سٹِفن لی کاک نے کہا’’اگر مجھے
ایک یونیورسٹی تعمیر کرنے کے لیے کہا جائے تو میں سب سے پہلے تمباکو نوشی
کا کمرہ تعمیر کرواؤں گا ۔اُس کے بعد اگر کچھ رقم بچ گئی تو خواب گاہیں اور
اُن سے منسلک لائبریری اور دار المطالعہ (سٹڈی) تعمیر کیے جائیں گے اور اگر
اِس تمام کام کے بعد بھی کچھ رقم بچ گئی تو چند پروفیسر حضرات اور درسی
کُتب حاصل کرلی جائیں گی ‘‘۔ہمارے حکمران بھی سٹِفن لی کاک کی طرح سب سے
پہلے اپنی ذات کو دیکھتے ہیں ، پھر اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کو اور
اگر کچھ بچ رہے تو پھر ملک و قوم کی طرف نگاہ کرنے کی زحمت بھی کر لیتے ہیں
۔ ’’اوّل خویش ، بعد درویش‘‘ ہمارے ہر حکمران کو مرغوب ہے اسی لیے وہ دل و
جان سے اِس پر عمل کرتے ہیں اور چونکہ اِس غریب ملک میں ’’خویش‘‘کا پیٹ ہی
پوری طرح بھرنہیں پاتا اِس لیے بیچارہ ’’درویش‘‘ مُنہ تکتا اور ٹامک ٹوئیاں
مارتا رہ جاتا ہے۔ ویسے پاکستانی درویشوں کے پاس بھی کم از کم ایک شے تو
وافر مقدار میں ہے جسے حکمرانوں کی نذر کرتے ہوئے وہ کبھی خسّت کا مظاہرہ
نہیں کرتے ۔وہ شے ، وہ خزانہ ’’بَد دُعاؤں‘‘کا ہے جو ہمارے درویش جھولیاں
بھر بھر کر حکمرانوں پہ لٹاتے رہتے ہیں لیکن حکمرانوں پر اِن بَد دُعاؤں کا
’’کَکھ ‘‘اثر نہیں ہوتا ۔
ہمارے محترم عمران خاں صاحب ڈیڑھ دو سال سے میاں برادران کو سمجھا سمجھا کے
تھک گئے ہیں کہ ’’میاں جی جان دیو ، ساڈی واری آن دیو‘‘ لیکن کپتان صاحب کے
درد و غم سے بے خبرمیاں نواز شریف ہمیشہ مُسکرا کے ٹال دیتے ہیں ۔جب سے وہ
جلا وطنی کاٹ کے آئے ہیں ایسے ’’کائیاں‘‘ ہو گئے ہیں کہ ہمارے کپتان صاحب
کی ’’واری‘‘ دور سے دور تر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔تحریکِ انصاف والے کہتے ہیں
کہ میاں صاحب ’’روندی‘‘ مار رہے ہیں جو صریحاََ بے ایمانی اور ’’گیم‘‘ کے
اصولوں کے منافی ہے ۔اصول تو یہی ہے کہ جب ایک ٹیم اپنی باری لے لیتی ہے تو
دوسری کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہے ۔لیکن ہمارے میاں برادران تو کسی دوسرے کے
لیے میدان خالی ہی نہیں چھوڑتے ۔تحریکِ انصاف والے یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں
صاحبان نے تو گھر کی دو ٹیمیں بنا رکھی ہیں ، ایک پیپلز پارٹی اور دوسری
نواز لیگ جو اپنی اپنی باری بھگتاتی رہتی ہیں اور سوائے ’’ ڈنڈے والوں
‘‘کے، جنہیں بزبانِ زرداری ’’بِلّے‘‘ کہا جاتا ہے ، کسی کو اپنے اندر
گھُسنے ہی نہیں دیتیں ۔یہ بِلّے بھی خوب ہیں کہ جب جی چاہتا ہے دودھ پی کر
مونچھوں کو زبان سے چاٹتے نکل جاتے ہیں جس سے قوم کو تو خیر کچھ فرق نہیں
