حکمران مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے
اجلاس میں ارکان کی اکثریت نے تحریک طالبان کے خلاف فوری آپریشن کی حمایت
کی جبکہ محض چند ارکان مذاکرات کے حق میں تھے جس کے باعث اس حوالے سے کوئی
حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ پارلیمانی پارٹی نے طالبان سے مذاکرات یا آپریشن
کے فیصلے کا اختیار وزیراعظم کو دیدیا ہے۔ حکومتی حکمت عملی پر سیاسی
جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم ڈاکٹر محمد
نوازشریف کی زیرصدارت اس اجلاس میں وفاقی وزراء ارکان قومی اسمبلی و سینٹ
شریک ہوئے۔ اجلاس میں ملک میں امن و امان کی مجموعی صورت حال اور طالبان سے
مذاکراتی عمل سے متعلق امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری
نثار علی خان نے شرکا کو کراچی سمیت ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال اور
طالبان سے ممکنہ مذاکراتی رابطوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ سینیٹر ظفر علی شاہ
کے مطابق اجلاس میں طالبان سے مذاکرات اور دہشت گردی کا حل ایجنڈے میں
سرفہرست تھے۔
انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لئے سربراہ حکومت کا ایسا لب و لہجہ بے حد ضروری
ہے۔ ریاست اور حکومت جب تک کمزوری اور نرمی کا اظہار کرتی رہے گی انتہا
پسند اور انتشار پسند قوتیں بزعم خویش طاقتور اور ناقابل تسخیر تصور کرتے
ہوئے حکومت کی اتھارٹی اور ریاست کے وجود کو مسترد کرتی رہیں گی۔ افتراق
اور بدامنی کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات اور باہمی افہام و تفہیم گو کہ بہتر
اور شاید واحد راستہ ہے لیکن یہ اس وقت تک کارآمد نہیں ہوتا جب تک خود سر
عناصر کو اس بات کا احساس نہ دلوا دیا جائے کہ وہ اپنی تمام تر منفی
صلاحیتوں کے باوجود ریاست سے ٹکرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ملک میں متعدد
آوازیں یہ شور و غل بپا کرنے میں مصروف ہیں کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں
خوں ریزی ہو گی اور اس تباہی و بربادی کے بعد بھی بالآخر حکومت کو طالبان
سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔ اس لئے دلیل دی جاتی ہے کہ جنگ جوئی کی بجائے
مذاکرات کی میز سجائی جائے اور خود سر عناصر کو راضی کر لیا جائے۔گزشتہ ایک
دہائی کے دوران تحریک طالبان پاکستان کی سرکردگی میں ملک میں بے پناہ قتل و
غارت گری کی گئی ہے اور یہ سماج دشمن عناصر متعدد دیگر جرائم میں ملوث رہے
ہیں۔ اسی مدت میں متعدد حکومتوں نے طالبان کو بات چیت کی دعوت دی ہے۔ چار
ماہ قبل حکومت کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف کو بات
چیت کا مینڈیٹ دیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ بھی شریک تھے۔
اس لئے بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت طالبان سے
بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کرنے پر آمادہ رہی ہے۔
اس کے جواب میں طالبان نے خود کو طاقتور سمجھنا شروع کر دیا اور اسی گھمنڈ
میں جیلیں توڑنے سے لے کر دہشت گرد حملوں کا سلسلہ بھی دراز کر دیا گیا۔ ہر
حملے کے بعد طالبان کے نمائندے نہایت اطمینان اور فخر سے یہ اعلان کرتے رہے
ہیں کہ یہ حملہ فلاں بدلہ لینے کے لئے کیا گیا ہے۔ اب حکومت امریکہ کی
غلامی چھوڑ کر اپنا اختیار ثابت کرے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ یہ طرز عمل
اور لب و لہجہ اس بات کی غمازی کرتا رہا ہے کہ طالبان ریاست اور حکومت کو
بے بس اور کمزور سمجھتے ہوئے من مانی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حملے بھی کرتے ہیں
اور مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد کرتے رہے ہیں۔اس
دوران چند مخصوص سیاسی و مذہبی قوتوں نے مذاکرات کی حمایت اور امریکہ
مخالفت کے نام پر طالبان کو ڈی فیکٹو سیاسی جواز فراہم کیا ہے۔ اب یہ بات
واضح ہو جانی چاہئے کہ امریکہ یا دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کی
نوعیت کا فیصلہ طالبان یا غیر نمائندہ سیاسی و مذہبی قوتیں نہیں کر سکتیں۔
یہ حق صرف پاکستان کے عوام کو حاصل ہے۔ ان کی نمائندہ حکومت اور نمائندے ہی
اپنی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات اور
معاملات طے کرنے کے مجاز ہیں۔ طالبان اگر مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے
امریکہ سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کریں گے تو اس رویہ کو ان کی طرف سے
فساد ختم کرنے کی پرامن کوششوں کو مسترد کرنے کے مساوی سمجھا جائے گا۔
حکومت سمیت دیگر سیاسی قوتوں کے مبہم اور کسی حد تک طالبان نواز بیانات کی
وجہ سے انتہا پسند عناصر نے سرکشی اور بغاوت کی راہ اختیار کی ہوئی ہے اور
وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ مملکت پاکستان اور اس کی حکومت اب ان کی جوتی کی
نوک پر ہے۔ تاہم وزیراعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں جو
لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ صائب اور مناسب ہے۔ ایک مکمل اور طاقتور مملکت
کے سربراہ حکومت کے طور پر انہوں نے خودسر عناصر کے ساتھ طاقت کی زبان میں
بات کی ہے۔ تاہم یہ بھی واضح کیا ہے کہ حکومت مذاکرات کی اہمیت سے آگاہ ہے
اور اسے یہ بھی خبر ہے کہ جنگ کے بعد بات چیت کے ذریعے ہی مسئلہ کا حل
نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن شدت پسند قوتوں کو اس بات کا احساس دلانے اور
مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے طاقت کا استعمال بھی ضروری ہے۔میاں نواز
شریف نے اس حوالے سے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ طالبان کو سبق
سکھانے اور ان کی خود سری ختم کرنے کے لئے بمباری سے لے کر ڈرون حملوں تک
کو استعمال کیا جائے گا۔ کسی جمہوری حکومت کے سربراہ نے پہلی بار امریکی
ڈرون حملوں کی افادیت کو باالواسطہ طور پر قبول کیا ہے۔ کاروان ان سطور میں
کئی ماہ سے یہ واضح کرتا رہا ہے کہ ڈرون باغی دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے
کا واحد مؤثر ہتھیار ہے۔ اس لئے حکومت کو اس معاملہ میں جذباتی سیاست کرنے
کی بجائے یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ امریکہ پاکستان کی مرضی و منشا سے دہشت
گردوں کو ہلاک کرنے کے لئے ڈرون حملے کر سکتا ہے۔ اس طرح اس موضوع پر شروع
کی جانے والی غیر ضروری سیاسی بحث اور ڈرون حملوں کے مضمرات کے بارے میں
قیاس آرائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
اب امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم اپنے ارادوں اور باتوں پر قائم رہیں گے۔
گزشتہ روز سے انتہا پسندوں کو جو سخت پیغام دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں ،
قومی اسمبلی میں اس کے خدوخال واضح کئے جائیں گے اور ایک بھرپور عسکری قوت
کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ اس مصمم ارادے اور ایکشن کے بغیر طالبان کو ہتھیار
پھینکنے ، پاکستان کے اختیار اور آئین کو تسلیم کرنے اور اپنے مناسب حقوق
کے تحفظ کے لئے حکومت سے بات چیت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔2009ء میں
کیا جانے والا سوات ایکشن اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ
سوات میں بحالء امن کی وجہ یہ ہے کہ فوج مستقل وہاں پر مقیم ہے۔ اس دلیل کو
یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ پاک فوج انتہا پسندوں کا صفایا کرنے کے بعد
اس لئے سوات میں رہنے پر مجبور ہے کیونکہ اس وادی سے متصل قبائلی علاقے
بدستور انتہا پسندوں کی دسترس میں ہیں۔ وہ وہاں اپنی محفوظ پناہ گاہیں
بنائے ہوئے ہیں اور موقع ملتے ہی سوات پر دوبارہ حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ اس
لئے فوج کو سوات میں مستقل طور سے اپنی چھاونی قائم کرنا پڑی ہے۔اب اگر فوج
قبائلی علاقوں کو انتہا پسندوں سے پاک کر دے یا ایک زور دار ایکشن کے بعد
طالبان کو عقل کے ناخن لینے پر آمادہ کر لے تو پورے خطے میں امن بحال ہو
سکے گا۔ صرف اسی صورت میں فوج کو ان علاقوں سے واپس بلایا جا سکتا ہے جو
انتہا پسندوں کے براہ راست اثر و رسوخ میں ہیں۔دو ماہ قبل طالبان کے سربراہ
حکیم اﷲ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان اور ان کے ہمنواں
نے حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے مذاکرات کو ناکام بنانے کا ذمہ دار
بھی قرار دیا تھا۔ میاں نواز شریف نے اب جو مؤقف اختیار کیا ہے، اس کی
روشنی میں ریاست اپنا یہ استحقاق واپس لے رہی ہے کہ بیرونی مملکتوں سے
معاملات کے سوال پر طالبان کو دلیل دینے یا شرائط عائد کرنے کا حق نہیں دیا
جا سکتا۔ تاہم حکومت کو اس مؤقف پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے آگے بڑھنا ہو
گا۔ اس مرحلے پر بھی اگر کمزوری یا بے بسی کا مظاہرہ کیا گیا تو حالات مزید
دگرگوں ہو سکتے ہیں۔ |