پی پی پی ایک ایسی جماعت ہے جس
نے پاکستان میں سب سے پہلے مزدوروں کے حقوق کا نعرہ بلند کیا تھا اور یہی
وجہ ہے کہ مزدوروں کی اغلب اکثریت پی پی پی کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی
رکھتی تھی ۔اگر میں یہ کہوں کہ کہ پی پی پی غریبوں کی حقیقی جماعت تھی توبے
جا نہ ہوگا۔ذولفقار علی بھٹو محروموں،مجبوروں اور بے کسوں کے محبوب راہنما
بن کر سامنے آئے تھے اور انھوں نے اس کلاس کی عزت و تکریم اور فلاح وبہبود
کیلئے بے شمار کارنامے سر انجام دئے تھے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اتنے سال
گزرجانے کے باوجود بھی ذولفقار علی بھٹو غریبوں کے دلوں سے نہیں نکل
سکے۔ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں مزد وروں کو نہ صرف اقتدار تک
رسائی دی گئی تھی بلکہ انھیں پارلیمنٹ کاممبر بھی بنایا گیا تاکہ پارلیمنٹ
پاکستانی عوام کی حقیقی نمائندگی کی مظہر بن سکے۔ہماری موجودہ پارلیمنٹ اس
وقت ایک خاص گروہ کی نمائندہ ہے لہذاغریب کلاس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ
ہونے کے برابر ہے جس سے پورے معاشرے میں پولرائزیشن کی کیفیت طاری ہے۔مختلف
گروہ ایک دوسرے کو دبانے اور نیچا دکھانے کی مشق میں جٹے ہوئے ہیں جبکہ
امراء پر اپنا تسلط جمانے کی دھن سوار ہے جس سے معاشرہ مختلف طبقات میں
تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے اور مزدور کیلئے زندگی کی گاڑی
کھینچنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اہلِ ثروت طبقات کو اس بات کی
قطعا کوئی فکر لاحق نہیں ہے کہ غریب کی زندگی کتنے کٹھن مراحل سے گزر رہی
ہے اور اسے زندہ رہنے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔ امرا ء کو صرف
اپنے خزانوں میں اضافہ کی فکر دامن گیر ہے اور وہ اس کیلئے کسی بھی حد تک
جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔دولت پرستی کی یہ سوچ دن بدن توانا ہوتی جا رہی
ہے جس سے معاشرے میں جرائم کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ غربت کی
لکیر بھی بلند سے بلند تر ہو تی جا رہی ہے۔ ایک طرف وہ لو گ ہیں جن کے پیٹ
نعمائے خداوندی سے پھٹے جا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو نعمائے
خداوندی کو ترس رہے ہیں کیونکہ دولت کے سارے خزانوں پر ایک مخصوص گروہ نے
قبضہ جما رکھا ہے اور وہ اپنے سوا کسی کو بھی اس میں حصہ لینے کی اجازت
نہیں دینا چاہتے۔ ایک ہوس ہے جس کا یہ گروہ شکار ہو چکا ہے او ر دولت پرستی
کی ا اندھی ہوس نے اس سے شرفِ انسانیت بھی چھین لیاہے۔
ترقی پسند تحریکوں اور سرخ انقلاب کی موت کے بعد دنیا میں امرا ء کا گروہ
بہت طاقتور ہو چکاہے۔پہلے انھیں اس بات کا خوف رہتا تھا کہ مزدور تنظیمیں
اور ترقی پسند جماعتیں انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیں گی، ان کا محاسبہ کریں
گی اور ان کی من مانیوں کے سامنے روک بن کر کھڑی ہو جائیں گی لیکن سرمایہ
دارانہ نظام کے تسلط کے بعد امرا نہا ئت بے دھڑک اور نڈر ہو گئے ہیں اور
استحصالی انداز بہت عام ہو گیا ہے۔موجودہ طرزِ حکومت میں امراء کا احتساب
کرنا ممکن نہیں رہا کیونکہ حکومت اور تجارت باہم یکجا ہو گئے ہیں۔حکمران ہی
تاجر ہوں اور تاجر ہی حکمران ہوں تو پھر مزدور کی شامت آنی تو فطری بات
ہے۔پاکستان میں بالخصوص اور تیسری دنیا میں بالعموم سرمایہ دار گروہ اقتدار
کے ایوانوں میں گھسے ہوئے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف
ہیں۔ان کا واحد مقصد اپنی دولت کو بڑاوھا دینا اور اپنے دوستوں کو نوازنا
رہ گیا ہے۔کبھی سیا ست خدمتِ خلق کا استعارہ سمجھی جاتی تھی لیکن اب ارتکازِ
دولت کی کلید سمجھی جاتی ہے ۔ جمہوریت ایک سیڑھی ہے جو اقتدار تک لے جانے
کا باعث بنتی ہے اور ایک دفعہ اقتدار ہاتھ لگ گیا تو پھر موجاں ہی موجاں ۔پاکستان
میں یہ تماشہ پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن
حکمرانوں کے انداز اور کرتوت نہیں بدلتے۔ایک گروہ آتاہے اور پہلے گروہ کو
برا بھلا کہہ کر اپنے اقتدار کے دن پورے کر لیتا ہے۔ انتخابات میں اپنے
مخالفین پر بڑے سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں اور عوام کو یقین دلایا
جاتاہے کہ لٹیروں سے ان کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب لیا جائیگا لیکن اقتدار
