یہاں مجھے بڑے افسوس اور دُکھ کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ
آج میرے مُلک کے ہر شہری کوہرزمانے کے ہر قسم کے(آمر و سول)حکمرانوں کی
عیاشیوں اور اِن کی نااہلی اورفرسودہ پالیسیوں کی وجہ سے بہترین خوراک ،
اچھی تعلیم ، سستے علاج ومعالجہ ، پینے کے صاف پانی کی قلت، اور پُرآسائش
سفری سہولتوں کے فقدان کے علاوہ گیس و بجلی کے بحرانوں سمیت مُلک میں بڑھتی
ہوئی فرقہ واریت کی وجہ سے دہشت گردی کی شکل میں ہر لمحہ نازل ہونے والے
امتحانات اور آزمائشوں کا جس طرح کا سامناہے، اِس کی مثال مُلک کی66سالہ
تاریخ میں نہیں ملتی ہے ، مگرپھر بھی ہمارے جمہوریت پسند موجودہ حکمران ہیں
کہ اِنہیںقوم کو اِن آزمائشوں اور امتحانات سے نکالنے کی ذرابھی فکر نہیں
ہے، موجودہ حالات میں یہ بھی اپنے بیشتر پچھلوں کی طرح قدم قدم پرمصلحتوں
اور مفاہمتوں کے شکار نظرآتے ہیں۔
اَب ایسے میں مجھے ایسالگتاہے کہ جیسے ہمارے جمہوریت کو ہی اپنی دیوی اور
دیوتاماننے والے اِس کے پجاری حکمرانوں کی عقلوں پر پردے پڑگئے ہیں اور اِن
کی سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں ختم ہوگئی ہیں، وہ کچھ کرنے کے طاقت
اوراختیارات رکھنے کے باوجود بھی کمزوراوربے اختیاراور لاچارلگتے ہیں،
ایساکیوں ہے..؟ اِس کا جواب تو اِن کے پاس بھی نہیں ہے...یا اِس کا یہ جواب
دیناہی نہیں چاہتے ہیں..؟ نہیں ایسابھی نہیں ہے بات دراصل یہ ہے کہ اِ س کا
جواب بھی یہ مصلحت پسندی اور مفاہمتی پالیسیز کی وجہ سے نہیں دیناچاہتے
ہیں، مگر وہ اتناضرورکہتے ہیں کہ کچھ خفیہ طاقتیں ہیں جو اِنہیں کچھ کرنے
سے روکتی ہیں۔
مگر افسوس ہے کہ ہمارے حکمران اُن خفیہ طاقتو ں کا نام اپنے لبوں پر لاتے
ہوئے بھی توڈرتے ہیں ...یہ ایساکیوں کرتے ہیں ...؟اِس میں بھی صاف ظاہر ہے
کہ اگر اِنہوں نے خفیہ طاقتوں کو بے نقاب کردیاتو پھر اِن کااقتدار ختم
ہوجائے گا، اور پھریہ بیچارے بھی سڑکوں پر پڑے ہوئے ہوں گے، پھر اِن پر بھی
اِن جیسے کسی اغیارکے پٹھو کی حکمران ہوگی،خیر ابھی تو چھوڑیں اِن باتوں
کوابھی میں بات کررہاہوں کہ قوموں کی آزمائشوں اور امتحانات کی گھڑی میں
متحدو منظم ہوکر تمام آفات و مسائل سے نبردآزماہونے والی عادات وروایات کی
.......آج ہمیں دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں
ہے جو امتحانات اور آزمائشوں سے نہ گزری ہو یا اِس کو امتحانات اور
آزمائشوں نے کبھی نہ گھیراہومگر وہیں دنیا کی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے
کہ جو قومیں اپنی تاریخ اور اپنی آزمائشوں اور امتحانات کے گزرے لمحات کو
فراموش کردیتی ہیں تو تاریخ اِنہیں بھی فراموش کردیتی ہے، اہلِ دانش کہتے
ہیں کہ ” قوموں پر آئے امتحانات اور آزمائشیں اِنہیں سنبھالنے اور ترقی کی
جانب کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور جوقومیں اِن
سے ثابت قدم رہ کر گزرجاتی ہیں وہی دنیا میں اپنا نام و مقام روش کرپاتی
