دہشتگردی کامسئلہ قومی مسئلہ ہے جو گھمبیرترین
مسئلہ بن چکاہے اس مسئلے سے پاکستان نبردآزما ہے نائین الیون سے لیکرآج تک
ملک دہشتگردی کاشکار ہے 2010ء میں دوہزار سے زائد دھماکے اورخودکش حملے
ہوئے لیکن مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی کی حکومت کوبیک فٹ پرنہیں لیکرآئی نہ ہی
طعنہ زنی کی ان کے دورمیں ملکی سرزمین پر حملہ ہوا ا ورغیرملکی ہیلی کاپٹر
ملکی خودمختاری اورآزادی کے پرخچے اڑاتے ہوئے داخل ہوئے لیکن اس وقت کی
اپوزیشن نے ذمہ داری کامظاہرہ کیا ۔2008ء سے 2011ء تک ہونیوالے دھماکوں
کاریکارڈ حکومت کے پاس ہے ۔ ان دھماکوں میں کمی ہوئی ہے خواہ آپریشن ہویا
مذاکرات جب تک ا تفاق رائے پیدانہیں ہوتا کامیابی ممکن نہیں۔ گزشتہ پانچ
سال بدترین حالات رہے مسلم لیگ(ن) نے حکومت کادل وجان سے ساتھ دیا اس وقت
مذاکرات یا آپریشن کاخیال کیوں نہیں آیا۔حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)
نے قیام امن کے لیے فیصلہ کن راؤنڈ کے بارے میں حتمی اعلان کا اختیار و زیر
اعظم محمد نواز شریف کو دے دیا ہے۔ آ خری وقت تک بات چیت کا آپشن اختیار
کیے رکھنے اور اس بارے میں قومی مشاورت کی رائے دے دی ہے فاٹا میں ٹارگٹڈ
آپریشن کی حمایت کردی گئی ۔مسلم لیگ(ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں
فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں قومی سلامتی کی نئی پالیسی کی
منظوری کے بعد فوری طور پر اسے نافذ کردیا جائے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز
شریف نے کہا کہ ملکی استحکام کے لیے سیکورٹی فورسز قانون نافذ کرنے والے
اداروں اور شہریوں کے خون کا رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا امن و سلامتی
کے لیے حکومت ہر ممکن اقدام کرے گی پائیدار امن و استحکام کے لیے خطے میں
نئے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ملک کو اس وقت شدید سیکورٹی خطرات کا سامنا
ہے حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کرے گی ملک کے آئین
کو تسلیم کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہیں ۔اراکین نے کہا کہ
حکومت مذاکرات کی خواہش ضرور رکھتی ہے تاہم اسے کمزوری نہ سمجھا جائے حکومت
صرف ان لوگوں سے بات کرے گی جو پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں گے اس وقت
ملک شدید سیکورٹی صورت حال سے دوچار ہے ایسے اقدامات اٹھائیں گے جس سے عوام
اور سیکورٹی فورسز کا تحفظ ہو سکے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام کا تحفظ
کریں اور اس مقصد کے لئے جو بھی کرنا پڑا کریں گے۔ نواز شریف نے ( ن) لیگ
کے ارکان پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے حکومت جو
قانون سازی کر رہی ہے اس کے لئے ٹھوس اور مثبت تجاویز سامنے لائیں تاکہ اس
پر کسی قسم کی تنقید نہ ہو اور قانون سازی کے ذریعہ دہشت گردوں کا قلع قمع
کیا جائے اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس وقت ملک کو دو چینلجز
کمزور معیشت اور دہشت گردی کے مسئلے کا سامناہے معاشی استحکام کا پختہ عزم
کررکھا ہے معشیت کا امن و امن سے تعلق ہے ہم نے آئندہ نسلوں کے مستقبل کو
محفوظ بنانا ہے پاکستانی پرامن قوم ہے تمام پڑوسی ممالک سمیت عالمی برادری
کے ساتھ احترام پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں۔ ملک کے لیے قربانیان دینے والے
نوجوان ہمارے ہیرو ہیں خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔وفاقی وزیر داخلہ
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ مذاکرات کے لیے تحریک طالبان کی اعلیٰ قیادت
سے براہ راست رابطے کیے گئے تھے ۔ قومی اتفاق رائے کے بغیر طالبان سے
مذاکرات یا آپریشن کوئی بھی فیصلہ پائیدار ثابت ہو گا نہ کامیاب ہو سکے گا۔
ممکنہ اقدام پر مشاورت چاہتے ہیں۔ آج بھی مذاکرات ترجیح ہے۔طالبان سے
مذاکرات کے لیے ہر قدم پر مشاورت کی۔ امریکی ڈرون حملے نے مذاکراتی عمل کو
سبوتاڑ کیا۔ مذاکرات کی کاوشیں شروع ہوئیں تو عسکریت پسندوں کے بعض گروپس
نے کہا کہ حکیم اﷲ محسود سے بات نہ کی جائے۔ دہشت گردی کسی ایک جماعت نہیں
