پاکستان کے قیام کو آج ایک عرصہ ہو چلا ہے
اتنے عرصے میں تو دنیا کے کئی ممالک نے ترقی کے وہ زینے عبور کیے کہ دنیا
کے لئے مثال بن گئے مگر ہم آج بھی اسی کشمکش میں ہیں کہ ہمیں کرنا کیا ہے
ہمیں اپنے مسائل کا ادراک تو ہے مگر ان کے حل کرنے میں شاید ہم خود ہی
سنجیدہ نہیں ہیں پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان کی
حکمرانی کا اختیار دیا جاتا رہا ہے کہ جو اس کے قابل نہیں تھے اور جنہوں نے
اس کوصرف لوٹا ہے بنایا کچھ نہیں اور جو فرائض ان کے تھے ان کا غلط استعمال
کیا بلکہ مجرمانہ غفلت کا باعث بھی بنے اسی قسم کے حالات کے بارے میں راقم
نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اس ملک میں جو جتنا بھی بڑا کرپٹ ہوتا ہے اس کو
اتنا ہی بڑا عہدہ دیا جاتا ہے پاکستان کے عوام نے مئی میں ہونے والے
انتخابات میں تبدیلی کے لئے ووٹ دیا تھا کیوں کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے
ان کو سنائے جانے والے گانوں اور ترانوں سے لگ رہا تھا کہ یہ سیاسی جماعتیں
اپنے ماضی کو دفن کر چکی ہیں ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے انھوں نے وہ سبق
حاصل کر لیا جو کئی بھی نقصان اٹھانے کے بعد کرتا ہے لیکن شائد یہاں کا
قانون ذرا مختلف ہے جب یہ سیاسی لوگ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو ان کی زبان
اتنی میٹھی ہوتی ہے اور یہ عوام کے دکھ درد کو بہت قریب سمجھتے ہیں مگر جوں
ہی یہاں کے عوام ان کو اپنے ووٹوں سے اقتدار میں لاتے ہیں تو عوام کی اہمیت
انکے لئے ماسوائے کیڑوں مکوڑوں کچھ نہیں ہوتی۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ
سابق الیکشنوں میں عوام کو باور کرایا گیا کہ اب کی بار ملک میں تبدیلی آئے
گی اب کی بار عوام کے حالات بدلیں گے اب کی بار ملک کے معاشی حالات بدلیں
گے اب کی بار ترقی و کامرانی کی وہ راہیں کھلیں گی جن کے خواب عوام گزشتہ
ستر سالوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
اقتدار میں آنے والے اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا کام
نہیں کریں گے جس سے کسی کی حق تلفی ہو دوسرے لفظوں میں میرٹ اور سنیارٹی کو
ترجیح دی جائے گی مگر عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایسا بلکل بھی نہیں ہو رہا وہ
لوگ جو سابق صدر کے دست راست تھے ابھی اقتداری کشتی کے سوار بن چکے ہیں
شاید سابق صدر یہ نہیں جانتے تھے کہ ایسے( خوشامدی) لوگ صرف اور صرف اقتدار
کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں اگر ان لوگوں سے اقتدار کو چھین لیا جائے تو یہ
لوگ زندہ نہیں رہ سکتے ایسے ہی لوگ پاکستان کے مسائل میں اضافے کا سبب ہیں
کیونکہ ان لوگوں نے اپنے اقتدار کو زندہ رکھنے کے لئے ہر جائز و ناجائز کام
کرنا ہے ان کے لئے ملک اہم نہیں ہے بلکہ ان کے لئے اپنے ذاتی مفاد سے آگے
کچھ بھی اہم نہیں ہوتا اب ذرا غور کریں تو کتنے ہی ایسے لوگ آپ کو وزیر
اعظم اور صدر ہاؤس کے اردگرد نظر آئیں گے جنھوں نے اس مشکل وقت میں میاں
صاحب کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کر لی تھی مگر اب وہ ان کے بہت قریب
سمجھے جاتے ہیں یہاں کسی کا نام لینا مناسب نہیں ہے کیونکہ اب پاکستانی
عوام باشعور ہو چکی ہیں وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ گزشتہ ستر سالوں سے ان کے
ساتھ کیا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے مئی کے الیکشنوں میں ایسا محسوس ہو رہا
تھا کہ عوام بہت خوش ہیں کیونکہ ان کو لگ رہا تھا کہ ان کے ووٹ سے وہ
تبدیلی آ چکی ہے جس کے بعد اب ان کی قسمت بھی تبدیل ہو جائے گی ان کی
زندگیوں سے جڑے بحرانوں کا خاتمہ ہو جائے گا بجلی کی لوڈ شیدنگ سے نجات مل
جائے گی گیس کی لائیں ختم ہو جائیں گی مہنگائی ،بے روزگاری ، کا خاتمہ ہو
جائیگا ، امن و مان کی صورت حال بہتر ہو جائے گی مگر۔۔۔۔۔کیا کچھ بدلا اس
کا جواب سب جانتے ہیں بدلا تو کچھ بھی نہیں مگر ان مسائل میں خاطر خواہ
اضافہ ضرور ہوا ہے اس کی وجو ہات کیا ہیں یہ سب جاننا چاہتے ہیں کیونکہ
مسلم لیگ ن وہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کے پاس سب سے اچھی ٹیم تھی جو ان
مسائل کو حل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی لیکن مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت
اس ویژن سے ہٹتی جا رہی ہے جس کے خواب وہ بیرون ملک جب جلا وطنی میں تھے تو
دیکھا کرتے تھے سنیارٹی کا تحفظ ، عوامی مسائل کا ادراک ، مہنگائی بے
روزگاری کا خاتمہ،روزگار کی فراہمی ملکی معیشت کی بہتر ی وغیرہ۔
آج اگر دیکھا جائے تو حکومت نے ان تمام چیزون کو پس پشت ڈال کر وہی سابقہ
دور والی پالیسی شروع کر دی ہے سنیارٹی کے تحفظ کے بجائے ذاتی پسند اور
ناپسند کو سامنے رکھا جا رہا ہے اداروں کا تحفظ کرنے کے بجائے شخصیات کا
تحفظ کیا جا رہا ہے عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی ذاتی رنجشوں کا
بدلہ لیاجا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے کہ جس
تبدیلی کے لئے انھوں نے ووٹ دیے تھے وہ تو ان کو نظر نہیں آ رہی عوم کی بد
دلی کو ختم کرنے کے لئے حکومت کو واضح اقدامات کرنے ہوں گے بحرانوں کے
خاتمے نمائشی نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے ذاتی رنجشوں کو پس پش
ڈالتے ہوئے انصاف امن و مان کا بول بالا کرنا ہو گا وہ لوگ جو راستے سے
بھٹک کر غیروں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں انھیں سیدھے راستے پر لانا ہو گا اس
کے لیے مذاکرات کا راستہ سب سے اہم ہے جس کے لئے راہ ہموار کرنا حکومت کی
ذمہ داری ہے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اس جنگ کو ختم کرنا ہو گا
جو ہماری ہے ہی نہیں اور جس میں پاکستان کا اتنا بڑا نقصان ہو چکا ہے جو
بھارت کے ساتھ کئی جنگیں لڑکر بھی نہیں ہوا تھا اگر تو حکومت نے ایسے
اقدامات کر لئے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں عوام کے سامنے بہت سے آپشن
کھلے ہوئے ہیں اور جن کا ستعمال کرنا اب ان کے لئے کوئی مشکل بھی نہیں ۔ |