اروند کیجریوال:عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

شری اروند کیجریوال جی فی الحال بجا طور پرہندی مسلمانوں کے سب سے زیادہ منظورِ نظر رہنما ہیں اور اس کی وجہ صاف ہے۔ ہندوستان کے مسلمان بیک وقت کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سگ گزیدہ ہیں اور کیجریوال نے ان دونوں کے خلاف جہاد چھیڑ رکھا ہے اس لئے مسلمانوں کا ان کو دل جان سے چاہنا فطری امر ہے ۔ اتفاق سے ان عاشقانِ ’’ آپ‘‘(عام آدمی پارٹی کا مخفف) میں میرے قریبی رفقاء بھی شامل ہیں اس لئے کیجریوال کی بابت کسی حقیقت بیانی سے خوف محسوس ہوتا ہے مبادہ کسی کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ویسے مورخہ۲۰ اور ۲۱ جنوری کو خود اروند جی نے اپنے طرزِ عمل سے جس ظرف کا مظاہرہ کیا اس کے بعد کوئی خاص تبصرے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ان کے سیماب صفت موقف کااتار چڑھاؤ اوران کے بیانات کازیروبم بہت کچھ طشت ازبام کرگیا۔ بقول یاس یگانہ چنگیزی ؎
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے

دہلی کے اندربرپا ہونے والی حالیہ ہنگامہ آرائی پر سب سے اچھا تبصرہ رام ولاس پاسوان نے کیا ۔ انہوں نے کہا پانچ پولس افسران کی معطلی کیلئے وزیراعلیٰ کا دھرنے پر بیٹھ جاناایسا ہی ہے جیسے مچھرکو مارنے کیلئے توپ کا استعمال کرنا۔ سچ تو یہ کہ توپ داغنےکے باوجود پانچ میں سے چار مچھر تو صاف بچ نکلےان کا بال بیکا نہ ہوابقیہ ایک کا جنازہ تو درکنارپر وں پر معمولی خراش تک نہیں آئی۔ چھٹی پر جانے والے پولس افسر کے بارے میں محکمۂ پولس کا یہ بیان کہ انہوں نے پہلے ہی سے چھٹی کی درخواست دے رکھی تھی پطرس بخاری کی پیروڈی یاد دلاتا ہے ؎
جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
جمشید کا پیارا ہے اسے توپ سے کھینچو

ہندوستان میں مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ تین خود مختار ادارے ہیں گوکہ سیاستدانوں کی بقیہ دونوں میں مداخلت ہوتی رہتی ہے لیکن اس کا اعتراف کوئی نہیں کرتا بلکہ اس سے انکار ہی کیا جاتا ہے۔ اروند جی ہندوستانی نظام کی اس منافقت سے ابھی واقف نہیں ہوئے ہیں ان کا خیال ہے چونکہ پولس کا محکمہ مرکز کے تحت ہے اس لئے ان کے وزیر کی نہیں سنتا اور اس کے کہنے پر کسی کو گرفتار نہیں کرتا حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک عام پولس جوان دستور کی رو سے مرکزی وزیر داخلہ کے احکامات کو ماننے کا بھی مجاز نہیں ہے ۔وہ تودستور ہند کے تحت اپنے افسر کا ماتحت ہوتا ہےاور اصولی طور پر یہی ہونا چاہئے کہ اگر اس کا افسر بھی وارنٹ کے بغیر کسی کو گرفتار کرنے کا حکم دے تو اسے انکار کردینا چاہئے۔ یہ بات عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ اس کے پاس سرکار چلانے کے علاوہ بہت سارے اہم کام ہیں جن سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ اس جھنجھٹ میں پڑے لیکن اگر یہی فرق عام آدمی کی سرکار کو بھی پتہ نہ ہو یا وہ جان بوجھ کر اسے نظر انداز کردے تو وہی طوفانِ بدتمیزی برپاہوتا ہے جس کا مظاہرہ دہلی میں ہوا۔ اروند جی نے اپنے رویہ سے یہ ثابت کردیا کہ جب تک ان کی سمجھ میں یہ بنیادی اصول نہیں آجاتا اس وقت تک پولس فورس کو ان کے حوالے کرنامناسب نہیں ہے۔