ہیں اور ہماری طرح جو قومیں متزلزل ہوجاتی ہیں ، اور ہماری طرح (دہشت گردی
اور سابق آمر جنرل پرویزمشرف اور مُلک کودرپیش بجلی و گیس اور دیگر )کسی
ایک مسئلے کے حل پر بٹ جایاکرتی ہیں اُن ہی قوموں کے حصوں میںبدنامی اور
گمنامی آتی ہیں اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پرویز مشرف کی رہائی یا مقدمہ
اور مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے جیسے چھوٹے چھوٹے معاملات پر بھی ہماری قوم
بٹ گئی ہے اور منتشرالخیال و منتشرلافکار ہوکر رہ گئی ہے، ایسے میں میراقوی
خیال یہ ہے کہ اگر اِن موجودہ حالات میں بھی ہم نے ایک اور متحد ہوکر(دہشت
گردی اور مشرف جیسے ) اِن دونوں معاملات سمیت دیگر مسائل کے فوری حل کے
خاطر کوئی دیرپایا مستحکم قدم نہ اُٹھایا تو پھر سمجھ لیں کہ پستی اور
تباہی ہمارامقدربن جائے گی ۔
اگرچہ آج ہر سطح پر ہماری غیر منظم و منتشر الخیال اور منتشرالافکار قوم
میں یہ سوالات پوری شِدّت سے زبانِ زدِ خاص و عام ہیں کہ ”کیا قوموں کی
زندگیوں میں امتحانات اور آزمائشیں آتی ہیں...؟“ اور کیا دنیاکی قومیں اُن
امتحانات اور آزمائشوں سے اِسی طرح بنردآزماہوتیں ہیں جیسے کہ ہم آزمائشوں
اور امتحانات سے نمٹ رہے ہیں ...؟تواِس پر میں یہ سوالات پوچھنے والی اپنی
قوم سے بس اتناہی کہناچاہوں گا کہ اہلِ دانش کاکہناہے کہ جو قومیں منظم اور
ضابطے کی پابند ہوتی ہیں اِنہیں بہت کم مشکلات وامتحانات اور
آزمائشوںکاسامناکرناپڑتاہے یعنی کہ جوقومیں منظم اور ضابطے کی پابندہوتی
ہیں یقیناایسی قومیں درس گاہوں میں پروان چڑھی ہیں اور جو قومیں غیرمنظم و
منتشرالخیال اور منتشرالافکار ہوتی ہیں اِن کی تباہی کے پسِ پردہ تباہ ہونے
والی اِن کی درس گاہیں ہوتی ہیں ، آج یقینا ہماری غیرمنظم اور منتشرالخیال
ہونے کی ایک بڑی وجہ ہماری اخلاقی اور تعلیمی طورپر تباہ شدہ درس گاہیں
ہیں،جوبظاہر عمدہ عمارتوں پر توکھڑی ہیں، مگر اِن کا معیارِ تعلیم اندر سے
تاریکی کے اُس اندھیرے کنوئیں سے بھی زیادہ بدترہیں، جو اُوپر سے تو
خوبصورت ہے مگر اپنے اندرتشنہ لبوں کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کا ایک قطرہ
تک نہیں رکھتاہے۔
بہرحال ...!آج بھی دنیا میں ایسی بھی بے شماراقوام موجودہیں،جنہیں امتحان
اور آزمائشوں کا سامناہے، مگر چونکہ اِن کی درس گاہیں تعلیمی لحاظ سے سلامت
ہیںاوراِن کے ایوانوں میں ہماری طرح جدی پستی جاہل اور جاگیردارانہ و
سرمایہ دارانہ سیاسی مائنڈرکھنے والے لوگ موجودنہیں ہیں، اِس لئے وہ
آزمائشوں اور کٹھن سے کٹھن امتحانات سے بھی آسانی سے کامیابی و کامرانی کے
ساتھ گزرجاتی ہیں، اور ایسی ہی قومیں ہوتی ہیں جو جہاں بھر میں اِنسانیت کے
لئے نفع بخش کام کرتی ہیں اور دنیا میں ترقی پاتی ہیں اور عزت و سلامتی اِن
کا قدم قدم پر ماتھاچومتی ہیںسوضروری ہے کہ قوم ہر آزمائش اور امتحان عقل
سے مقابلہ کرے۔ |