اکثر دکانوں پر آپ نے یہ جملہ لکھا دیکھا
ہوگا کہ"کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے"بظاہر تو یہ چھوٹاسا،سادہ سا اور
کچھ کچھ مزاحیہ جملہ لگتا ہے۔لیکن اس ایک جملے سے کشمیر کے حوالے سے عوامی
سوچ کی عکاسی ہوتی ہے کہ کشمیر آزاد ہوگا نہ ادھار کا سلسلہ شروع ہو سکے
گا۔عوام میں یہ سوچ کیونکر اور کیسے پیدا ہوئی ،جب کہ اس سے پہلے دکانوں پر
یہ جملہ لکھا ہو تا تھا ـ"کشمیر کی آزادی تک جنگ جاری رہے گی"عوامی سوچ اور
رجحان میں یکدم یو ٹرن کیوں ہوا ۔اس کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ یہ تاریخ ہمارے
حکمرانوں کی بے حسی،عدم دلچسپی ہی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کی تاریخ
ہے۔بالخصوص فوجی حکمرانوں کا اس میں ذیادہ حصہ ہے اس لیے کہ ملک کی 67سالہ
حکمرانی میں 34سال براہ راست فوج حکمرانی کرتی رہی ،جب کہ بقیہ ادوار میں
بھی سیاسی حکومتیں اپنی خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے آزادانہ فیصلے نہ کر
سکیں ۔اس کا آغاز تب سے ہوتا ہے جب قائد اعظم نے جنرل گریسی سے کہا کہ
بھارتی افواج ہوائی جہاز کے ذریعے دہلی سے جموں میں اتری ہیں ،پاکستان کے
پاس زمینی راستہ کھلا اور کشادہ ہے اپنی فوج داخل کرکے بھارتی فوج کا
مقابلہ کیا جائے لیکن فوجی کمانڈر نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار
کردیا۔یہاں سے ایک ضمنی بات یہ بھی سامنے آتی ہے ،جو اس موضوع کا عنوان تو
نہیں ہے لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے اولین دور سے ہی
جس میں قائد اعظم جیسی ولولہ انگیز قیادت موجود تھی ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ
سیاسی قیادت پر حاوی رہی ۔پھر اس وقت یہی قبائلی مجاھدین تھے ،آج جن پر
ڈرون برسا کر ان کے بچوں اور عورتوں کے چیتھڑے اڑائے جارہے ہیں، نے کشمیر
جاکر بھارتی غاصب فوجوں کا مقابلہ کیا اور69547مربع میل رقبے پر مشتمل
ریاست کشمیر سے تقریباَ25000مربع میل کا علاقہ آزاد کرالیا بھارتی حکومت نے
جب یہ دیکھا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پورا کشمیر ہاتھ سے نکل
جائے گا تو29جنوری1948بھارتی حکومت نے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی
کہ عنقریب کشمیر میں رائے شماری کراکے کشمیریوں کی خواہش کے مطابق کشمیر کے
مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا پھر پاکستان کو مجبور کیا گیا کہ وہ قبائلیوں
کو کشمیر سے واپس بلائے ،اس وقت بھی قبائلی مجاھدین نے بے سروسامانی کے
عالم میں جس جوش اور جذبے سے بھارتی فوج کا مقابلہ کیا وہ تاریخ کا ایسا
اہم واقعہ ہے جس پر بہت کم لکھا گیا ۔بھارت نے 1971میں امریکا،روس،مغربی
ممالک اور تمام عالمی قوتوں کی مدد سے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا اور محصور
پاکستانی فوجوں کی ہر طرف سے سپلائی لائن کاٹ کر انھیں ہتھیار ڈالنے پر
مجبور کیا ۔جب کہ کشمیرمیں قبائلی مجاھدین کو پاکستان کی اخلاقی حمایت کے
سواکسی ملک کی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن پھر بھی کل رقبے کا 36%آزاد کرالیا
جو آزاد کشمیر کے نام سے قائم ہے اور مظفرآباد اس کا دارالحکومت ہے ۔جب کے
مقبوضہ کشمیر کا دارالحکومت جموں ہے اور اس کارقبہ 39120مربع میل ہے ۔ اس
کے بعد پاکستان کو کئی ایسے مواقع ملے جس میں کشمیر کو آزاد کرایا جاسکتا
تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مواقعوں کو
ضائع کردیا ۔1962میں جب چین اور بھارت کی جنگ ہو رہی تھی اس وقت چین کی طرف
سے یہ پیغام آیا کہ پاکستان کشمیر پر حملہ کر کے کشمیری مسلمانوں کو بھارتی
تسلط سے آزاد کرا سکتا ہے ۔یہ ایسا موقعہ تھا کہ اگر بات سلامتی کونسل تک
جاتی اور فوری طور سے پاکستان اور بھارت سے جنگ بندکرنے کو کہا جاتا تو چین
اسے ویٹو کرسکتا تھا ۔لیکن امریکا کے دباؤ میں آکر ایوب خان صاحب یہ ہمت نہ
کر سکے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ چین کی طرف سے اس پیشکش میں کشمیر اور
پاکستان کے مسئلے سے دلچسپی کم اور اپنے وقتی مفادات کے حصول میں دلچسپی
زیادہ تھی لیکن یہ بہر حال ایک سنہری موقعہ تھا جسے گنوا دیا گیا۔1964میں
بی ڈی نظام کے تحت صدارتی انتخابات ہوئے اس میں جس طرح منظم انداز میں بڑے
