علامہ اقبال نے پاکستان بنانے کا
خواب دیکھا تھا اور اس خواب کی تعبیر کیلئے قائداعظم محمد علی جناح نے
انتھک محنت کی تھی اس ا نتھک محنت کے نتیجے میں پاکستان معرض وجودمیں آیا
کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا یا جس کیلئے
قائداعظم قائداعظم محمدعلی جناح سمیت لاکھوں افراد نے دن رات محنت کی
تھی۔اب پاکستان کی حالت دیکھاکر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
مختصربات یہ کہ میراطالب علمی کا دورتھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین
ذوالفقارعلی بھٹو کی جانشین محترمہ بینظیر بھٹوجلاوطنی کے بعد 10اپریل
1986ء کو وطن واپس آئیں تولوگوں کا جم غفیر امڈ آیا جوپاکستان کی تاریخ میں
پہلی بار ایک سیاستدان کا والہانہ استقبال تھا۔لاہورائرپورٹ سے داتا صاحب
دربارتک چند منٹوں کاسفرکئی گھنٹوں پر مشتمل ہوگیا تھا۔یہ استقبال کئی روز
تک اخبارات اور تبصروں کی زینت بنارہا چاروں صوبوں کی زنجیرمیں محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید نے اپنی سیاست کا بھرپور آغاز کیا اور سیاست میں ابھرتی
ہوئی سیاستدان بن کر سامنے آئیں 1988ء کے قومی الیکشن میں پاکستان
پیپلزپارٹی کو بھر پورکامیابی دلاکر ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب
ہوئی۔تقریباًدوسال کی حکومت میں جدوجہد سے اپنی پارٹی کو منواتی رہیں آخر
میں کرپشن اور دیگر الزامات کی بنا پر انکی حکومت کو فارغ کر دیا
گیا۔دوبارہ قومی الیکشن کروائے گئے تو میاں محمدنواز شریف بھرپور کامیابی
کے بعد پہلی دفعہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے جوکہ مسلم لیگ کی طرف سے
وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی خدمات سرانجام دے چکے تھے یہاں پر میں یہ بتاتا چلوں
کہ دونوں پارٹیاں مسلسل ایک دوسرے پر تنقید برائے تنقیدکرتی رہی اسکے بعد
میاں نوازشریف کی حکومت بھی ختم ہوگئی پھر الیکشن کا انعقاد ہواجسکے نتیجے
میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن اس دفعہ
پھر پیپلزپارٹی کی بساطہ لسیٹ دی گئی۔مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمدنواز
شریف ٹوتھرڈمے جورٹی کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔دونوں بڑی
پارٹیوں کی دودوباریاں لینے کے باوجود عوام کے دکھوں کا الزالہ نہ ہوا سکا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور میں پہلی دفعہ نوجواں کیلئے یوتھ انوسٹمنٹ
کے نام سے قرضہ سکیم کو متعارف کروایا اور نوجوانوں میں اربوں روپے جھونک
دئیے ان دونوں وزیراعظم کی سکیموں سے ملک کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا
بلکہ خزانے پر بوجھ بڑھتا گیا ،کوئی بھی پارٹی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ
کرسکی۔وزیر اعظم پاکستان محمد نوازشریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جنرل
پرویزمشرف کو چیف آف دی آرمی سٹاف نامزد کیا۔جنہوں نے میاں نوازشریف کی
حکومت ختم کر کے ملک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی اور روشن خیال
پاکستان کے نام سے عوام کو یقین دلدیاکہ میں اسے روشن خیال پاکستان
بناکررہوں گا پہلے دوسال میں انہوں نے پاکستان کے حالات پر کافی حد تک
قابوپالیا کاروباری حالات بہتر کئے ڈالر کو مستحکم رکھا ایک دفعہ پھر عوام
کے دلوں میں امید کی کرن روشن ہوئی کہ جنرل پرویزمشرف ملک کو صحیح ڈگر پر
رواں دواں کرگے۔لیکن دوسری حکومت کی طرح انہوں نے بھی فیصلہ پہلے دوسالوں
کے بعد تبدل کیا اور سیاسی پارٹی پاکستان مسلم ق وجود میں آکر انکے ساتھ
کھڑی ہو گئی پنجاب اور دیگر صوبوں میں ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی۔اور مسلم
لیگ ق کے وزیر اعظم اوردیگر وزیر اعلیٰ ایک مضبوط ٹیم بن کر ملکی سیاست پر
چھاگئے۔یہاں پر میں یہ بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ جب پرویزمشرف نے اقتدار
سنبھالاتومیاں نواز شریف جو اس وقت کے وزیراعظم تھے۔انکوسعودی عرب جلاوطن
