قبریں ہی جانتی ہیں اس شہر جبر میں
مرکر ہوئے ہیں دفن یا زندہ گڑے ہیں لوگ
اگر آپ ایک لمحے کے لیے نائن الیون سے اسامہ کی شہادت تک پورے ڈرامے کے
اسکرپٹ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو ان کی یہ بات سو فیصد سچی معلوم ہوگی،آپ
کو پتا چل جائے گا کہ امریکا ان تیرہ سالوں سے پاکستان کے خلاف ایک گریٹ
گیم کھیل رہا ہے،امریکا سمیت پورا یورپ اس جنگ کی آڑ میں پاکستان کو تباہ
کرنے کے درپے ہے۔ہر روزاس کو کمزور کرنے کے لیے ایک نیاپلان،ایک نئی تیکنیک
اور ایک نیا حربہ آزمایا جارہا ہے۔آپ کو یاد ہوگا !11ستمبر2001ءکو ورلڈ
ٹریڈ سینٹر اور امریکی وزارت دفاع پینٹا گون کی عمارتوں سے 3مغوی جہاز
آٹکرائے تھے،جس کے نتیجے میں تقریبا 5000ہزار افراد ہلاک جبکہ اس حادثے
میںامریکا کو اربوں ڈالروں کا نقصان ہواتھا،اس بدترین دہشت گردی کے فوری
بعد غرور کے نشے میں مست امریکا نے بغیر کسی شہادت، ثبوت یا دلیل کے اس
کارروائی کا الزام ”القاعدہ“پرتھوپ دیااوراسامہ بن لادن کو اس پلان کا
ماسٹر مائنڈ قراردے دیا،ان دنوں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی،انہوں
نے وہاں اسلامی نظام نافذ کررکھا تھا،بن لادن بھی انہی دنوں وہیں مقیم
تھے،امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا،لیکن طالبان
نہیں مانے،طالبان حکمران ملا عمر نے یکسر انکار کردیاکہ اگر افغانستان کی
اینٹ سے اینٹ بھی بجادی جائے، تب بھی وہ اسامہ کو امریکا کے حوالے نہیں
کریں گے۔پوری عالمی برادری نے افغانستان پر اسامہ کو امریکا کے حوالے
کردینے کے لیے بھرپور دباوڈالا،لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے،بالآخر
11ستمبر2001ءکے 28 دنوںبعد8اکتوبر 2001 ءکو امریکا نے افغانستان پر آتش و
آہن کی برسات کردی،یوں 13نومبر2001ءکو افغانستان کا انتہائی اہم شہرکابل
طالبان کے ہاتھ سے نکل گیا،اس کے بعد رفتہ رفتہ افغانستان طالبان کے کنٹرول
سے کرزئی کے تسلط میں آگیا،دوسری طرف پوری دنیا نے افغانستان کے ساتھ معاشی
واقتصادی سمیت ہرقسم کابائیکاٹ شروع کردیا،سفارتی تعلقات تک منقطع کر لیے
گئے،ادھر پاکستان میں امریکی نائب وزیر خارجہ نے پاکستان کو ایک چٹ
تھمادی،ساتھ یہ پیغام بھی تھاکہ ہمارا ساتھ دو ،ورنہ پتھر کے دور میں
پہنچادیے جاوگے!اس شاہی فرمانِ عالی شا ن کا ملنا تھا کہ اس وقت کے
پاکستانی آمر پرویز مشرف اپنے تمام حواریوں کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی پر
یوٹرن لیتے ہوئے آنکھوں پہ کھوپے چڑھائے شہنشاہِ عالم پناہ کی چوکھٹ پر
سربسجود ہوگئے،یہاں سے ایک نئی تاریخ،ایک نیا ڈرامہ اور ایک نئی کہانی شروع
ہوئی۔اس کی ابتدا ءنائن الیون سے ہوئی تھی اوراسے 2مئی2011ءکو اسامہ بن
لادن کی شہادت کے موقع پر ختم ہوجانا چاہئے تھا،لیکن نہیں ! یہ کھیل ابھی
بھی جاری ہے ۔کیونکہ اس کھیل کا اصل مقصد افغانستان ،عراق اور وزیرستان
نہیں بلکہ ’دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی مملکت پاکستان ہے اور اس گیم کا
فائنل راونڈ پاکستان میں کھیلا جائے گا۔ستم ظریفی دیکھیے کہ اس دوران وجود
میں آنے والی دونوں حکومتیں دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی
ہونے پر فخر کرتی رہیں،اورپرائی جنگ کو اپنی جنگ کہتے نہیں تھکتے
،ابتداءمیں مسئلہ صرف امریکیوں اور طالبان کا تھا،لیکن نہ جانے ہم اس جنگ
میں کیوںکود پڑے کہ یہ جنگ ایک دہائی سے ہمارے دامن کو خاکستر کرتی جارہی
ہے،نیٹو افواج کے بھاری بوٹوںتلے پوری قوم روندی جارہی ہے،بم دھماکوں نے
پورے ملک کا سکون غارت کررکھا ہے،سوات سے کراچی تک یہاں کی زمینیں موت کی
فصل اگارہی ہیں،شاہراہوں پر انسانی لوتھڑے ،بے گوروکفن لاشے اور خون کے سرخ
دھبے بکھرے پڑے ہیں،کوئی ادارہ اس جنگ کی نحوست سے بچا نہیں رہا،ہزاروں بے
گناہ سویلین سمیت خود پاک فوج کے سینکڑون جوان اپنی جانوں سے ہاتھ
دھوبیٹھے۔آپ ذرا بتائیے!ایسے اقعات،حادثات اور سانحات امریکا کے کسی اتحادی
ملک میں پیش آئے ہیں؟اگر نہیں تو پھر پاکستان کے ساتھ ہی کیوں ایسا ہورہا
ہے؟تو کیا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ یہ جنگ ہم کسی اسامہ بن
لادن ،بیت اللہ محسود یا ملا عمر کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ہی خلاف لڑرہے
ہیں؟!ہم اپنی جنت اپنے ہی ہاتھوں اجاڑرہے ہیں،یہ جنگ ہمیں اس ڈگر پر لے
جارہی ہے جہاں زندگی کے آثارمعدوم ہے،یہ جنگ ہمیں تباہی کے ایک ایسے دہانے
پر لاکھڑاکررہی ہے جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں اور جس سے آگے بھی
تاریکی کا راج ہے۔پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس جنگ کا اصل ہدف پاکستان کیوں
ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست،عالم اسلام کا قلعہ اور
مسلمانوں کی امیدوں کا واحد مرکز ہے،یہ ملک ا سلام کی نشاة جدیدہ کی بنیاد
بن کر ابھرا ہے،عالمِ اسلام کے مسلمانوںکی تمام تر امیدیںاس ملک کے تابناک
مستقبل کے ساتھ وابستہ ہیں،یہ سرزمین معدنی ذخائر،قدرتی بری و بحری وسائل
اور افرادی قوت سے مالامال بلکہ لبالب ہے،یہاں کے باصلاحیت،دردمنداور حساس
نوجوان عالمِ اسلام کی قیادت کا ملکہ رکھتے ہیں،یہ اسلامی دنیا میں واحد
ایٹمی طاقت ہے جو بہ یک وقت امریکا ،اسرائیل اور بھارت سے ٹکر لینے کی
صلاحیت رکھتا ہے،یہ سارے اچھی جانتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹم بم ان کے لیے
کسی طور نیک شگون ثابت نہیں ہوگا ،اسی لیے یہ سب آج پاکستان کے خلاف صف آرا
ہیں،امریکا ،اسرائیل اور بھارت سمیت دنیابھر کی تمام فرعونی طاقتیں اس ملک
کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں،مانا کہ ہمارا ایٹم بم محفوظ
ہاتھوں میں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ جب ہمارے دارالحکومت کے قریب امریکی
فوج دھاوا بول دیں، اس وقت ہمارا ریڈارسسٹم بھی جام ہو،ہمیں پتا ہی نہ چلے
کہ اسامہ بن لادن جیسا انتہائی مطلوب شخص ہمارے قلب میں موجود ہے اور جس کی
اطلاع ہمیں نہیں امریکیوں کو ہوتی ہے تو کیا بعید ہے کہ کل کو وہ ہمارے
کہوٹہ ، ایٹمی پلانٹ یا ایٹم بم تک نہیں پہنچ سکتے ،اس وقت آپ کیاتوجیہہ
پیش کریں گے جب وہ ہم سے یہ کہہ کر کہ ہمارا ایٹم بم مانگ لیں گے کہ
پاکستان دنیا کا سب سے کرپٹ، غیر محفوظ اور ناکام ریاست ہے،تب پھر آپ یہی