نریندر مودی پر گجرات فساد کے علاوہ سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس کے زیر سرپرستی اے ٹی ایس کے افسران نے قانون اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا وہ جسے چاہتے تھے مار گراتے تھے اور دہشت گرد قرار دے دیتے تھے ۔ ونجارہ جیسے افسران اپنی ان حرکات کی سز کے طور پر جیل میں چکی پیس رہے ہیں (بلکہ شاعری کررہے ہیں ویسے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے) ۔ اب اگر دہلی کے وزراء کےاشارے پر پولس من مانے طریقے سے جس کو چاہے گرفتار کرنے لگے تو وہی ہوگا کہ پولس والے کے ساتھ وہ وزیر بھی جیل کی چکی پیسے گا۔ نیز اگر پولس فورس کو باقائدہ سیاستدانوں کے تابع کردیاجائے تو عوام کے عدم تحفظ میں غیر معمولی اضافہ ہو جائیگا اس لئے کہ ملک بھر میں عام آدمی پارٹی کے شریف اور سلیقہ مند وزراء تو ہیں نہیں ۔ جب مرکز اور تمام ریاستوں میں سارے وزیر اس پارٹی کے ہو جائیں گے تب اس تجویز پر غور کیا جاسکتا ہے۔

دہلی میں پولس فورس کامرکزی حکومت کے تحت ہونا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔کانگریسی وزرائے اعلیٰ تک اس کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ اس کا ایک یہ حل بھی زیرِ بحث آچکاہے کہ نئی دہلی کے اس علاقےکو جہاں مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں الگ کر کے ایک مخصوص پولس کے حوالے کردیا جائے اور بقیہ علاقوں کی دہلی پولس ریاستی حکومت کے تحت ہو لیکن اگرایسا ہوجائے تو مرکز و ریاستی حکومت کے درمیان تصادم کی صورت میں مرکزی حکومت اپنے دفاتر کی حد تک محصور ہو کر رہ جائیگی ۔ حالیہ تصادم سے ایک نذیر بھی قائم ہو گئی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ سچ تو یہ ہے احتجاج کے ذریعہ شری کیجریوال نے نہ صرف خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے بلکہ آئندہ کیلئے بھی اس کا دروازہ بند کردیا ہے اس لئے کہ اب جو کوئی بھی اس طرح کا مطالبہ کرنے کی جرأتکرے گا اسے ’’ آپ ‘‘ کے احتجاج کی مثال دے کر خاموش کردیا جائیگا۔

دوسرا مسئلہ طریقۂ کار کا ہے ۔ دہلی کی پولس کوریاستی حکومت کے تحت لانے کیلئےدستور میں ترمیم لازمی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دستور میں ترمیم کیا اس طرح سے ممکن ہے کہ کچھ لوگ غیر معینہ احتجاج پر بیٹھ جائیں اور یہ اصرار کریں کہ جب تک ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا وہ نہیں جائیں گے ۔ لوک پال بل کے معاملے شری کیجریوال کو یہ تجربہ ہو چکا ہے لاکھ شور و ہنگامہ کے باوجود احتجاج کے دوران یا اس کے فوراً بعد لوک پال بل نہیں بنا اور بعد میں بھی جو بل پاس کیا گیا اس سے بھی انا ّ ہزارے تو مطمئن ہیں لیکن کیجریوال کو اطمینان نہیں ہے۔ انا ہزارے کے منع کرنے کے باوجود اروند کیجریوال کے سیاسی جماعت بنانے کی دلیل یہی تھی کہ اس نظام میں صرف احتجاج کے ذریعہ سے نہیں بلکہ انتخاب کے ذریعہ سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔ اس لئے وزیراعلیٰ کا یہ اصرار کہ جب تک پولس فورس ریاستی حکومت کے تحت نہیں آجاتی وہ دھرنے پر بیٹھے رہیں گے اور لاکھوں مظاہرین سے راج پتھ کو بھر دیں گے بصورتِ دیگر یوم جمہوریہ کی تقریب کو روک دیں گے ایک بچکانہ مطالبہ تھا ۔دراصل پیر کی صبح جب اروند کیجریوال احتجاج کی غرض سے اپنے ۶ وزراء کے ساتھ وزارت داخلہ کی جانب نکلے توسیاست کے میدان میں گھاگ کانگریس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اب یہ صیاد ازخود ہمارے دام میں آرہا ہے جیسا کہ مومن خاں مومن نے فرمایا ؎
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