پڑتا کہ ’’دودھ ‘‘ اُس کے نصیب میں پہلے تھا نہ اب ہے لیکن ’’واریاں‘‘ لینے
والے بہت چیں بچیں ہوتے ہیں ۔کیونکہ’’ واری‘‘ اُن کی ہوتی ہے اورلے
’’بِلّا‘‘ جاتا ہے ۔ محترم آصف زرداری کہتے ہیں ’’ایک بِلّا پھنس گیا ہے ،
اب جانے نہ دینا‘‘۔زرداری صاحب کا حکم سَر آنکھوں پرسوال مگر یہ ہے کہ جب
یہی ’’بِلّا ‘‘ایوانِ صدر میں طبلے سارنگی پر ’’راگ ملہار‘‘ الاپتا رہتا
تھا، تب توزرداری صاحب نے اُسے کچھ نہیں کہا ۔شاید اُس کے ’’پنجوں‘‘ کا خوف
ہویا پھر NRO کا احسان ۔ اب زرداری صاحب نواز لیگ کو ’’وقفِ مصیبت‘‘کرنے کے
لیے وزیرِ اعظم صاحب کو ’’ہَلا شیری‘‘ دے رہے ہیں ۔مقصد یہ کہ پیپلز پارٹی
کی’’واری ‘‘ فَٹا فَٹ آ جائے لیکن اطلاعاََ عرض ہے کہ کاتبِ تقدیر نے بِلّے
کے ناخن اکھاڑ پھینکے ہیں اور ویسے بھی وہ آجکل ’’بیمار شمار‘‘ رہتا ہے
۔سُنا ہے کہ وہ عارضۂ قلب میں مبتلاء ہے لیکن لوگ نہیں مانتے ۔یہ دشمنانِ
ملک و ملّت کہتے ہیں کہ اگر اُسے دل کی تکلیف ہوتی تو وہ AFIC سے
انجیوگرافی کروا لیتا لیکن اُس نے انجیوگرافی سے صاف انکار کر دیا ہے
کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اندر سے ’’کَکھ‘‘ نہیں نکلنا۔کچھ لوگ یہ بھی
کہتے ہیں کہ انجیوگرافی تو دل کی ہوتی ہے اور ہمارے مشرف صاحب کے ہاں تو
دِل نامی کوئی شے موجود ہی نہیں پھر کِس کی انجیوگرافی اور کیسی انجیوگرافی
؟۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ معاملہ ’’کَچی لَسّی‘‘ کی طرح بڑھتا ہی چلا
جائے گا اِس لیے وہ نواز لیگ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’مٹی پاؤ‘‘ ۔برطانوی
مصنف ایربیل اوک کہتا ہے ’’وہاں ایک آمر کی لاش بڑی بے ہنگم اور کسمپرسی کی
حالت میں پڑی تھی۔اُس کے تمام واقف کار اُس کا مضحکہ اُڑانے کے ساتھ ساتھ
اُسے بُرے ناموں سے یاد کر رہے تھے ، لیکن میں رو رہا تھا کیونکہ میں اُسے
پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا ‘‘۔ ہمارا بِلّابھی آجکل’’ علیل شلیل
‘‘ہے جبکہ قوم اُس کی صحت یابی کی منتظر ۔لیکن یہ انتظار ’’مٹی پاؤ‘‘ کے
لیے نہیں بلکہ ۔۔۔۔
بات دوسری طرف نکل گئی ، میں عرض کر رہی تھی کہ ہمارے کپتان صاحب کی ’’واری
‘‘دورہوتی چلی جا رہی ہے جس کا ہم ’’سونامیوں‘‘ کو بہت دُکھ ہے اور ہمیں رہ
رہ کر نواز لیگ پر غصّہ بھی آ رہا ہے ۔ویسے توہم جب جی چاہے اپنی سونامی کے
زور پر اِس حکومت کو ’’چلتا‘‘ کر سکتے ہیں لیکن ہمیں ملک و قوم کی بہتری
مقصود ہے ۔اگر نواز لیگ واقعی مُحبّ ِ وطن جماعت ہے تووہ اِس کا ثبوت فراہم
کرتے ہوئے خود ہی ’’پاسے‘‘ ہو جائے اور ’’کُرسی‘‘ ہمارے کپتان صاحب کے لیے
