی تک میاں صاحب اور انکی ٹیم قطعاً سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں
کررہے۔بلکہ صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعے وقت کو ضائع کررہے ہیں۔جسکی وجہ سے
محب وطن حلقے سخت پریشانی و تشویش میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔کیونکہ وقت کے
ضیاع سے مذاکرات کے مخالف طاقتور پاکستانی الیکٹرونک میڈیا، امریکی ڈالروں
پر عیاشی کرنے والے این جی اوز، نام نہاد سول سوسائٹی اور ملک میں موجود
عالمی و علاقائی طاقتوں کے ایجنٹ مسلسل فریقین یعنی تحریک طالبان پاکستان
اور حکومت وقت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ ان
غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔یا پھر حکومتی نیت میں کھوٹ ہے کہ کافی عرصہ
گزرجانے کی باوجود اب تک حکومت مذاکرات کے لیے کسی ٹیم یا فرد کا نام سامنے
نہیں لاسکی۔حالانکہ ٹی ٹی پی والے بارہا کہ چکے ہیں ۔ کہ ہم مذاکرات کے لیے
تیار ہیں ۔لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ ایک تو نواز لیگ اپنی بالادستی کو
ثابت کرے اور دوسرا یہ کہ اس بار مذاکرات کے نام پر دھوکہ نہ ہو۔ بلکہ
مذاکرات بامقصد ہو۔مزید یہ کہ حکومت ایک تو جنگ بندی کا اعلان کرے اور
مذاکرات کے لیے ایک بااختیا ٹیم کو بھی سامنے لائے۔ تحریک طالبان پاکستان
کے اس موقف کے جواب میں حکومتی ارکان اکثر کہتے رہتے ہیں ۔کہ ہم نے ایک
مذاکراتی ٹیم تشکیل دیا ہے۔جو طالبان کے بعض گروپس کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔
لیکن نہ تو آج تک اس ٹیم کے ارکان کا پتہ چل سکا ہے کہ وہ کون ہے اور نا ہی
ان گروپس کا جن سے وہ رابطے میں ۔اس کے بر عکس وہ حلقے جو ٹی ٹی پی اور
حکومت دونوں سے اچھے اور خوش گوار روابط رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا یہی ہے کہ
ٹی ٹی پی با مقصد مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے۔ لیکن حکومت وقت فی الحال تذبذب
کا شکار اور غیر سنجیدہ ہے۔ان حلقوں میں جمیعت علماء اسلام ’’س ،، کے
سربراہ و دفاع پاکستان کونسل کے چئیرمین مولانا سمیع الحق، فضل الرحمٰن
خلیل اور خود حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمٰن شامل ہیں۔ ایک اور خاص بات
یہ کہ مذکورہ شخصیات پہلے کافی پر امید تھے۔ لیکن اب انہیں حکومتی رویئے سے
شدید مایوسی ہوئی ہے۔خصوصاً جے یو آئی [س] کے رہنماء اور مذاکرت کے لیے
فضاء ہموار کرنے والے مفتی عثمان یار خان کے قتل کے بعد مولانا سمیع الحق
صاحب کی امیدیں دم توڑتی نظر آرہی ہے اورشائد ان کو محسوس ہورہا ہے۔ کہ
مقتدر حلقے ایک اور فوجی اپریشن کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے
وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں اﷲ و رسولﷺ کا واسطہ دیکر فوجی اپریشن نہ
کرنے کی استدعا کی ہے۔مولانا صاحب نے اپنے خط میں حکومت کو اس امر سے بھی
اگاہ کیا ہے کہ اپریشن کرنے کی صورت میں حالات سنبھلنے سے بھی نہیں سنبھلیں
گے۔
لیکن کیا وزیر اعظم مولانا سمیع الحق کے خط اور انکے تشویش کو ملحوظ خاطر
رکھیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ باالکل بھی نہیں ۔کیونکہ لگ ایسا رہا ہے۔ کہ
وزیر اعظم پاکستان کچھ دیدہ و نادیدہ قوتوں کے نرغے میں آچکے ہیں۔ اسی لیے
وہ قوم کے اجتماعی ضمیر کے برعکس وقت ضائع کرکے حالات کو خود ہی اس نہج پر
لے جارہے ہیں۔ جہاں سے واپسی کا کوئی باعزت راستہ موجود نہیں۔ جہاں تک بات
ہے ایک اور فوجی اپریشن کا ۔ تو مقتدر قوتوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیں کہ
وزیرستان میں تو 2004سے اپرشن چل رہے ہیں ۔لیکن کیا مختلف حکومتیں ان
اپریشن کے ذریعے طالبان کی طاقت کو ختم یا کمزور کرسکے ہیں؟ تو اس کا جواب
سو فیصد نفی میں ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہیکہ ان اپریشنز کے نتیجے میں تحریک
طالبان پاکستان نہ صرف وجود میں آئی ۔ بلکہ وہ آج پورے ملک میں وجود بھی
رکھتی ہے اور طاقت بھی۔ لہٰذا فوجی اپرشن مسئلے کا حل نہیں۔ البتہ ایک اور
فوجی اپریشن کرکے ہم اغیار کو تو خوش کرسکتے ہیں ۔ لیکن اس کے نتیجے میں جو
ردعمل ملک بھر میں آئیگا۔ اس سے نہ ہم نمٹ سکتے ہیں اور نا ہی حکومت کے پاس
اتنی صلاحیت ہے۔ لہٰذا اس پیارے وطن اور اہل وطن کی خاطر حکومت فی الفور
شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی روک کر اس مینڈیٹ کا لاج رکھے ۔جو الیکشن
میں عوام اور آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی جماعتوں نے انہیں دیا ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ تحریک طالبان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنی کارروائیاں روک کر
دشمن کے عزائم کو ناکام بناتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ماحول کو
سازگار بنانے کی کوشش کریں ۔ کیونکہ یہاں پر با مقصد مذاکرات کے بعد اور
بھی کئی محاذ ہیں منتظر آپ کے۔ بہر حال اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری حکومت
وقت پر عائد ہوتی ہے۔کہ وہ جنگ بندی کا اعلان کرکے فی الفور مذاکرات شروع
کریں ۔ اس سلسلے میں امریکہ سمیت جو بھی مذاکراتی عمل کی راہ میں روڑے
اٹکانے کی کوشش کریں ۔ انہیں منہ توڑ جواب دیا جائے۔ ایک اور مگر اخری بات
یہ کہ اگر حکومت مذاکراتی عمل کو کامیاب اور پاکستان کو خوشحال دیکھنا
چاہتی ہے۔ تو اس کے لیے لازم ہیکہ فی الفور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد
امریکی جنگ کو خیر باد کہدیا جائے۔ کیونکہ اس جنگ سے نکلے بغیر امن کے لیے
اٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم ہمیں دیر پا امن کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ |