اے میرے عزیز ہموطنو

آج میں آپ سب سے کہنا چاہ رہا ہوں کہ گھر سے باہر قدم رکھنے سے قبل آیتہ الکرسی ، چاروں کل شریف اور دیگر کلام الہی اپنے اوپر دم کرلیا کریں اور اپنے خالق و مالک کے حضور یہ دعا مانگ لیا کریں کہ ’’ اے میرے خالق ہم سب کو زندہ سلامت اور باحفاظت گھر واپس پہنچانا اور اس وطن عزیز کو اور اس میں بسنے والے تمام ہموطنو کواپنی پناہ میں رکھنا، سب کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمانا‘‘ کیونکہ کچھ معلوم نہیں کہ یہ ایام آکی زندگی کے آخری ایام ثابت ہوں-

کیونکہ گذشتہ ہفتے کے چار دنوں میں 70 کے قریب افراد کو موٹ کی وادی میں روانہ کر دیا گیا ہے۔اور درجنوں افراد زخمی ہوکر ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔میں ان زخمی ہوکر زندہ بچ جانے والوں کو شہید ہونے والوں یا مرنے والوں سے بدتر سمجھتا ہوں کیونکہ مرنے والے یا شہید ہونے والے تو ایک روز میں مرگے اور انکا قصہ تمام ہوا ۔لیکن یہ زخمی ہونے والے تو جب تک زندہ رہیں گے روز جئیں گے اور روز ہی مریں گے……مجھے بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے شہید ہونے والوں کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا ہے ناں…… اور زخمی ہونے والوں کے علاج معالجہ کے لیے بھی مالی امداد دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔میں ایسی امداد کے اعلانات کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ آپکو پتہ ہے کہ امداد لینے والوں میں کتنے لوگ امداد لینے میں کامیاب ہوپاتے ہیں؟ اور ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں جو کچھ مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے اس سے بھی شائد آپ بخوبی آگاہ ہوں گے؟

یہ امداد کیسے ملتی ہے ؟اوراس امداد کے حصول کے لیے زخمیوں اور شہدا ء کے لواحقین کو کن کن صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑتا ہے؟ یہ امداد لینے والے ہی بتا سکتے ہیں۔کہ انہیں عزت و ناموس کو گروی رکھ کر کن کن دشوار گذار رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ حکومت تو شہدا اور ساری عمر کے لیے اپا ہج بن جانے والے زخمیوں کے لیے چند ہزار روپے کی امداد کا اعلان کر کے ’’میٹھی نیند سو جاتے ہیں ۔پھر حکومت مڑکر انکی جانب دیکھنے زخمت گوارہ نہیں کرتی۔اورزخمی مریض سرکاری ہسپتالوں میں ایڑیا رگڑ رگڑ کراہتے رہتے ہیں……میری اس بات میں کسی کو شک ہے تو وہ شہید ہو کر یا زخمی ہو کر انحالات کا خود مشاہدہ کر سکتا ہے۔اس کی مثال پشاور کے چرچ میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کا چیخ چیخ کر مالی امداد نہ ملنے پر صدائے احتجاج بلند کرنا ہے۔

خیر دوستو ……میں کہاں سے کہاں جا پہنچا ہوں۔میرا مطلب ہے کہ زندگی اﷲ تعالی کا حسین تحفہ ہے اور یہ صرف ایکبار عنایت ہوتی ہے۔اس کے ملنے کے بعد پھر اس کو گذارنے کا حساب کتاب ہونا ہے اور بس
اگر اﷲ کے اس حسین تحفے کو اچھی طرح بسر کیا ہے نیک کاموں کے لیے استعمال کیا ہے ۔اور اﷲ کی مخلوق یعنی لوگوں کے حقوق و فرائض کا خیال رکھا ہوگا تو اس زندگی کو بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت حاصل ہوگا۔ تو پھر دوستو بھلا ہی بھلا ہے ورنہ کیا ہوگا ہم سب کو معلوم ہے……بہت مشکل مرحلہ درپیش ہوگا

میرے عزیز دوستو
حکومت اپنے عوام بلکہ اپنے ووٹروں یعنی ہماری جان ومال ،عزت آبرو کی حفاظت کرنے میں کلی طور پر ناکام ہو چکی ہے۔اور اس ناکامی کی وجہ حکومت کی دوغلی پالیسی اور بروقت فیصلے کرنے کی صلاحتوں کا فقدان ہے۔ حکومت طالبان کے خلاف اپریشن کرکے اسکی نظرون میں برا بھی نہیں بننا چاہتی اور اپنے دور اقتدار کے پانچ سال بھی امن و سکون کے ماحول میں گذارنے کی آرزو مند بھی ہے۔طالبان سے مذاکرات کرنے اور ان کے خلاف اپریشن کے معاملے میں فٹی فٹی تقسیم ہے۔ ابھی تک واضع موقف اختیار نہیں کر پائی۔جس کے باعث حالات دن بہ دن دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔

طالبان سے مذاکرات کے لیے جن بیساکھیوں کا سہارا لینے کے چکر میں ہے ۔اور مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے حکومت تین مولانا صاحبان مولانا سمیع الحق ، مولانا فضل الر رحمان اور مولانا سید منور حسن کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے کپتان عمران خان کا تعاون اور مدد چاہتی ہے۔ لیکن دو مولانا صاحبان ایک دوسرے کی ضد مشہور ہیں۔ اگر مولانا سمیع الحق کوئی کارنامہ سرانجام دیتے ہیں تو مولانا فضل الررحمان حکومت سے نارض ہو جائیں گے اور اگر مولانا فضل الررحمان حکومت کی معاونت کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو ’’ طالبان کے مائی باپ ‘‘ ہونے کا دعوی کرنے والے مولانا سمیع الحق گڑ بڑ کریں گے۔اور اگر تیسرے مولانا یعنی جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کو کوئی ٹاسک سونپا جاتا ہے تو وہ عمران کے بنا اکیلے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے اتحادی اور خیبر پختونخواہ میں حکومت میں شریک ہیں۔

عمران خاں کا جہاں تک سوال ہے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ نواز شریف پرسکون ماحول میں اپنی مدت اقتدار پوری کریں۔ اس ساری صورت حال کی روشنی میں میں با آسانی کہہ سکتا ہوں کہ ھکومت طالبان سے مزاکرات کے لیے مولانا سمیع الحق ،مولانا فضل الر رحمان،سید منور حسن اور عمران خاں پر مشتمل جن بیساکھیوں کا سہارا تلاش کر رہی ہے۔وہ اس مقصد کے لیے پائیدار نہیں ہیں کیونکہ ان چاروں شخصیات کی جانب سے رتعاون کے حصول میں وزیر اعظم صاحب کی امیدیں رائیگاں جائیں گی۔ کیونکہ مذاکرات کی بیل منڈے نہیں چڑھے گی۔

اس لیے میرے عزیز دوستو
اپنی اپنی پناہ گاہیں تعمیر کرنی شروع کردو……اپنی زندگیوں کی حفاظت کیلیے سکیورٹی گارڈز کا بھی انتظام کر لو تو سونے پر سہاگہ ثابت ہوگا۔اور گھروں سے باہر نکلتے وقت آیۃ الکرسی اور معوذتین کے ورد کو اپنا وظیفہ بنا لو……عزیز ہموطنو اور دوستو اگر یہ کلام الہی زبانی یاد نہیں ہے تو پھر جلدی سے کسی قاری یا مولوی صاحب کی خدمات معاضہ پر حاصل کر کے سیکھ لو ۔اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر اردو بازار کے مکتبہ الررضا یا شرقپور شریف کے نقوی بک ڈپو سے خرید یا پھر بندہ ناچیز سے حاسل کرکے گھر بیٹھے بیٹھے سیکھ لو اور اپنی ،اپنے بال بچوں ،عزیزو اقارب کی قیمتی جانوں کی حفاظت کویقینی بناؤ-
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.