کہیں گے نا کہ یہ پاکستان کے تحفظ ،سا لمیت اور استحکام کے لیے ضروری تھا
کہ ایٹم بم انہی کی حفاظت میں دے دیاجائے،یہ کافر لوگ چاہتے ہی یہی ہیں کہ
یہاں انتشار، خلفشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو اور ہمارے ایٹم بم کو
طالبان سے خطرہ لاحق ہونے کا بہانہ بنا کر یہ اس بم کو یہاں سے یواین اوکے
ذریعے اٹھواکر لے جائیں،تاکہ نہ رہے بانس،نہ بجے بانسری …..!!!یہ ہے دہشت
گردی کی جنگ کااصل منشور …..!!جس کے پس پردہ پوری دنیائے کفر پاکستان کے
خلاف ڈٹی ہوئی ہے،اسی لیے آج ان کا اصل ہدف اور نگاہ خونیں کا مرکز پاکستان
ہے۔آپ ذرا ان تیرہ سالوں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس جنگ
کا واحد مقصدصرف اور صرف انسانیت کا قتل تھاجس ایک تسلسل کیساتھ جاری ہے
ملک میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی نئی لہر پوری شدت کے ساتھ ابھری
ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ 2014ءدہشت گردی کے حوالے سے ہمارے لئے خطرناک
ترین سال ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سال افغانستان سے امریکی اور نیٹو
افواج کے انخلاءکے بعد طالبان کابل کا اقتدار حاصل کرنے کیلئے بھرپور
جدوجہد کرینگے اور اگر ا ±ن کا وہاں قبضہ ہو گیا تو پھر اس سے پاکستانی
طالبان کو بھی زبردست تقویت ملے گی اور انکی کارروائیوں میں زیادہ شدت آئے
گی جس سے ہماری ملکی سلامتی شدید خطرات کا شکار ہو سکتی ہے۔اب تک دہشت گردی
کے تقریباً سات ہزار واقعات میں 50 ہزار سے زائد پاکستانی جن میں جنرل سے
جوان اور عام ریڑھی والے سے لیکر پولیس کے اعلیٰ افسران اور بچے بوڑھے
لقمہءاجل بن چکے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگر طالبان کا ایجنڈا اسلامی شریعت
کا نفاذ ہے تو پھر یہ خونِ ناحق اور قتل گری کا کیا اخلاقی اور دینی جواز
باقی رہ جاتا ہے۔ اگر حکومت کرنیوالی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں اور ساری
مذہبی سیاسی پارٹیاں طالبان سے مذاکرات پر زور دے رہی ہیں تو طالبان کو بھی
امن اور آشتی کی روش اختیار کرتے ہوئے مذاکرات پر رضامند ہو جانا چاہئے
کیونکہ دنیا کی تاریخ گوا ہ ہے کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی
ڈھونڈا جاتا ہے۔جہاں تک ملک کے اندر اس مسئلے پر اتفاق رائے کی بات ہے کچھ
پارٹیاں طالبان سے مذاکرات کی حامی ہیں کچھ کہتی ہیں کیونکہ طالبان حکومتی
رٹ اور آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے ان سے کسی صورت مذاکرات کا ڈول
نہیں ڈالنا چاہئے جنگ کرنی چاہئے۔ حکومت کیلئے یہ انتہائی مشکل وقت ہے
کیونکہ نواز شریف تیسری مرتبہ اقتدار میں اقتصادی بحالی کا ایجنڈا لیکر
برسراقتدار آئے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت بے روزگاری اور توانائی بحران کا
سامنا ہے۔ نواز شریف کے ایجنڈے کو اسی حالت میں عملی جامہ پہنایا جا سکتا
ہے جب ملک میں امن و امان ہو اور اگر خدانخواستہ طالبان سے جنگ چھڑ جائے تو
معاشی ترقی کا خواب دھرے کا دھرا رہ جائیگا۔ دوسری جانب جس طرح طالبان کے