میں آتے ہی دولت لوٹنے کا وہی پرانا کھیل خود بھی شروع کر دیتے ہیں اور لوٹ
کھسوٹ میں پہلے گروہ کو مات دے کر امارت کے سب سے بلند مقام پر برا جمان ہو
جاتے ہیں ۔ خالی خزانے کا رونا روتے ہیں لیکن جب اقتدار سے ر خصت ہوتے ہیں
تو پتہ چلتا ہے کہ خزانہ مزید خالی ہو گیا ہے اور ان کااپنا شمار پاکستان
کے امیر ترین اشخاص میں ہو گیا ہے۔کس کو الزام دیں کیونکہ سارے ہی لوٹنے کا
قصد کئے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ہمارے قائدین کی امارت کی ساری چمک دمک عوام کی
دولت کی بدولت ہے لیکن پھر بھی امانت و دیانت کی قسمیں کھانے سے باز نہیں
آتے ۔ وہ اسی طرح کی ملمع سازی سے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کا کھیل
کھیلتے رہتے ہیں اور ان کا مال بھی ہڑ پ کرتے جاتے ہیں۔ان کی یہی وارداتیں
انھیں امارت کی سب سے اونچی سیڑھی پر بٹھا دیتی ہیں لیکن عوام کو بیوقوف
بنانے کی روش پھر بھی نہیں چھو ڑتے بلکہ وقت کے ساتھ ان کی ہوس پرستی میں
اضافہ ہو تا جاتاہے۔ عوام کی سادہ لوحی دیکھئے کہ جس کے سبب ہوئے بیمار اسی
عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ۔ عوام ایسے راہنماؤں کے ہاتھوں بیوقوف بننے
اور انھیں ان داتا سمجھنے سے باز نہیں آتے بلکہ الٹا ان کی امانت و دیانت
کی قسمیں کھاتے اور ان کی پاکدامنی کی دہائی دیتے ہیں حالانکہ حالات و
واقعات اس بات کے گواہ ہوتے ہیں کہ یہ قائدین لوٹ مار میں اپنا ثانی نہیں
رکھتے۔
پاکستان پر آجکل ایک ایسے ہی گروہ کی حکمرانی ہے جو اپنے دوستوں کے ساتھ مل
کر اسے لوٹنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں ۔شوگر کی ملیں، آٹے کی ملیں، سمینٹ
کی ملیں، گھی کی ملیں، شیشے کی ملیں، کپڑے کی ملیں ،لوہے کی ملیں اور اسی
طرح کی بہت سی دوسری ملیں حکمران طبقوں کے قبضے میں ہیں۔یہ ساری ملیں
بینکوں کے قرضوں سے بنائی گئی ہیں جسے بعد میں معاف بھی کر وا لیا جاتا
ہے۔اس حمام میں چونکہ سارے ننگے ہیں اس لئے سیاسی بیانات کے علاوہ لوٹ مار
پر کسی لٹیرے کو کبھی بھی سزا نہیں دلوائی جاتی کیونکہ اس طرح ایک دن خود
بھی پھنس جانے کادھڑکا لگا ہوتا ہے۔ا ربوں روپوں کے قرض ہیں جوہما رے سیاسی
راہنماؤں نے معاف کروائے ہیں۔عدالتوں نے اس سلسلے میں کافی کوششیں کیں کہ
اس طرح کے قرضوں کی وصولی کی کوئی راہ نکل آئے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکیں
کیونکہ حکمرانوں کی ا عا نت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے اور حکمران اس طرح کی
اعانت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے اوگرہ کا
چیرمین توقیر صادق اگر ۸۶ ارب روپے ہڑپ کر سکتا ہے تو پھر وزیروں مشیروں
اور ممبرانِ اسمبلی کی پھرتیوں کا اندازہ کرنا چنداں دشوار نہیں ہونا
چائیے۔چور اچکے چوہدری تے غنڈی رن پردھان والا معاملہ ہے ۔معاشرے کے وہ
افراد جن کی امانت و دیانت کی گواہی دینے کیلئے کوئی شخص تیار نہیں ہوتا
ایسے ہی افراد کو حکومتی عمال بنا دیا جاتا ہے تا کہ گلشن کا کاروبار چلتا
رہے۔یہ افراد اختیارات حاصل ہو جانے کے بعد جو طوفان مچاتے ہیں وہ کسی سے
ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ڈاکو لٹیروں اور سمگلروں کیلئے پاک دامن بننے کا ایک ہی
راستہ ہے کہ انتخا بات میں کسی اہم جماعت کا ٹکٹ خرید لیا جائے اور پھر
منتخب ہونے کے بعد ملکی خزانے کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو ایک سمگلر اور
ڈاکو کا وطیرہ ہوتا ہے۔لوگ جوشِ محبت میں پارٹی کے نامزد کردہ اس طرح کے
امیدواروں کو ووٹ تو دے دیتے ہیں لیکن پھر پچھتاتے رہتے ہیں کہ ان سے کتنی
بڑی کوتاہی ہو گئی ہے کیونکہ ایسے ممبران عوامی خدمت کی بجائے اپنی جیبیں
بھرنے کے مشن میں جٹ جاتے ہیں۔ملک غریب سے غر یب تر ہوتا جاتا ہے اور وہ
امیر سے امیر تر ہوتے جا تے ہیں۔پاکستان آج کل ایسے ہی گروہوں کی گرفت میں
ہے اور پاکستان کے عوام حیران و پریشان کھڑے سوچ رہے ہیں کہ ان سے کونسا
ایسا جرم سرزد ہو گیا ہے جس کی سزا انھیں یہ مل رہی ہے کہ لٹیرے اس ملک کے
حا کم بن گئے ہیں جھنیں عوامی خدمت کی بجائے اپنی دولت بڑھانے کی فکر دامن
گیر ہے۔۔
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی۔۔۔گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
(علامہ اقبال) |