اروند کیجریوال کی دہلی سرکارکا پاؤں ویسے ہی کانگریس کے زلف دراز میں الجھا ہوا ہے ۔ ممکن ہے اسے چھڑانے کیلئے وزیراعلیٰ نےمرکزی وزیر داخلہ سے ملاقات کرکے تین پولس والوں کو معطل کروانے کا ارادہ کیا ہویا اس کے ذریعہ سے غالباً وہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ دہلی میں جرائم کی دگرگوں صورتحال کیلئے ان کی ریاستی حکومت نہیں بلکہ مرکزی حکومت ذمہ دار ہے لیکن سشیل کمار شندے نے انہیں راستے میں اسی دہلی کی پولس کے ذریعہ روک دیا جس پر وہ گرج برس رہے تھے۔ اس سے ان کی انا کو یقینا ً ٹھیس پہنچی ہوگی اس لئے کہ اب وہ عام آدمی نہیں بلکہ دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ اس کا اظہار شری کیجریوال کے اس ردعمل سے بھی ہوتا ہے کہ ’’شندے یہ طے کرنے والے کون ہوتے ہیں کہ ہم احتجاج کیلئے کہاں بیٹھیں ؟ میں دہلی کا وزیر اعلیٰ ہوں ۔ اس طرح کے احمقانہ بیان کی توقع ایک سابق آئی ای ایس افسر سے کرنا مشکل ہے۔

کانگریس نے وزیراعلیٰ کو جس چکرویوہ میں پھنسا لیا تھا اس سے نکلنے کے ان کے سامنے دوہی راستے تھے ایک تو چپ چاپ واپس چلے جائیں لیکن اس سے آبرو جاتی تھی اس لئے کہ وہ ذرائع ابلاغ میں اعلان کرکے آرہے تھے اور ان کیلئے جواب دینا مشکل ہو جاتا ۔ دوسرا راستہ اپنے پرانے اوتار میں لوٹ کر جانے کا تھا سو وہ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد سب کچھ کانگریس پارٹی توقعات کے مطابق ہونے لگا۔ انہوں نے اپنا پہلا بیان بدلا اور اپنے حامیوں کو جنہیں آنے سے پہلے منع کیا تھا احتجاج میں شامل ہونے کیلئے بلانے لگے اور یہ بے بنیاد اعلان کردیا کہ وہ دس دنوں تک دھرنادینے کی تیاری سے آئے ہیں ۔ جب دیکھا کہ حکومت دباؤ میں نہیں آرہی ہے تو اپنے بیان کو مزید وسعت دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر حکومت کا یہی رویہ رہا تو احتجاج غیر معینہ مدت تک چلے گا۔

یوم جمہوریہ کی تقریبات میں خلل کو لے کر جب وزارتِ داخلہ کی بے چینی کے بارے دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا اگر چہ ملک کے عوام غیر محفوظ ہوں تو وزیر داخلہ چین سے کیوں کر سو سکتا ہے ؟ اس الزام کے جواب میں کہ وہ شہر میں انارکی پھیلا رہے ہیں انہوں نے اعتراف کرلیا کہ وہ انارکی پسند ہیں۔ اس طرح وہ ایک خطرناک جال میں پھنستے چلے گئے۔اس احتجاج کو جاری رکھنے کیلئے محض خاطی پولس والوں (بزعمِ خود )کی برطرفی کا جواز کافی نہیں تھا اس لئے مطالبے میں توسیع کرکے پولس فورس کو ریاستی حکومت کے تحت کردینے پر زور دیا گیا اور پولس کی بدعنوانی شور مچایا جانے لگا۔ اس کوشش میں شری کیجریوال اس قدر آگے نکل گئے کہ انہوں نے حال میں وزارتِ داخلہ میں ہوم سکریٹری کی حیثیت سےسبکدوش ہو کر بی جے پی میں داخل ہونے والے آر پی سنگھ کے الزامات کا حوالہ دینا شروع کردیا جس میں کہا گیا تھا رشوت اوپر وزیرداخلہ تک پہنچتی ہے۔ اسی کے ساتھ خواتین رائے دہندگان کو رجھانے کی خاطر شہر دہلی کے اندر خواتین کے عدم تحفظ پر گفتگو شروع ہوگئی۔ اس بیچ اپنی حمایت میں یوگنڈا سفارتخانے کا ایک خط کو پیش کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی سعی کی گئی ۔متعلقہ سفیر کی تردید کے بعد صفائی دی گئی کہ وہ سفارتخانے کے کسی ملازم کی جانب سے لکھاگیا خط ہے۔

