'' سلگتا گوھر آباد اور منتخب نمائندے''

گزشتہ چار سال سے لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں ،مگر کہیں سے کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ گو ھر آبادکی حالت زار پر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ گلگت بلتستان کا کونسا اخبار ہے یا کونسا میگزین ہے جس میں گو ھر آباد کے مسائل اور محرومیوں کے حوالے سے میرے تحقیقی فیچر، ذاتی کالم اور خبر ی و تجزیاتی رپورٹیں شائع نہیں ہوئی ہیں؟ گو ھر آباد کا ایسا کونسا مسئلہ تشنہ رہ گیا ہے جس کی نشاندھی میں نے نہیں کی ہے۔ گو ھر آباد کے جنگلات کی پیچیدہ صورتحال اور اسکا حل، تعمیراتی و ترقیاتی صورتحال ، بگڑتی ہوئی تجاری کیفیات ، روڈ اور پلوں کی کسمپرسیاں، شعبہ صحت کی تنزلیاں، بجلی کی نیرنگیاں، غربت ،پسماندگیاں، مفلوک الحالی ، لٹی پٹی بستیاں، ناساز گار موسموں کی سنولاہٹیں ، بیماریوں کا سیلاب، غربت اور مشقتوں کی ستائی ہوئی نیک بیبیاں، معاشی ناہمواریاں، متوازن غذا کی ناپیدیاں اور تعلیم و تربیت کی فقدانیاں غرض کونسا پہلو تشنہ لب رہا ہے جس پر خامہ فرسائی نہیں کی گئی ہے۔ گزشتہ 4سال سے گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و جرائد کا ریکارڈ طلب کیا جائے اور عقل سلیم اور نظر عمیق سے دیکھا جائے تو کہیں مبینہ طور پر اور کہیں بین السطوری انداز میں گو ھر آباد کی محرومیوں اور مسائل کا تذکرہ ملے گا۔ گوھر آباد کی تنزل پذیر تعلیمی صورتحال پر تو اتنامواد ملے گا کہ مقتدر طبقہ ششدرہ رہ جائے گا ۔ تعلیمی کیفیت ، اساتذہ کے مسائل ، بلڈنگ کی تزئین و ارآئش نئے اساتذہ کی تقرری میں میرٹ کی پامالی، فرنیچر کی عدم دستیابی ، کھیل کود کے سازوسامان کی ناپیدی، محکمہ ِ تعلیم کی زیادتیاںہر فورم پر بیان کی گئی مگر کمال ہے کہ ہمارے منتخب نمائندہ کے کانوں میں پر جوں تک رینگے۔ کتنی ذلت کی بات ہے کہ گلگت اسمبلی میں گزشتہ 4دھائیوں میں گو ھر آباد کے نمائندوں کو چھ دفعہ مرکزی عہدوں پرمتمکن رہنے کا موقع ملا ۔ مگر 25سال قبل قائم ہونے والا مڈل سکول اب تک باقاعدہ ہائی سکول کا درجہ نہ پا سکا۔ آج بھی گلگت اسمبلی میں چھوٹے سے گوھر آباد کے دو نمائندے ہیں۔ ایک اپوزیشن لیڈر بشرا حمد اور دوسری حکمران طبقہ کی محترمہ گل میرا صاحبہ، گزشتہ سال میں نے اپنے '' گوھر آباد '' نامی کالم میں تمام مسائل کا اجمالی ذکر کرتے ہوئے ان سے گزارش کی تھی کہ خدا را! گوھر آباد کی خبیر لیجئے ۔ لوگوں کی محرومیوں کو بانٹ لیجئے ۔ پھر سیلاب کی موج مستیوں نے گوھر آباد کی مفلوک الحالی اور محرومیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا مگر قوم کے مسیحا گلگت اور اسلام آباد کے نرم گرم بستروں میں بیٹھ کر ٹی وی پر چلنے والے ٹیکروں اور اخبارات میں چھپنے والی خبروں سے دل بہلانے لگے کہ آج گوھر آباد کے فلاں نمائندے نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی۔ اور آج فلاں مسیحا نے ٹیلی فون پر لواحقین سے تعزیت کی اور عنقریب علاقے کا دورہ کیا جائیگا۔ واہ ! دکھ در دباٹنے کا کیا نرالا اسٹائل ہے؟ آج بھی گیس پائن و بالا کی تباہ شدہ املاک اور یتیم و بے کس بچے دونوں مرحوم پل ، تباہ شدہ سڑک، گوھر آباد کی واحد نہر جس سے پورے گو ھر آباد کی زرعی زمین سیراب ہوتی ہے، اسکول، ہسپتال اور مقبوضہ جنگلات اور دیگر تمام گو ھر آباد کے تمام بزعم خویش مسیحائوں اور دونوں منتخب نمائندوںکو دہائی دے رہے ہیںکہ خدارا! ایک نظر کر م ادھر بھی کیجئے ورنہ ہماری رہی سہی حال بھی جل کر بھسم ہو جائیگی۔ مگر کمال آفرین ان کو کہ وہ اپنے پر تعیش مسکنوں میں تھوڑی دیر کیلئے مضطرب بھی ہوجائیں ! اس پر مستزاد کہ غریب اور مسکین، مفلوک الحال لوگوں کو صبر و شکرکی تلقین فرمارہے ہیں۔ یاد رہے کہیں ان کا صبر و تحمل اور شکر آپکے لہلاتے ہوئے کھیت و کھلیان کو جلاکر راکھ کر دیں۔ اور انکی محرومیاں آپکے لئے وبال جان بن جا ئیں ۔ اور ڈرو اس وقت سے جس کی وعیدیں قرآن و حدیث میں جابجا موجود ہیں۔ قارئین آپ نے میر جعفر اور میر صادق کا نام سنا ہوگا اور انکا کردار سے واقفیت رکھتے ہونگے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ غداری کی تھی اور انکے انجام سے بھی واقف ہیں۔ آج بھی جو آدمی اپنی قوم کی عزت ، غیرت و حمیت کو بیچتا ہے اور آج کے جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے معاشرتی ڈاکو بن کرقوم کو دھوکہ دے رہا ہے تو وہ میر جعفر اور میر صادق سے کم نہیں اللہ رب العالمین ہمیں ان میر جعفروں اور میر صادقوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 434626 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More