حملے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں یقینی طور پر حکومت پاکستان کاﺅنٹر حکمت
عملی بھی مرتب کر رہی ہے جیسے کہ سری لنکا نے تامل ٹائیگرز اور برطانیہ نے
آئرش ریپبلکن آرمی کیخلاف طویل مدتی منصوبہ بندی کی تھی، اور جنگ لڑی تھی
ایسی گوریلا جنگ اب دیوار پر واضع پڑھی جا سکتی ہے۔یہاں ہمیں چوہدری نثار
کی بات پر بھی کان دھرنا ہو گا کہ یہ گوریلا جنگ ہوگی سامنے کوئی فوج نہیں
ہو گی بلکہ ہمیں اپنے ہی لوگوں کیخلاف اپنی ہی سرزمین پر سایوں کا پیچھا
کرنا پڑیگا۔اگر طالبان کیخلاف پاکستانی حکومت نے فیصلہ کن جنگ کیلئے ارادہ
کر لیا جس کے آثار بہت نمایاں ہوتے جا رہے ہیں تو اسکے نتیجے میں پاکستان
میں ہمارے شہروں اور تنصیبات کا بہت نقصان ہونے کا احتمال ہے کیونکہ امریکہ
نے جب تورابورا پر وحشیانہ بمباری کی تھی تو طالبان نے وہاں سے ہمارے
قبائلی علاقوں میں پناہ لے لی تھی اور جب قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہوئے
تو طالبان نے ہمارے شہری علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنالیں ہیں، اور اب
وہ عام شہریوں میں اس طرح گھل مِل گئے ہیں کہ ان میں اور عام شہریوں میں
تفریق کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ جنگ کی صورت میں وہ اسے
ہمارے شہروں میں لے آئینگے جس سے وقتی طور پر بڑی تباہی اور معاشرے میں
انتشار پھیلے گا۔پاکستانی سیاستدانوں کو اس قومی سلامتی کے معاملے کو سیاسی
دکان چمکانے اور پوائنٹ سکورنگ کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے بلکہ طویل مدتی
سٹرٹیجک حکمت عملی مرتب کرنے میں حکومت کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں، اور اس
سلسلے میں ملک میں موجود 26 انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مربوط نیٹ ورک بنانے
اور انکی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ریپڈ رسپونس فورس کا قیام وقت کی
اہم ترین ضرورت ہے۔حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ کبھی افغانستان ہم
پر یہ الزام لگایا کرتا تھا کہ ہمارے علاقوں سے اس کیخلاف دہشت گردی کی
کارروائیاں ہو رہی ہیں جبکہ آج طالبان کے سربراہ کرزئی کے زیر سایہ پاکستان
میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔وہ لوگ جو گذشتہ پانچ سال حکومت میں
رہے اور صرف اپنے قلعہ نما محلات میں پناہ گزیں ہو کر بے عملی کی تصویر بنے
رہے اب وہ نواز شریف کو ہلہ شیری دے رہے ہیں کہ فوراً طالبان پر ہلہ بول
دیا جائے۔ مگر نوازشریف کی حکومت اس معاملے میںبڑا پھونک پھونک کر قدم رکھ
رہی ہے اور انکی یہ حکمت عملی صائب ہے کہ مذاکرات کا آپشن کسی صورت بھی
ہاتھ سے جانے نہ دیاجائے اور آخری حد تک جایا جائے۔ وزیراعظم نے درست کہا
ہے کہ قوم کو غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات کیلئے تیار رہنا چاہئے
کیونکہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ اب اس جنگ میں کس نے کیا کھویا ؟ پاکستان
کے علاوہ کسی بھی ملک کو کوئی قابلِ ذکر نقصان ہوا ہی نہیں، جبکہ پاکستان
کو اس جنگ کی وجہ سے جونقصان اٹھانا پڑا ، وہ ناقابلِ تصور ہے اس لیے اب
فیصلہ کرنا ہو گا ۔ |