کردیاگیاتھا۔جوایک ڈیل کا نتیجہ تھا۔پھرکچھ عرصے بعد سعودی عرب سے میاں
نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔جسے NRO(این آر
او)کیاجاتاہے یہ معاہدہ محترمہ بے نظیر بھٹوکی وطن واپسی کا سبب بنا۔دوسری
طرف اسیNOR(این آر او)کے تحت میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کا موقع ملا۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز نے ملکر کر جنرل پرویزمشرف اور انکی
اتحادی ٹیم کواقتدارسے باہرکردیا۔یہ جنرل پرویز مشرف اور انکی ٹیم کا ایک
شانداردورتھا۔جس میں چوہدری پرویزالٰہی نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کام
کیا،انکے دور میں کئی ترقیاتی کام ہوئے جن میں ریسکیو1122ہسپتالوں میں مفت
ادوایات کی فراہمی اور پڑھا لکھا پنجاب اور خواتین کیلئے اسمبلی میں نشستوں
کا اضافہ کردیاگیا سمیت دیگر منصوبے سرفہرست ہیں۔اس حکومت کو جن کاموں کی
وجہ سے شکست ہو ئی اس میں لال مسجد آپریشن اور سردار اکبر بگٹی کا واقعہ
شامل ہیں۔
اس دور کے بعد پھر ایک دفعہ نئے الیکشنوں کا چرچہ ہوا جس میں تمام سیاسی
پارٹیاں الیکشن کمپین میں مصروف ہوگئیں۔ایسی دورمحترمہ بے نظیر
بھٹوپر18اکتوبر کراچی میں پہلا حملہ ہو ا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو محفوظ
رہیں لیکن انکے کارکن کافی تعداد میں شہید ہوئے اسکے بعد راولپنڈی لیاقت
باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد جونہی اپنی گاڑی میں سوار ہوئیں توان پر دوسرا
حملہ ہو اجس میں وہ شہید ہوگئیں۔پاکستان پیپلزپارٹی ایک بہت بڑی قیادت سے
محروم ہوگئیں۔انکی شہادت سے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں سمیت پاکستانی
قوم میں غم وغصہ کی شدید لہر دیکھنے میں آئی۔اس سانحہ میں پاکستان
پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کی سربراہی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی آصف
علی زرداری پہلی دفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدربنے آصف علی زرداری
نہایت دانشمندی سے تما م سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کرچلے اس دوران پاکستان
مسلم لیگ نواز کو فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سننا پڑااس کے باوجود میاں محمد
نواز شریف اور انکی صوبائی حکومت جو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی
بھرپورٹیم کے ساتھ ترقیاتی کاموں میں نہ صرف پاکستان میں سرفہرست تھی ۔بلکہ
دنیا میں اچھی شہرت کی حامل بھی یہ مرکزی حکومت کو کافی حد تک مشکل میں ڈال
سکتی تھی ۔لیکن انہوں نے مرکزکے ساتھ ملکر انکوپانچ سال مکمل کرنے کا موقع
دیا یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف (ر) جنرل
پرویزکیانی نے بھی جمہوریت کو پٹری سے اترنے نہ دیا۔اور جمہوریت کیلئے
نمایاں کردار اداکیا ۔جسکی ماضی میں مثال نہیں ۔
اب حکومت تو تقربیاً سات ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے اب تک حکومت کوئی خاطر خواہ
رزلٹ دینے سے قاصر ہے لگتایوں ہے میاں محمدنوازشریف نے جلاوطنی سے کچھ نہیں
سیکھا۔اگراس دفعہ بھی یہ حکومت خاطرخواہ ڈلیور کرنے میں قاصر رہی توعوام کی
امیدوں پر ایک دفعہ پھر پانی پھر تا ہو دیکھائی دے رہا ہے۔اپوزیشن پارٹیوں
کی طرف سے ملک میں دہشت گردوں کے آپریشن کیلئے بارہا دفعہ حکومت پر پریشر
دیکھنے کو مل رہاہے۔جس میں پاکستان پیپلز پارٹی ،اے این پی ،ایم کیوایم
نمایاں ہے۔اسکے باوجود میں محمدنوازشریف نے پارلیمنٹ میں چار رکنی کمیٹی
تشکیل دی ہے ۔تاکہ مذاکرات کیلئے ایک دفعہ پھر بھرپور کو شش کی جائے اور اس
مسلے کا مل جل کرحل نکالا تاکہ ملک کو مزید انارگی سے بچایا جاسکے حکومت کو
جو بھی فیصلہ کرناہے توجلداز جلد کرکے اپنا لائحہ عمل قوم کے سامنے حتمی
طور پر پیش کرے ۔لگتا یوں ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اب تک
پاکستان کے اندر قائد کا فقدان ہے کیا کوئی ٹیکنوکریٹ ہی اس ملک کو خوشحالی
کی طرف لے جانے میں اہم کردار اداکرے گا۔یا قائدکا فقدان ہی رہے گا۔ |