راہل گاندھی کا جارحانہ تیور : بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

لوک سبھا کے عام انتخابات ہر پانچ سال کے بعد آتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتارہے گا جب تک ہندوستان میں جمہوریت (نام نہاد ہی سی) قائم ہے۔ لیکن 2014کے عام انتخابات کئی معنوں میں اہم ہوں گے۔ اس انتخاب میں نہ صرف خیر و شر کا مقابلہ ہے بلکہ حالت اور سمت بھی بدلنے والی ہے۔ یہ انتخابات تنازعات کے اعتبار سے بدترین انتخابات ہوسکتے ہیں۔ فرقہ پرست پارٹیاں اشتعال پھیلاکر ووٹوں کی صف بندی کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ ایک دوسرے کو بدنام کے لئے سات پشتوں کا بخیہ ادھیڑا جائے گا۔ اس کے لئے تمام ذرائع کا استعمال کیا جائے گا۔کیوں کہ ایک فرقہ پرست پارٹی کو فتح یاب کرنے کیلئے کارپوریٹ گھرانے سمیت دنیا کی فسطائی طاقتوں نے اپنالائحہ عمل تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں مسلسل کوریج کیلئے خزانے کا منہ کھول دیا گیاہے۔ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے تما م طریقے اپنائے جارہے ہیں اور اس میں شدت آنے کا اندیشہ ہے۔ ایک سروے میں جسے ایک مشہور انگریزی اخبار نے کروایا تھا ، عام آدمی پارٹی (آپ) کو نمبر ایک پردکھایا گیا لیکن اسی کے ساتھ عوام کی پہلی پسند نریندر مودی کو پیش کیا گیا۔ فرقہ پرست طاقتوں کی سمجھ میں یہ بات گھر کرگئی ہے کہ بغیر اشتعال اور تشدد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے بغیر اور جمہوریت تانابانا تباہ کرکے ہی وہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ سکتی ہیں۔ اس کے لئے پہلے مظفر نگر اور پھر راجستھان کے ضلع پرتاپ گڑھ میں تشدد کاسہارالیا۔یہ تشدد اس دن پیش آیا جس مسلمان عیدملاد النبی منارہے تھے۔ میڈیا اہلکاروں کی خریدوفروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ فسطائی طاقتوں کے معمولی سے معمولی ایونٹ اورتقریب کو پیش کرنے کیلئے میڈیا پہلے سے ہی غلام ہے۔ سیکولر ہندوؤں کو مسلم نواز ی کا خوف دکھاکر اسے مودی کو ووٹ دینے کیلئے راغب کیا جارہاہے۔ عوام کو اس طرح کا سنہری خواب دکھایا جارہا ہے کہ جیسے کہ مودی آتے ہیں ہر آدمی عیش و عشرت کی زندگی گزارنے لگے گا۔ ان کے سارے مسائل یک لخت دور ہوجائیں گے۔ جیسا کہ وہ انسان نہیں کوئی بہت بڑا جادوگر ہے جو پل جھپکتے ہی تمام ہندوستانیوں کے مسائل کو حل کردے گا۔جو شخص گجرات میں غذائی قلت دور نہ کرسکا ہو وہ ہندوستان کیغریبی دور کیسے کرسکتا ہے۔ جہاں ترک تعلیم کا سلسلہ کئی ریاستوں سے زیادہ ہو وہ پورے ملک کو خواندہ کیسے بنا سکتا ہے۔جہاں انصاف کادم گھٹتا ہو وہ شخص ملک کے ساتھ انصاف کیسے کرسکتا ہے۔ یہاں کے عوام کو اپنے اندر کی کمیوں کادراک نہیں ہے۔ مفت کی ہر چیز لینے میں وہ آگے رہتے ہوں خواہ وہ اس کے مستحق ہوں یا نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بہتر سیاست دانوں کا ہمیشہ فقدان رہا۔ سیاست داں بھی اسی طبقہ سے آتے ہیں۔ سچ بولناہندوستان میں ہمیشہ ٹیڑھی کھیر رہا ہے۔وعدے پر جانثاری ہندوستانی عوام کی عادت رہی ہے۔ وعدے پر یکطرفہ ہوکر ووٹ ڈالتے ہیں اور اس کے بعد اگلے پانچ سال اس پارٹی کو کوستے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا حال اور بھی بہت خراب ہے اور وہ جس پارٹی کو ووٹ دیکر منتخب کرتے ہیں اس سے فا ئدہ اٹھانے کے بجائے اگلے پورے سال تک اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ووٹ کے بدلے کام کرانے کی قوت ان میں نہیں ہے۔یہ شکایت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی پارٹی بنانی چاہئے لیکن جب مسلمانوں میں ہر آدمی لیڈر ہو، وہاں پارٹی کی تشکیل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ویلفےئر پارٹی کو قائم ہوئے کئی سال ہوگئے لیکن اس پارٹی کا ایک بھی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا جو کسی طرح متاثر کن ہو۔ اترپردیش کی پیس پارٹی مسلمانوں کو اپنے قریب لانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی حیثیت ووٹ کاٹ کرفسطائی طاقتوں کو فائدہ پہنچانے تک محدودرہی ہے۔ اس لئے 2014میں بھی مسلمانوں کو دم چھلہ بن کر کسی نہ کسی پارٹی کا ووٹ بینک بن کر رہنا ہوگا۔ایک نظریے سے دیکھا جائے تو آئندہ لوک سبھا کے انتخابات میں مسلمان اگر سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف اپنی تعداد بڑھاسکتے ہیں بلکہ ایسے افراد کو منتخب کرکے بھیج سکتے ہیں جو پارٹی کے نہیں مسلمانوں کے احسان مند ہوسکتے ہیں۔ پارٹی کے نام نہاد اصولوں پر ایمان لانے کے بجائے ان کی انسیت مسلمان اور ان کے مسائل کے حل میں ہوسکتی۔ 2014کا الیکشن راہل بنام مودی نہ ہوکر بھی راہل بنام مودی ہی رہے گا۔ عام آدمی پارٹی دونوں پارٹیوں کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کرے گی۔ امکان یہ بھی ہے کہ حکومت کی تشکیل میں ان کا کردار اہم ہوگالیکن سرددست راہل گاندھی کے جارحانہ تیور کی بات کرتے ہیں جس کااظہار انہوں نے مجلس عاملہ کی میٹنگ میں 17 جنوری کو کیا ہے۔راہل گاندھی پہلی بار اس طرح کے تیور میں نظر آئے۔ اس تیور نے تمام تجزیہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے وہیں بی جے پی میں خوف پیدا کردیا ہے۔ بی جے پی کو امید تھی کہ کانگریس راہل گاندھی کو پارٹی کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارے گی اور پھر مقابلہ بی جے پی بنام کانگریس مقابلہ نہ رہ کر مودی بنام راہل ہوجائے گا ۔اس کے سہارے بی جے پی کے تمام لیڈروں کو زبان درازی، بدتہذیبی اور بدخلقی کرنے کا بھرپور موقع ملے گا۔ لیکن کانگریس نے پارٹی اصولوں کی دہائی دیتے ہوئے امیدوار اعلان کرنے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی انتخابی مہم کی کمان راہل گاندھی کو سونپ دی اور اس طرح ان کے برے ارادے پر پانی پھیردیا۔ اس کے بعد انہوں نے جو تیور دکھائے اس سے تمام لوگ حیران رہ گئے ۔ راہل گاندھی کو بہت دنوں کے بعد یہ بات سمجھ میںآئی کہ یہاں کے عوام شو ر شرابے کو یادہ پسند کرتے ہیں، ٹونٹنگ، مسخرے پن کے دیوانے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین اور دیگر طبقوں کے ساتھ راست بات چیت نے گاندھی وقت کے ساتھ بدلتے نظریے کاعکاس ہے۔یہ بھی بی جے پی کو پریشان کرنے والا ہے۔

آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی میٹنگ میں راہل گاندھی نے انگریزی اور ہندی میں اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کی کئی کامیابیاں گنائیں۔ راہل نے کہا ، آر ٹی آئی کا قانون ہم نے دیا ہے ، کسی نے ہم پر دباؤ نہیں ڈالا کانگریس پارٹی نے خود یہ پہل کی ،ہم نے سوچا کہ ملک کو حکومت کے بارے میں جاننا چاہئے ۔ میڈیا کو دائرہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’’آج میڈیا قانون بنا رہا ہے ، عدلیہ قانون بنا رہی ہے لیکن جنہیں قانون بنانے کے لئے عوام نے اختیار دیا ہے وہ اس عمل کا حصہ نہیں ہیں ۔ ہم نے آپ کو لوک پال بل دیا ، اپوزیشن نے سال بہ سال پارلیمنٹ میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں ‘‘۔غذائی تحفظ قانون ، تحویل آراضی قانون، منریگا اور دیگر عوام سے راست مربوط قوانین ہم نے بنائے ہیں جن سے عوام فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کیش ٹرانسفر اسکیم کانگریس نے شروع کی ہے جس سے عوام راست مستفید ہوں گے اور بچولیوں سے بچ جائیں گے۔ راہل گاندھی نے کانگریسی ممبران پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں زیر التوا چھ بل کو اگلے تین ماہ میں پاس کروائیں چاہے اس کے لئے انہیں لڑنا بھی پڑے ۔اپوزیشن پر حملہ کرتے ہوئے راہل نے کہا کہ ہندوستان اور کانگریس ایک سمت میں جا رہے ہیں ، اپوزیشن کسی اور سمت میں جا رہی ہے۔ بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ کانگریس سے پاک ملک چاہئے ، کانگریس کو ملک سے نکالو ،لیکن اپوزیشن ہندوستان کی تاریخ کو نہیں جانتے ، ہسٹری نہیں پڑھتے ‘‘۔ کانگریس صرف ایک تنظیم نہیں ہے ، ایک سوچ ہے۔ یہ سوچ ہمارے دل میں ہے ۔ یہ سوچ بھائی چارے کی سوچ ہے ، محبت کی سوچ ہے ، عزت کی سوچ ۔ یہ سوچ مجھ میں ہے ، آپ میں ہے ، ہندوستان میں ہے ۔ جو ہندوستان کی 3000 سال پرانی سوچ ہے۔ گزشتہ 3000 سال میں تو یہ سوچ مٹی نہیں اور اگر کسی نے اس سوچ کو مٹانے کی کوشش کی ہے تو وہ خود مٹ گیا ہے۔ کانگریس کے لوگ سچ بولتے ہیں لیکن اپوزیشن کے نہیں ۔ اپوزیشن جو چاہیں وہ بولتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مخالفین کی مارکیٹنگ بہت اچھی ہے ، \" یہ گنجوں کو کنگھی فروخت کرنے والے لوگ ہیں ۔’’عام آدمی پارٹی پرچوٹ کرتے ہوئے کہا ، ’’اب نئے لوگ آئے ہیں۔ پہلے والے نے گنجوں کو کنگھی فروخت کی۔ یہ گنجوں کے بال کاٹ رہے ہیں۔ راہل نے پارٹی کارکنوں سے انتخابی جنگ میں ایک سپاہی کی طرح سر اٹھا کر جانے کو کہا ۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اس سے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ راہل گاندھی کو وزیر اعظم کے عہدہ کا امیدوار نہ بنائے جانے کا کانگریس ورکنگ کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہے۔راہل نے اس پلیٹ فارم سے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سبسڈی والے سلنڈروں کی تعداد نو سے بڑھا کر 12 کی جائے۔ مہنگائی کم کرنے کے سلسلے میں ان کی کانگریس کے وزرائے اعلی سے بات ہوئی ہے اور وہ اس سمت میں کام بھی کر رہے ہیں ، جس کا اثر ہریانہ میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے ۔ہریانہ میں سبزیوں کے دام کم بھی ہو گئے ہیں ،خواتین کی شرکت پر زور دیتے ہوئے کانگریس نائب صدر نے کہا ، ’’یوپی میں میں ایک ادارے چلاتا ہوں وہاں خواتین نے مجھے سکھایا کہ جب تک ملک میں خواتین کی عزت نہیں ہوگی ، انہیں طاقت نہیں دی جائے گی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ۔جتنی ریاستوں میں کانگریسی حکومتیں ہیں ان میں سے آدھے کی وزیر اعلی خواتین کوہونی چاہئیں ‘‘۔ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب وہ فارم میںآچکے ہیں۔

دوسری طرف بی جے پی نے راہل گاندھی کو وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نہ بنائے جانے کے باوجود ان کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔اپنی نیشنل کونسل کی میٹنگ میں اپنی سیاسی قرارداد منظور کرتے ہوئے بی جے پی نے کانگریس سے پاک ہندوستان کی اپیل کرتے ہوئے عوام سے مضبوط یا کمزور قیادت میں ایک کو منتخب کرنے کی گزارش کی ۔ سیاسی تجویز میں مسٹر نریندر مودی کی قیادت میں اگلے انتخابات میں پارٹی کی جیت کو یقینی بتایا گیا ہے ۔ تمام جگہ نریندر مودی کی ریلیوں میں آنے والی بھاری بھیڑ کو دیکھ کر ملک بھر میں بی جے پی کو ملنے والی وسیع حمایت اور ملک کے عوام کے رخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔کانگریس کو پتہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر بی جے پی اور نریندر مودی سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ انتخابات جب بھی ہوں گے اس کی شکست یقینی ہے اس لئے اس نے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار طے نہ کرکے فرار کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت ہونے کی وجہ سے ملک کے دکھ اور مسائل کے لئے کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی بھی برابر ذمہ دار ہیں کیونکہ ان کے کنٹرول میں بھی حکومت کام کر رہی تھی ۔ یہ حقیقت کو قبول کرنا ہے کہ لیڈر شپ کوالٹی ، حکومت کے ریکارڈ ، ایمانداری اور سب سے بڑھ کر مقبولیت کے معاملے میں راہل گاندھی کا نریندر مودی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔یہ بی جے پی کی خوش فہمی ہے کہ وہ بڑھ بولے پن اور میڈیا کے سہارے الیکشن جیت سکتی ہے ۔ اگر بی جے پی کو 200 سے زیادہ سیٹیں مل گئیں ، تو نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ، لیکن اتنی سیٹیں ملنا آسان نہیں ہو گا ۔ اس وقت کانگریس دھرم سنکٹ میں ضرور ہے لیکن مقابلے سے باہر نہیں۔ راہل گاندھی کے پاس کوئی جادو نہیں ہے۔کانگریس کی سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ اب اس کے پاس تلافی کے لئے وقت بہت کم ہے ۔ کانگریس کو یہ فکر کرنی ہوگی کہ آئندہ انتخابات میں اس کی سب سے بڑی طاقت کیا ہو سکتی ہے ۔پارٹی راہل گاندھی کے نام کو لے کر بہت آگے بڑھ چکی ہے ۔ نریندر مودی کی جارحیت اور اسٹائل کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی تیز طرار لیڈر ابھی کانگریس کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں راہل گاندھی کو ہی مودی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہونا ہوگا ۔

ملک میں نئی حکومت کی تشکیل میں تقریباً چار ماہ رہ گئے ہیں۔ ان چاروں مہینوں میں حکومت کے پاس بہ مشکل کام کرنے کیلئے دو سے تین ماہ کا وقت ہے۔ انتخاب کی تیاریوں کے سلسلے میں انتخابی کمیشن کے دورے جاری ہیں اور وہ انتخاب سے متعلق تمام تیاریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے جو تیور اس وقت دکھایا ہے اگر انہوں نے جارحانہ ایک سال قبل اختیار کیا ہوتا حالات کانگریس کے موافق ہوتے۔ مہنگائی اور بدعنوانی سے عوام کراہتی رہی لیکن کانگریسی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ایک کے بعد دیگر ایسے فیصلہ کرتی گئی جو بنیوں اور تاجروں اور کارپوریٹ گھرانوں کے پیٹ بھرنے میں معاون ثابت ہوا اور عوام بد سے بدترین صورت حال کی گرفت میں آتے گئے۔ یو پی اے حکومت اب تک کارپوریٹ سیکڑ کو پچاس لاکھ کروڑ سے زائد کی سبسڈی دے چکی ہے لیکن ان کارپوریٹ گھرانوں نے عوام کی بھلائی کیلئے کچھ نہیں کیا بلکہ ان کا خون چوسنے میں زیادہ دلچسپی دکھائی۔ منریگا اور کسانوں کے قرضے معافی اسکیم کا اتناشور مچایا جاتا ہے لیکن کارپوریٹ سیکٹروں میں لاکھوں کروڑ روپے کی سبسڈی پر کبھی بات نہیں کی جاتی۔ کانگریسی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کو بازار کے حوالے کرکے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا۔اس نے ہر وہ کام کئے جس سے صنعت کاروں کو فائدہ پہنچے لیکن اب وہی صنعت کار مودی کو وزیر اعظم دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں۔ کانگریس نے عوام کی تکلیفوں کا احساس نہیں کیا اب عوام حکومت کو سبق سکھائیں گے۔ عام آدمی پارٹی اپنے آپ کو ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش کیا ہے جس سے دونوں پارٹیاں خاص طور پر بی جے پی کو دن میں تارے نظر آرہے ہیں۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کو کام نہ کرنے دینے کے لئے طرح طرح روڑے بھی اٹکانے شروع کردئے ہیں کیوں کہ بی جے پی کی راہ میں عام آدمی پارٹی آفت ناگہانی کی شکل میں نازل ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے کرتوت بھی راہل گاندھی کی راہ میں حائل ہوگا جس نے سیکڑوں مسلم نوجوانوں اور ان کے خاندان کو زندہ درگور کردیا ہے۔اس کے علاوہ اس انتخاب افضل گرو کی ناحق پھانسی کا موضوع بھی کانگریس کی راہ میں روڑے اٹکائے گا۔ انسداد فرقہ تشدد بل پر مرکزی حکومت کے مایوس کن رویے بھی دن میں تارے دکھانے کے لئے کافی ہے۔ نریندر مودی کو مرکزی جانچ ایجنسیوں کی طرف سے ثبوت کو نظر اندا ز کرکے کلین چٹ دیاجانا بھی راہل گاندھی کو پریشان کرے گا۔یہ حقیقت ہے کہ زمینی سطح پر گزشتہ دس برسوں میں کانگریسی حکومت نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیاہے۔ سچر کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ صرف کاغذ پر ہے۔جوکہیں کام بھی کیا گیا ہے تو وہ سب مسلمانوں کا علاقہ نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کے بارے میں کانگریسی لیڈروں کے بے وقوفانہ عمل بھی عوام کو کانگریس سے دور رکر رہا ہے۔کانگریسی رہنماؤں کے عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی عقل گھاس چرنے گئی ہے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.