معاشی استحکام اور خوشحالی کا خواب جو
موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے سے قبل انتخابی مہم کے دوران دکھایا تھا وہ
ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ موجودہ حکومت کو عنان اقتدار سنبھالے چھ
ماہ سے زائد ہو چکے ہیں مگر عامآدمی کے معاشی مسائل حل کرنے کے وعدے ابھی
تک ایفا ہونے کے منتظر ہیں۔ عامآدمی روز مرہ زندگی میں بنیادی سہولیات کے
فقدان کا اسی طرح سامنا کر رہا ہے جس طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے اس کی
زندگی میں کوئی بہتر تبدیلی نہیں آئی۔ توانائی کا بحران بدستور جاری ہے اور
مستقبل قریب میں بھی اس کے خاتمے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ سب سے
زیادہ بے چینی نوجوانوں میں ہے۔ جو ملک میں تبدیلی کا خواب دیکھ رہے تھے۔
یوتھ اس ملک کی سب سے بڑی قوت ہیں، شائد اسی لئے میاں نواز شریف نے سب سے
پہلے نوجوانوں کے لئے اسکیمیں شروع کی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے
نوجوانوں کی بہبود کے لیے چھ نئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔ ان منصوبوں کے
لیے ابتدائی طور پر 18 بلین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ان میں پہلی اسکیم
چھوٹے بلاسود قرضوں کی اسکیم ہے جو کمزور مالی طبقات کے افراد کے لیے مخصوص
ہو گی۔ اس اسکیم کے لیے موجودہ مالی سال میں ساڑھے تین ارب روپے رکھے گئے
ہیں۔ اس سے اڑھائی لاکھ افراد مستفید ہو سکیں گے۔ ان قرضوں پر کوئی سود
نہیں لیا جائے گا۔ دوسری اسکیم چھوٹے کاروباری قرضوں کی سکیم ہے۔ یہ سکیم
بے روزگار بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے مخصوص ہو گی جو اپنا کاروبار
شروع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ 50 فیصد قرضے خواتین کے لیے مختص ہوں گے۔ 5
لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک کے قرضے ہنر مند افراد کو ملیں گے جو اپنے ذاتی
کاروبار مثلاً ورکشاپ یا زراعت سے وابستہ کاروبار شروع کرنا چاہتے ہوں گے۔
اس قرضے پر مارک اپ کی رعایتی شرح صرف 8 فیصد ہوگی، باقی شرح خود حکومت ادا
کرے گی۔ ابتدائی طور پر یہ قرضے نیشنل بینک اور فرسٹ ویمن بینک کے ذریعے
جاری کیے جائیں گے۔ اس سکیم کے لیے پانچ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔تعلیم یافتہ
نوجوانوں کے لیے تربیتی سکیم وہ تیسرا پروگرام ہے جو حکومت شروع کر رہی ہے۔
اس پروگرام کے تحت منظور شدہ تعلیمی اداروں سے مجموعی طور پر 16سالہ تعلیم
کی ڈگری کے حامل نوجوانوں کو عملی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں گے تاکہ
انہیں اندرون یا بیرون ملک روز گار کی تلاش میں آسانی ہو۔ دوران ملازمت
تربیت کے عرصے میں نوجوانوں کو ایک سال تک دس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی
ملے گا۔ اس سکیم کے لیے چار ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور اس سے 50 ہزار
گریجویٹس استفادہ کر سکیں گے۔اس سکیم کا مقصد بے روزگار نوجوانوں کو ایسے
ہنر اور فنون کی تربیت دینا ہے جن کے ذریعے وہ باعزت طریقے سے روزی کما
سکیں۔ پچیس سال تک کی عمر کے ایسے تمام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس اسکیم سے
فائدہ اٹھا سکیں گے، جنہوں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔ ان
نوجوانوں کو چھ ماہ کے لیے فیس اور وظیفے کی مد میں پانچ ہزار روپے ماہانہ