وزیراعلیٰ کےایک رات سڑک پر گزارنے کے بعد بھی جب مرکزی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی اور وزیر اعلیٰ کے اس اعلان کے باوجود کہ لوگ ایک دن کی چھٹی لے کر منگل کو مظاہرے میں شامل ہوں نیز انہیں جہاں کہیں بھی روکا جائے وہیں مطاہرے پر بیٹھ جائیں جب عوام کا خاطر خواہ تعاون نہیں ملا اور بہت زیادہ لوگوں نے اس پر لبیک نہیں کہا تو آپ کے رہنماؤں کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔ جو مظاہرین ریل بھون کے قریب آئے تھے وہ بے قابو ہو کر پولس سے لڑنے بھڑنے لگے یہاں تک کہ آپ کے رہنما سنجے سنگھ کو خود اپنے ہی کارکن کو تھپڑ رسید کرنا پڑا تب جاکر کیجریوال کی عقل ٹھکانے آئی اور وہ مفاہمت پر آمادہ ہوئے۔ گورنر جنرل نے اس کا فائدہ اٹھا یوھیندر یادو کو کھانے کی دعوت دی اور ان سے صاف کہہ دیا کہ مرکزی حکومت ان مطالبات کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی۔

کانگریس پارٹی تو یہ چاہتی تھی کہ یہ تماشہ جاری رہے اسی لئے عدالتِ عالیہ میں اس کے خلاف داخل ہونے والی عرضداشت پر فوری سماعت کے بجائے تین بعد یعنی ۲۴ تاریخ کا وقت طے کیا گیا۔ مرکزی حکومت کو پتہ تھا عدالتی فیصلہ کیا ہوگا اور اس کے بعد یہ احتجاج اپنے آپ ختم ہوجائیگا لیکن وہ اس وقت تک اروند کیجریوال کی خوب جم کر مٹی پلید کرنا چاہتی تھی اسی لئے وزیر داخلہ نے بے لچک اڑیل رخ اختیار کررکھا تھا لیکن دیر آید درست آید کی مثل اروند جی نے عقلِ سلیم سے کام لیا اور اپنا احتجاج لیفٹنٹ گورنر کے خط کا بہانہ بنا کر ختم کردیا ۔ یہ احتجاج جس انداز میں ختم ہوا ہے اس سے میرا اپنا اندیشہ کہ یہ کانگریس اور ’’ آپ‘‘ کی ملی بھگت ہے غلط ثابت ہو گیا لیکن اس کے باوجود یہ پیغام تو ملک کی عوام تک پہنچ ہی گیا کہ راہل کا اصل حریف مودی نہیں بلکہ کیجریوال ہے۔ اس پیغام کا جانا بہر حال کانگریس اور آپ دونوں کیلئے فائدہ بخش ہے اسی کے ساتھ بی جے پی کے اس الزام کی بھی دھجیاں اڑ گئیں کہ یہ کانگریس اور آپ کی نورہ کشتی ہے اور اروند کیجریوال کانگریس کا مہرہ ہے۔ کانگریس کیلئے اپنی حمایت کا ہاتھ کھینچ کر دہلی کی حکومت کو گرانے کا نادر موقع ہاتھ آیا تھا لیکن کانگریس نے اپنی حمایت کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ اروند کیجریوال سے اسے مزید حماقتوں کی توقعات وابستہ ہیں۔ شری اروند کیجریوال ان امیدوں پر کس قدر پورے اترتے ہیں یہ تو وقت ہی بتلائےگا۔

شری کیجریوال نے اس احتجاج کودہلی کی عوام کی کامیابی قرار دیا اور ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ دراصل عام آدمی میں اورعام آدمی کے رہنما میں یہی فرق ہے کہ اول الذکر تو ہررات سڑک پر بڑے آرام سے گزار لیتا ہے لیکن ان کا لیڈر ایک رات میں ہسپتال پہنچ جاتا ہے۔ آپ کے قدرے سلجھے ہوئے رہنما یوگیندر یادو نے تسلیم کیا انہیں جزوی کامیابی حاصل ہوئی اور مکمل کامیابی تو گاندھی جی کو بھی نہیں ملی تھی۔ کامیابی کے جز کا پتہ لگانے کیلئے اگر بنیادی مطالبات کو دیکھیں توپانچ پولس افسران کی معطلی کے بجائے ایک چھٹی پر گیا دوسرے کے نائب کی چھٹی کردی گئی اور باقی چار کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ جس پولس کواروند جی اپنا تابعدار بنانا چاہتے تھے اس نے ان کے ۳۳ گھنٹے چلنے والےاحتجاج میں شامل ہونے والے مظاہرین کے خلاف بے نامی شکایت درج کروادی اوراب مختلف حلقوں سےوزیر قانون سومناتھ بھارتی کو معظل کرنے کی خاطر دباؤ بنایا جارہا ہے۔ ممبئی کی زبان میں گویاکھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ والی بات۔جاتے جاتے اروند جی کا یہ کہنا کہ اگر پھر دہلی میں کسی خاتون پر ظلم ہوا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے ساغر نظامی کے اس شعرکی یاد دلاتا ہے کہ ؎
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالۂدل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449971 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.