بلکہ قومی مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم نے ایوان میں تمام بڑے فیصلوں کا اعلان
مشاورت سے کیا۔وزیر اعظم فیصلہ سازی میں مشاورت پر یقین رکھتے ہیں۔جب دوسرا
فریق مذاکرات پر آمادہ نہ ہو تو بات کیسے ہو سکے گی جس سے مذاکرات کرتے ہیں
وہ افغان علاقے کنڑ میں بیٹھا ہے۔ حکومت آج بھی طالبان سے مذاکرات کے حامی
ہے لیکن اگر دوسرا فریق راضی نہ ہو تو مذاکرات کیسے کئے جاسکتے ہیں اور اگر
حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے نہ ہوا تو نہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں
اور نہ ہی آپریشن۔ ا پوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی جانب
سے قومی سلامتی کے معاملات پر اعتماد میں لینے کی توقع کے باوجود ایوان میں
نہ آنے پر احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بنوں، مستونگ،
راولپنڈی اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے سنگین واقعات پر تشویش کرتے
ہوئے بد امنی پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہ کرنے
پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ طالبان کے خلاف اگر آپریشن
کا فیصلہ کیا گیا ہے تو اس حوالے سے بتایا جائے، طالبان سے مذاکرات کی بات
پر انہیں طالبان نواز کہا جاتا ہے۔ اگر طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں تو آئین
کے تحت کئے جائیں، ہم قائداعظم کا پاکستان چاہتے ہیں۔ شیخ رشید احمد نے کہا
کہ اگر کوئی بھی رکن قومی اسمبلی ایوان سے مسلسل 40 روز تک غیر حاضر رہے تو
اس کی نشست خالی قراردے دی جاتی ہے لہذا وزیراعظم کی نشست قانون کے مطابق
خالی قرار دی جائے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم ایوان سے مسلسل غیر
حاضر ہیں۔ ایوان کو امن واستحکام،سلامتی سمیت دیگر معاملات پر اعتماد میں
لینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔گھمبیر مسائل کے باوجود وزیراعظم کا ایوان میں
نہ آ نا باعث تشویش ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نے وزیراعظم محمد نوازشریف سے
طالبان سے مذاکرات کی پالیسی واضح کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور واضح کیا
ہے کہ طاقت کے استعمال سے قیام امن ممکن نہیں ہو سکتا ۔دفاع پاکستان کونسل
نے ملک میں بڑھتی ہوئی بد امنی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ملکی بقاء اور
سالمیت کے معاملات پر قوم سے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے کی اپیل کی
ہے دفاع پاکستان کونسل نے واضح کیا ہے کہ فاٹا میں امن کو موقع دینے کے
متعلق کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کو سبوتاڑ نہ کیا جائے متبادل آپشن کی
کسی فورم پر منظوری بھی نہیں لی گئی کارروائی پر دفاع پاکستان کونسل کو
تشویش ہے۔کونسل نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ فوجی آپریشن کے نام پر بے گناہ
اور معصوم لوگوں کے قتل عام سے گریز کیا جائے۔کونسل نے اس بات پر حیرانگی
کا اظہار کیا کہ اے پی سی کے متفقہ فیصلے کو سبوتاڑ کیا گیا اور جو کسی اور
نہیں کہا اسی آپشن کو ترجیح دے کر پارلیمنٹ اور اے پی سی کے فیصلوں کا مذاق
اڑایا گیا۔ کونسل نے اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک کو دہشت گردی کے
نام پر بدنام کرنے اور معصوم شہریوں کی ہلاکت اور ملک کے اندر ہجرت اور
دربدر کرانے کی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اجلاس میں کہاگیا کہ اب بھی حل
مذاکرات ہی میں ہے کسی بھی ذریعے سے ہوں۔ مگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔
اجلاس میں مذاکرات کے سلسلے میں کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق کی
کوششوں کو سراہا گیا اوردوسری طرف مزاکراتی عمل پر وزیراعظم محمد نواز شریف
کے غیرسنجیدہ رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف سے
مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذاکرات کے بارے میں قوم کو دو ٹوک ارو واضح صورتحال
سے آگاہ کرے۔ |