”کمانڈو“ کا جُرم۔؟

بحری جہاز کے عرشے سے ایک شخص سمندر میں جا گرا ، اُس کے پیچھے پیچھے ایک سکھ سردار جی بھی پانی میں کود گئے اور بڑی تگ و دو کے بعد ڈوبنے والے شخص کو بچا کر واپس جہاز کے عرشے پر لانے میں کامیاب ہو گئے جہاز میں سوار دیگر مسافر سردار جی کی بہادری اور جذبہ خدمت انسانیہ کی تعریف میں لگ گئے ۔ ہر مسافر برملا اس بات کا اظہار کرنے لگا کہ سردار جی!بڑے عظیم انسان ہیں جنہوں نے سمندر میں ڈوبنے والے ایک انسان کی جان بچانے کےلئے اپنی جان مشکل میں ڈال دی ۔سردار جی!مسافروں کی تعریفیں سن سن کر عاجز آگئے اور انتہائی غصّے میں سب مسافروں کو مخاطب ہو کر بولے ”یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست سہی مگر سب سے پہلے اُس شخص کا نام بتایا جائے کہ جس نے مجھے سمندر میں دھکا دیا“سردار جی کے اس غصّے بھرے استفسار سے مسافر یک دم حیران و پریشان ہو گئے کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے ۔ سردار جی تو خود سمندر میں نہیں کُودے بلکہ کسی نے شرارت کی اور انہیں سمندر میں دھکا دے دیا ۔یہ الگ بات ہے کہ موصوف ڈوبنے والے کو بھی بچا لائے اور خود بھی بخریت واپس آ گئے.

ہمیں یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ 12اکتوبر 1999ءکوجب اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کا حکم نامہ جاری کیا تو موصوف کا جہاز آسمان کی بلندیوں پر محو پرواز تھااور بقول راوی وزیر اعظم نوازشریف کی ہدایت پر ان کے طیارے کو پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی ۔ ان حالات میں جبکہ جہاز کا ایندھن بھی ختم ہو رہا تھا اگر پاکستان کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ کسی دشمن ملک میں اُتر جاتا یا کسی حادثے کا شکار ہو جاتا تو یقیناً پاکستان کےلئے انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک واقعہ ہوتا ۔اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ فضا میں محو پرواز جنرل پرویز مشرف اس وقت تنہاءکسی صورت منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی پوزیشن میں نہ تھے ۔اس لمحہ زمین پر موجود ذمہ دار قوتوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو پاکستان میں اتارنے اور اقتدار کی مالا ان کے گلے میں ڈالنے کی کارروائی کو عملی جامہ پہنایا ۔ یوں سردار جی کی طرح انہیں آسمان سے اتار کر باعزت طریقے سے ملک کا ”نجات دہندہ “بنا دیا گیا۔بعد ازاں فوجی حکومت نے طے شدہ ایک معاہدے کے تحت میاں نواز شریف کو معہ اہل خانہ سعودی عرب جانے کی اجازت دے دی ،یوں جنرل پرویز مشرف تقریباً 9 برس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے ۔ اس دوران انہوں نے جوجو اقدامات اٹھائے اُن میں سے بیشتر معاملات میں انہیں فوج ، عدلیہ اور خود تمام مفاد پرست سیاستدانوں کی مشاورت اور حمایت حاصل رہی ۔ اس دوران ہونے والے واقعات میں کسی جرم کےلئے اکیلاانہیں ہی سزا وارقرار دیا جانا قرین انصاف نہیں ہو سکتا ۔تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے فرد واحد تنہاءکوئی اقدام اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا اس لئے 12اکتوبر 1999ءکو حکومت کا تختہ الٹنے ، نواب اکبر بگٹی قتل کیس ، لال مسجد کیس اور 3نومبر2007ءکو ایمرجنسی کے نفاذکی کارروائیاں جنرل پرویز مشرف کی ذاتی کاوشیں قرار نہیں دی جا سکتیں یہ سارے کام متعلقہ ذمہ دار افراد اور اداروں کی مشاورت اور آشیرباد سے ہی سرانجام دئیے گئے ۔ اس کے باوجود موجودہ حکومت، وزیر اعظم میاں نواز شریف خود ،خصوصاً وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہی 3نومبر 2007ءکو ایمر جنسی کے نفاذکے معاملے میں اُن پر” غداری“ کا مقدمہ چلا کر ساری قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔ اگر ایمرجنسی کے نفاذبارے معاملات کو حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو اس اقدام کی ذمہ داری بھی خود ہماری معززاور قابل احترام عدلیہ پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف جب صدارت کے عہدے کےلئے ان کی نااہلی کی رٹ دائر کی گئی تو عدلیہ نے بوجوہ جنرل پرویز مشرف کوصدر کے عہدے کےلئے نااہل قرار دینے کی بجائے یہ حکم صادر کیا کہ وہ الیکشن تو لڑ سکتے ہیں مگر عدلیہ کے آئندہ حکم تک اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھا سکتے۔صدارتی الیکشن میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی کامیابی کے بعد انہیں حلف اٹھانے کی اجازت نہ دینا ہی ساری خرابی کی وجہ بنی اور یوں موصوف نے 3نومبر 2007ءکو ”تنگ آمد بجنگ آمد “ کے مصداق ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ۔اب موجودہ حکومت اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا کر اپنا قد کاٹھ بڑھانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔جبکہ ”کمانڈو“کے خلاف غداری کیس بارے سابق فوجی جرنیلوں نے بھی اپنی اپنی جگہ حکومت کی طرف سے ”وردی“یعنی عساکر پاکستان کی توہین قرار دیتے ہوئے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے چونکہ ”کمانڈو“نے اپنی سروس کے دوران دفاع وطن کےلئے ہر محاذپر بے پناہ خدمات سر انجام دی ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا جُرم کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ موصوف نے 12اکتوبر 1999ءسے لے کر اقتدار سے رخصتی تک( یعنی محفوظ راستہ اور وہ بھی پورے پروٹوکول کے ساتھ ملنے تک) جو جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ۔ ان اقدامات کی انجام دہی میں ان کی حیثیت محض ایک ”کٹھ پتلی“کی سی تھی ۔ امریکہ سمیت وہ تمام قوتیں جو پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کے کھیل میں سالہا سال سے متحرک اور فعال ہیں ۔ انہی قوتوں کے آلہ کار بن کر سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے جو کارنامے سرانجام دئیے ان میں انہی قوتوں کی مرضی و منشاءشامل تھی ، اور ان اقدامات میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی مداخلت اور آشیر باد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔سابق صدر جنرل پرویز مشرف کوئی ایسے بھولے بھالے یا معصوم انسان نہیں ہیں کہ جو یہ سارے کام ”انجام “سے بے نیاز ہو کر کرتے رہے ۔۔۔آج ان کے خلاف ”غداری کیس“میں ان کی خصوصی عدالت میں پیشی کے حوالے سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے پس منظر میں بھی وہی قوتیں متحرک نظر آتی ہیں کہ جو سمجھتی ہیں کہ اگر یہ ”کمانڈو“ عدالت میں پہنچ گیا اور اُس نے وہاں اس سارے کھیل کو بے نقاب کر دیا تو بہت سے شرفاءاور ان کے عظیم کارنامے طشت ازبام ہو جائیں گے ۔اور دنیا جہاں”کمانڈو “کی حقیقت کو بھی جان جائے گی وہاں ان کے پیچھے کام کرنے والے ”خفیہ ہاتھ“سے بھی لوگوں کو آگاہی ہوجائے گی۔گو کہ پاکستان کے مجبور و مظلوم عوام اس ”خفیہ ہاتھ“ کو اب اچھی طرح پہچان چکے ہیں جو قومی سلامتی کے نام پر ملک و ملت کی تباہی کا سامان کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کی زندگی اُن کی ”خاموشی “سے مشروط ہے ،جہاں کسی بھی شخص نے انہیں عدالت میں پیش کرکے اُن کی ”زبان “کھلوانے کی ادنیٰ کی کوشش بھی کی اور موصوف نے اپنے دور اقتدار میں کئے جانے والے کسی بھی کارنامے کی حقیقت بیان کرنا چاہی تو وہ دن ”کمانڈو“کی زندگی کا آخری دن ہو گا ۔ اور دنیا دیکھ لے گی کہ انتہائی سخت سکیورٹی کے حصار میں بھی ”حقائق کو آشکار“کرنے کی جرات کرنے والے ”ڈرتا ورتا نہیں “قسم کے انسان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔یہ بات طے ہے کہ امریکہ اپنے خیرخواہوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرتا ہے آگ کے شعلوں اور خون آشام ہولی میں بھی کسی مائی کے لعل کی جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ ایسے مجاہدوں کا بال بھی بیکا کر سکے لیکن جہاں کہیں ان خدمتگاروں نے امریکہ کو آنکھیں دکھانے کی ہمت کی تو ایسے لوگ عبرتناک انجام سے بچ نہیں سکے جس کی مثالیں ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم ہیں ۔ سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کوقائد عوام ذولفقار علی بھٹو کی قیادت میں چلائی گئی عوامی تحریک کے ذریعے ملک بھر کی سڑکوں پر رسوا کرکے اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کیا گیا ، قائد عوام کو امریکی مخالفت کے جرم میں سابق صدر جنرل ضیاءالحق کے ذریعے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا جبکہ جنرل ضیاءالحق کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعد سانحہ بہاولپور میں اپنے انجام تک پہنچا دیا گیا۔اس کے برعکس سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں امریکی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ یہود ونصاریٰ کی خواہشات کے مطابق پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ اس لئے بقول رازداران ملت ۔۔”کمانڈو“کو کچھ نہیں ہوگا بلکہ ایک مرتبہ پھر وہی قوتیں انہیں ”محفوظ راستہ“ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی جنہیں ”کمانڈو“کے بیان کی صورت میں خود نقصان پہنچنے کا احتمال ہے ۔انسانی فطرت ہے کہ جب آگ کی تپش اس کے پیروں کی طرف بڑھنے لگتی ہے تو وہ جلنے کے خوف سے اسے بھسم کرنے کےلئے اپنی ساری طاقت صرف کر دیتا ہے ۔غداری کیس کی حقیقت جاننے کےلئے مسلم لیگی رہنماءسید کبیر علی واسطی کایہ انٹرویو کافی ہے کہ اگر امریکہ چاہے گا تو وزیر اعظم نواز شریف خود سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ایئر پورٹ چھوڑنے جائیںگے ۔اس لئے ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں ہوتی کہ ”کمانڈو“کو کچھ نہیں ہوگا ۔چہرے بدلتے رہیں گے اوریہ نظام یوں ہی چلتا رہے گا
شام تک میلہ ہے پاگل پیڑ پنچھی کس کے میت
اپنی اپنی بولیاں بول کر اُڑ جائیں گے
دن کے ان باغی فرشتوں کو سڑک پر جانے دو
بچ گئے تو شام تک گھر لوٹ کر آ جائیں گے
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور سب جانور۔۔!!
اپنی اپنی بولیاں بول کر اُڑ جائیں گے
syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 117093 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.