چھوڑ دے ۔لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا کرے گی نہیں کیونکہ وہ محبِ وطن
نہیں’’امریکی غلام‘‘ ہے اسی لیے ہمارے خاں صاحب نے فرمایا ہے ’’ حکمرانوں
نے پاکستان کو امریکی غلامی میں پھنسا دیا ہے اور وہ امریکیوں کے سامنے
ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ‘‘۔ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کو صرف ہمارے
’’دبنگ‘‘ خاں صاحب ہی امریکی غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں اِس لیے عوام کو
چاہیے کہ اپنی اوّلین فُرصت میں لیگیوں کے نیچے سے کُرسی کھینچ کراپنے گھر
لے جانے کی بجائے خاں صاحب کے سپرد کر دیں ۔
محترم عمران خاں صاحب نے آج پھر فرمایا کہ میاں برادران چھ باریاں لے چکے
اور اب ساتویں باری کے لیے اپنی اگلی نسل کو تیار کر رہے ہیں ۔بات تو سچ ہے
مگر مخالفینِ تحریکِ انصاف کہتے ہیں کہ کپتان صاحب کوایک چھوٹے صوبے (خیبر
پختونخواہ) میں بطور ’’ٹیسٹ‘‘ جو باری دی گئی اُس میں تو تا حال وہ چاروں
شانے چِت ہیں۔اُنہوں نے تو 180 دنوں میں صوبے کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیا
تھا لیکن بدلتی تقدیر کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔شاید اسی لیے وہ سب کچھ تیاگ
کر اب طالبان سے مذاکرات کا ’’بگل‘‘ کچھ زیادہ ہی شدّت سے بجانے لگے ہیں
۔اُنہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر اُس سے مذاکرات نہیں ہوتے تو تحریکِ
انصاف کو موقع دے ۔میاں نوازشریف صاحب یہ موقع تو دینے کو تیار ہیں لیکن
مینڈیٹ کے بغیرخالی خولی موقع تو بیکار ہے اور مینڈیٹ تو تبھی مل سکتا ہے
جب خاں صاحب وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوں ۔ ظاہر ہے کہ نواز لیگ
یہ رِسک لے نہیں سکتی اِس لیے مذاکرات تو ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہی سمجھیں۔اب
اگر مذاکرات نہیں تو پھر حکومت کوطوہاََ و کَرہاََ طالبان کے خلاف ایکشن ہی
لینا پڑے گا ۔انتظار کیجئے ، اگلے دو چار روز میں اِس کا فیصلہ ہونے کو ہے
۔
شنید ہے کہ طالبان بھی اب ’’واری‘‘ لینے والوں کی قطار میں شامل ہو گئے ہیں
لیکن موسموں کی ادا یہ بتاتی ہے کہ عمران خاں صاحب کی ’’واری‘‘ آئے گی نہ
طالبان کی’’شریعتی باری‘‘۔ البتہ کسی ’’نئے نویلے‘‘ بِلّے کا کچھ پتہ نہیں
کہ وہ کب دودھ پینے آ دھمکے ۔رہی ہماری بات تو ہم تو بادشاہ گَر ہیں ، ہم
باریاں دیتے ہیں ، لیتے نہیں ۔شاید اِسی لیے بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ
’’طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ‘‘ ۔
|