دیے جائیں گے۔ تربیتی اداروں کی فیس حکومت خود ادا کرے گی۔ اس مد میں 80
کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔پانچویں اسکیم پسماندہ علاقوں کے طلبہ و طالبات کے
لیے حکومت کی طرف سے فیس کی ادائیگی سے متعلق ہے۔ ایم اے، ایم ایس سی یا اس
سے بالاتر سطح کی تعلیم حاصل کرنے والے ایسے نوجوانوں کی فیس حکومت خود ادا
کرے گی۔ اس سکیم کے لیے ایک ارب بیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جن سے 30 ہزار
طلبہ و طالبات کی اوسطاً 40 ہزار روپے سالانہ کی فیس ادا کی جائے گی۔
وفاقی حکومت نے ملک بھر کے لیے اس سکیم کے اجراکا فیصلہ کیا ہے جس سے اس
سال ایک لاکھ طلبہ وطالبات کو لیپ ٹاپ کمپیوٹر فراہم کیے جائیں گے۔ اس مقصد
کے لیے چار ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ نوازشریف نے نوجوانوں کو روزگار
فراہم کرنے کے لئے جس اسکیم کا اعلان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے سوا اس کے کہ
اس کی بنیاد بینکوں سے لئے جانے والے سودی قرضوں پر رکھی گئی ہے جس کا بوجھ
بالآخر غریب عوام پر ہی پڑے گا جو پہلے ہی سودی قرضوں، ٹیکسوں اور اوپر سے
مسلط کی جانے والی مہنگائی کے مارے ہوئے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ یہ سرمایہ
نوجوانوں کو حکومت خود نوٹ چھاپ کر بلاسود مہیا کرتی اور ماہرین کا ایک
پینل بلاسود قرض دینے سے پہلے درخواست گزاروں کا انٹرویو کر کے یہ فیصلہ
کرتا کہ واقعی درخواست گزار میں قرض سے روزی کمانے کی اہلیت ہے کہ نہیں
دوسرے یہ کہ یہ اسکیم وقتی نہیں ہمیشہ کے لئے ہوتی اور نوجوانوں کو مسلسل
سرمایہ فراہم کرتی رہتی۔اگر آپ بھی وزیراعظم کی قرض اسکیم کے لیے درخواست
دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پہلے اس کے اہم نکات اور شرائط جان لیں ، وہ
کیا ہیں۔ پرائم منسٹر یوتھ بزنس لون اسکیم شروع ہوچکی ہے۔ مقررہ بینکوں میں
درخواست فارم، ناقابل واپسی 100 روپے کے ساتھ جمع کروائے جاسکتے ہیں۔
درخواست فارم میں تحریر اہم نکات و شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بینک
مقررہ اوقات میں یا جب مناسب سمجھے ، درخواست گزار کے مقررہ اکاونٹ یا اس
کے کسی دوسرے اکاونٹ سے درخواست گزار کو نوٹس دیئے بغیر واجب الادا رقم
نکال سکتا ہے۔ ویسے تو وزیراعظم نے اعلان کیاہے کہ یہ قرض نوجوانوں کو 8
فیصد شرح سود پر دیا جائے گا ، لیکن درخواست فارم میں درج شرائط میں سے ایک
یہ بھی ہے کہ اگر حکومت پاکستان مارک اپ میں دی گئی رعایت کو قرض کی مدت کے
دوران کسی بھی وجہ سے واپس لیتی ہے تو قرض لینے والا نئی شرح کے مطابق قرض
کی ادائیگی کا پابند ہوگا۔ قرض کے لیے درخواست دینے والے کو دو ریفرنس کے
علاوہ ایک ضمانتی بھی مہیا کرنا ہوگا ، اور آپ کی ضمانت وہی شخص دے سکے گا
جو گریڈ پندرہ یا اس سے اوپر کا سرکاری ملازم ہو یا پھر آپ کے مانگے گئے
قرض کا ڈیڑھ گنا اس کے پاس ہونا چاہئے ، جس کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ درخواست
کے ساتھ فراہم کرنا ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے انتخابی منشور میں نوجوانوں
کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دینے کا اعلان کیا
تھا اور نوازشریف انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ اعلان کررہے تھے کہ وہ
اقتدار میں آنے کے بعد ان باصلاحیت اور ہنرمند نوجوانوں کو جو ڈگریاں
ہاتھوں میں لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، باعزت روزگار کے لیے معقول اور آسان
شرائط پر قرضے فراہم کریں گے تاکہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے باعزت
روزگار کما سکیں اور اس کام میں مزید چند لوگوں کو نوکری بھی فراہم
کرسکیں۔یہ ایک اچھی اور پْرکشش ترغیب تھی، جس کی یقینی طور پر نوجوانوں میں
ستائش ہوئی اور نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے نے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ بھی دیئے
اور اپنے مستقبل کی امیدیں بھی اس پارٹی سے وابستہ کرلیں، کیونکہ ذہین طلبا
طالبات میں حکومتِ پنجاب کی طرف سے لیپ ٹاپ کی تقسیم بہت سی تنقید اور
اعتراضات کے باوجود نوجوانوں میں مقبول ہوئی تھی۔
اس اسکیم کا انچارج وزیراعظم نوازشریف کی بیٹی مسز مریم نواز کو بنایا گیا
ہے جن کا نام ابتدا میں وزارت خارجہ کے لییآرہا تھا۔ مریم نواز ایک خوش
گفتار، خوش لباس اور مہذب خاتون ہیں۔ وہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے سیاست میں
سرگرم ہیں۔ حکومت اس اسکیم کی تعریف و توصیف میں پورے پورے صفحات کے
اشتہارات شائع کررہی ہے، جب کہ ٹیلی ویڑن چینلز پر بھی لمبی چوڑی مہم جاری
ہے۔ کاش کوئی وزیراعظم کو یہ مشورہ دے کہ جو زرِ کثیر اشتہاری مہم پر خرچ
کیا جارہا ہے اس رقم کو اس اسکیم کو مزید بہتر اورآسان بنانے پر صرف کیا
جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس کا نوجوانوں اور خود مسلم لیگ (ن) کو فائدہ
ہوگا، کیونکہ نعروں اور اشتہارات کے ذریعے کبھی کوئی مہم کامیاب نہیں ہوئی۔
ایوب خان دور کی ’’دس سالہ ترقی‘‘ کی ساری اشتہاری مہم ایوب خان کے اقتدار
کو بچا تو نہ سکی البتہ ان کے زوال اور چارج شیٹ کا حصہ ضرور بن گئی۔ پنجاب
میں چودھری پرویز الٰہی نے ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ کی اشتہاری مہم پر سرکاری
خزانے سے جو کثیر رقم خرچ کی وہ اگر اصل منصوبے پر لگا دی جاتی تو نتائج
بھی بہتر ہوتے اور لوگ بھی اس منصوبے کے خالقوں کو یاد رکھتے۔کچھ اخباری
دانشور یہ کہتے ہیں کہ یہ ساری اسکیم 6 سے 8 ماہ میں دھڑام سے زمین پرآ گرے
گی۔ اس اسکیم کی ناکامی اگر ہوئی تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ ملک کی
نئی نسل کو سودی نظام کے شکنجے میں کس دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ
اسکیم بنیادی طور پر بینکوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار ہوئی ہے۔ اس میں
وہ بینک جن کی حالت روز بروز پتلی ہورہی تھی اب 100 ارب کے قرضے جاری کریں
گے اور سروس چارجز کی مد میں کثیر رقم کے علاوہ اصل زر بمع سود وصول کرلیں
گے۔ اس اسکیم کے بارے میں بہت سے لوگوں کا یہ اعتراض ہے کہ مہنگائی کے اس
دور میں 5 سے 20 لاکھ روپے کا قرضہ ناکافی ہے۔ 5 لاکھ روپے کا قرضہ تو
یقینا ناکافی ہے کہ اس سے کوئی دکان بھی نہیں کھولی جا سکتی۔ البتہ 20 لاکھ
روپے کا قرضہ مناسب ہے۔ تاہم انجینئرنگ اور بعض دوسرے شعبوں میں کام کرنے
کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے 20 لاکھ روپے کا قرضہ ناکافی ہے اور اس پر
حکومت کو سوچنا چاہیے کہ اگر سیاستدان اربوں روپے کے قرضے حاصل کرتے ہیں تو
نوجوانوں کے لیے یہ رقم اس قدر کم کیوں رکھی گئی ہے۔بعض حلقے اس اسکیم پر
اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ہے کہ یہ رقم سود سمیت 8 سال میں واپس کرنا ہے۔ یہ
مدت بہت کم ہے۔ اس عرصے میں نوجوانوں کے کاروبار پوری طرح جم نہیں پائیں گے
کہ قرضہ واپس کرنے کا وقت آجائے گا۔ اعتراض کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ
سیاستدان اور صنعت کار بڑے بڑے بینکوں سے جو قرضے حاصل کرتے ہیں ان کی
واپسی کی مدت کم از کم 20 سال ہوتی ہے، حالانکہ یہ قرض لینے والوں کے
کاروبار جمے جمائے ہوتے ہیں۔ اس لیے بزنس لون اسکیم کے قرضوں کی واپسی کی
مدت بھی 20 سال کی جانی چاہیے۔
اس اسکیم پر سب سے بڑا اعتراض بہت زیادہ شرح سود ہے، اور یہی اس منصوبے کے
ناکام ہونے کی وجہ بنے گی۔ اگرچہ حکومت اس سود کو سروس چارجز کا نام دے رہی
ہے لیکن یہ ہر طرح سے سود ہے جس کی شرح ناقابل برداشت ہے۔ اسکیم کے تحت یہ
قرضہ 8 فیصد شرح سود پر دیا جارہا ہے۔ اس طرح 20 لاکھ روپے کا قرض حاصل
کرنے والا نوجوان پہلے ہی سال بعد 4 لاکھ 45 ہزار روپے بینک کو لوٹائے گا،
یعنی تقریباً 40 ہزار روپے ماہانہ… جس نوخیز نوجوان کو 40 ہزار روپے ماہانہ
صرف بینک کو دینا ہے اسے جگہ کا کرایہ، بجلی، پانی، گیس اور ٹیلی فون کے
بل، ملازموں کی تنخواہیں بھی نکالنا ہیں اور خود اپنے خاندان کی کفالت بھی
کرنا ہے، اس طرح وہ کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ منافع کمائے تو اس کا
کاروبار جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اور 20 لاکھ روپے کے سرمائے سے کوئی کاروبار
ڈیڑھ لاکھ روپے کا منافع نہیں دے سکتا، جب کہ اس قرضے کی نصف سے زیادہ رقم
تو انفرااسٹرکچر وغیرہ ہی پر لگ چکی ہوتی ہے۔ اس طرح بمشکل چار پانچ لاکھ
کے رننگ کیپٹل کے ساتھ کسی نوجوان کے لیے اپنا کاروبار جاری رکھنا ممکن
نہیں ہوگا۔ اس معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ صنعت کار اربوں روپے کے قرضے 3
سے 5 فیصد شرح سود پر حاصل کرتے ہیں جب کہ نوجوانوں کو یہ 8 فیصد سود پر
دیا جا رہا ہے۔ اس لیے شرح سود کو اگر کم نہ کیا گیا تو نہ صرف نوجوانوں کے
کاروبار نہیں چل سکیں گے بلکہ یہ ساری رقم ہی ڈوب جائے گی۔ یہ بھی خدشہ ہے
کہ قرضوں کی واپسی کے مشکل اور بے لچک نظام کی وجہ سے بہت سے نوجوان مشکلات
کا شکار ہوں گے، وہ نفسیاتی اور قانونی دباؤ کی وجہ سے اپنے کاروبار بھی
متاثر کرلیں گے اور معاشرے میں بھی نئے انتشار کا سبب بنیں گے۔پاکستان میں
9 کروڑ سے زائد نوجوان ہیں۔ جن کی ضرورت ہر سیاسی جماعت کو پڑتی ہے۔
نوجوانوں کو اہمیت دینے کے کام کا آغاز پہلے تحریک انصاف اور عمران خان نے
کیا اور سوشل میڈیا کا تصور اجاگر کیا، پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے یوتھ
کو اپنی طرف مائل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اب مسلم لیگ(ن) یوتھ کو اپنی طرف
متوجہ کرنے میں مصروف ہے۔ اس اسکیم میں بے روزگار نوجوانوں کی دلچسپی ہے ۔
سمیڈا اور بنکوں کی مختلف برانچوں سے لاتعداد بے روزگار، نوجوان بچے بچیاں
قرضہ فارم حاصل کرچکی ہیں۔لیکن اب مسئلہ قرضہ فارم کا نہیں مسئلہ قرضہ حاصل
کرنے کی شرائط پوری کرنے اور پھر اس قرضہ سے کوئی کاروبار کرنا ہے، خاص کر
ایسے حالات میں جب ملک میں پہلے ہی بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے ایسے
ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اپنا اپنا چھوٹا موٹا کاروبار بند کرنے کے قریب
آچکے ہیں۔ میاں نواز شریف کے سابقہ دور میں یلیو کیب اسکیم آئی جس میں قومی
بینکوں کے32,30ارب روپے کھائے گئے۔ اس اسکیم کے تحت نکلنے والی گاڑیاں
افغانستان تک گئیں اور ان قرضوں کو کھانے والے آج بھی انجوائے کررہے ہیں
جبکہ ان کے ضمانت کنندگان پریشان اور بے حال ہیں۔
اس اسکیم کے حوالے سے یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر 7-6سال میں اس کی ریکوری
100فیصد نہ ہوئی تو اس سے حکومت کے لئے انتظامی، مالی اور سیاسی طور پر کئی
مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بہت سے نوجوان قرض حاصل کرتے ہوئے ضرور یہ سوچیں
گے بعد میں اِسے آسانی سے معاف کروا لیا جائے گا۔ لیکن ان قرضون کی معافی
اتنی آسان نہ ہوگی۔ایک کالم نگار نے اسکیم میں سودی قرضوں پر سوال اٹھایا
تھا۔ جس پر مریم نواز صاحبہ نے ان کالم نگار کو کہا کہ ،، میرا ایمان ہے کہ
میں نے اﷲ تعالیٰ کو اپنے ہر عمل پر جواب دینا ہے تو ایسے میں میں اﷲ اور
اﷲ کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ
وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گی جس سے ان کے والد (وزیر اعظم نواز شریف) یا
ان کی اپنی آخرت خراب ہوجائے۔ پھر مریم صاحبہ نے کہا کہ وہ پہلے ہی اس
مسئلہ کے اوپر کام کررہی ہیں کیوں کہ وہ سود کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں
جب کہ انہیں معلوم ہے کہ یہ اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺکے خلاف جنگ ہے۔ انہوں نے
انکشاف کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے وزیر خزانہ اور ان کے ساتھ ہونے والی
ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ان قرضوں میں سود نہیں لیا جائے گا
بلکہ اس ساری اسکیم کو اسلامی بنکنگ کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ ان
کا کہنا تھا کہ اس کا اعلان بہت جلد کر دیا جائے گا۔ مریم صاحبہ کا یہ بھی
کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ اچھے کام کو بے برکت کر دیا جائے۔ اْن کا یہ
بھی کہنا تھا کہ انشااﷲ یہ تو پاکستان میں سودی نظام کے خاتمہ کی شروعات
ہےِِ،،۔ نواز شریف کی خواہشات اپنی جگہ لیکن عملا صورتحال یہ ہے کہ سود کے
خاتمے کے مقدمے میں نواز شریف حکومت کے کہنے پر ہی اسٹے آڈر ملا تھا، اور
یہ مقدمہ اب بھی عدالت میں ہے۔ وزیراعظم نے اس اسکیم کو آسان بنانے کی
ہدایت بھی کی ہیں اور کہا ہے کہ جو نوجوان قرض کا مستحق ہے، اس کی درخواست
کورد نہیں کیا جائے، جومستحق نہیں ہے، اس کی درخواست منظورنہیں کی جائے۔
قرضوں کا اجراشفاف اورمنصفانہ ہوناچاہیے۔ کسی کی سفارش اوردباو قبول نہ
کیاجائے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 35 لاکھ درخواست فارمزجاری کیے
گئے،20ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ درخواست دہندگان میں 89فیصد نوجوان
مرداور 11فیصد خواتین ہیں۔ 60فیصد درخواستیں زرعی شعبے سے متعلق ہیں۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ درخواست فارمزکی وصولیابی کاعمل تیزکیا جائے -
وزیر اعظم کی خواہشات اپنی جگہ لیکن ملک میں بد امنی اور تشدد کے واقعات نے
پوری قوم کو نہیں نوجوانوں کو بھی متاثر کیا ہے، پاکستان میں نوجوانوں کی
اکثریت ملک سے باہر جا رہی ہے، ذہین اور مہارت رکھنے والوں کی ملک میں تیزی
سے کمی ہوری ہے۔ والدین بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ملک سے باہر چلے
جائیں تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ جس ملک کے نوجوان ، باہر جا رہے ہوں ، پہلے تو
انھیں روکنے اور ان کے لئے اچھی سہولتیں روزگار ، تعلیم ، امن وامان کی
فراہم ہونی چاہیئے، اگر ہم یہ نہ کرسکے تو ملک میں ٹیلینٹ کیسے رک سکے گا۔
اور قرض کی اسکیمیوں کا کیا فائدہ ہوگا۔
|