پیمانے پر دھاندلی کر کے بی ڈی ممبران کو خرید کر فاطمہ جناح کو ہرایا گیا
اس نے ایوب کی سیاسی حیثیت کو بہت نقصان پہنچایا۔گو کہ بیلٹ کے ذریعے ایوب
خان صاحب انتخاب جیت کراپنی حکمرانی کا تسلسل قائم رکھنے میں کامیاب ہوچکے
تھے لیکن عوام میں ان کی اخلاقی پوزیشن اس سے بھی زیادہ نیچے چلی گئی تھی
جب وہ 1958میں مارشل لاء نافذ کرکے حکمران بنے تھے ۔ ان کی یہ اخلاقی
پوزیشن بالکل اسی طرح تھی ،جس طرح پرویز مشرف کی سیاسی و اخلاقی پوزیشن
2007کے اقدام کے وقت ہوگئی تھی ۔جس طرح اکتوبر 1958میں ایوب خان کی حیثیت
عوام کی نظروں میں کچھ بہتر تھی اسی طرح پرویز مشرف کی اکتوبر1999پوزیشن
تھی دونوں فوجی حکمرانوں کے درمیان یہ ایک قدرتی یکسانیت ہے۔ایوب خان صاحب
نے عوام میں اپنی سیاسی و اخلاقی پوزیشن اور ہیرو بننے کی کوشش میں کشمیر
کے حوالے سے کچھ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔کچھ فوجیوں کو مجاھدین کے
روپ میں مقبوضہ کشمیر بھیجا گیا اور وہاں ایک خاموش جنگ شروع ہوئی دوسری
طرف اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو یقین دلایا کہ
بین الاقوامی ضمانتیں حاصل کرلی گئیں ہیں ہندوستان بین الاقوامی سرحدیں
عبور نہیں کرے گا ۔لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں تھا اور ایک ناقص منصوبہ
بندی کی وجہ سے 1965کی جنگ ہوئی۔ویسے تو اس جنگ میں پاکستان کا پلڑا بھاری
رہا لیکن کشمیر جس کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی معاہدہ تاشقند میں اس کا
ذکر تک نہ تھا ۔اور اس طرح ہم میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر
ہار گئے ۔ کشمیر اپنے حسن و خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔اس
میں بلند و بانگ پہاڑوں کے کئی سلسلے ہیں جن میں کوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم
قابل ذکر ہیں دریائے جہلم سری نگر سے ہوتا ہوا پاکستان کے علاقے میں داخل
ہوتا ہے دریائے سندھ بھی کشمیر کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اسی لیے
تو قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا ۔ کشمیر میں
مسلمانوں کی 547سال کی حکمرانی کے عرصے میں کشمیری باشندوں کی اکثریت نے
رفتہ رفتہ اسلام قبول کرلیا اس میں سید علی ہمدانی کا منفرد کردار ہے جو
شاہ ہمدان کے نام سے کشمیریوں میں مشہور ہیں۔1971میں سقوط ڈھاکا کے بعد
بھٹو اور اندرا گاندھی میں جو شملہ معاہدہ ہوا ،اس میں بہرحال کشمیر کا ذکر
ہوا گو کہ جنگ ہار جانے کی وجہ سے پاکستان کمزور پوزیشن میں تھا لیکن
مذاکرات کرنے والوں میں اگر عزم و اراد ہ ہو تو وہ کچھ نہ کچھ پیشرفت کر
لیتے ہیں ۔شملہ معاہدہ میں یہ بات طے کی گئی کہ کشمیر چونکہ پاکستان و
بھارت کے درمیان کا مسئلہ ہے اس لیے کسی دوسری قوت کی مداخلت کے بغیر دونوں
ممالک خود مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں گے ۔اس طرح کے معاہدے سے
بھارت نے شاید اپنے طور پر یہ کامیابی حاصل کی کہ اس طرح سلامتی کونسل کی
قرارداد سے اس کی جان چھوٹ جائے گی ۔پاکستان نے سیاسی طور پر یہ کامیابی
حاصل کی سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد کشمیر کا مسئلہ ختم نہیں ہوا
بلکہ یہ ایک زندہ مسئلہ ہے اور رہے گا جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکالا
جاتا۔پاکستان کے کئی حکمرانوں نے چیمپین بننے کی کوشش میں اصولی موقف کو
چھوڑ کر نئے نئے آپشن پیش کیے مگر انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔یہی وہ
مایوسی ہے جو عوام کو اپنی دکانوں پر نعرے اور جملے تبدیل کرنے پر مجبور
کرتی ہے ۔اس لیے کہ عام لوگ ہندو ذہنیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مذاکرات
اور بات چیت سے ہم بنیے سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے ۔اور جنگ تو کبھی کسی
مسئلے کا حل پیش نہیں کرسکی۔کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے برصغیر کی چار
قوتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا ۔پہلی قوت ہندوستان کی سیاسی حکومت ، دوسری
قوت بھارت کی فوجی اسٹبلشمنٹ،تیسری قوت پاکستان کی سیاسی حکومت جب کہ چوتھی
قوت پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ ہے ۔اب عام لوگ بھی یہ سمجھنے لگے ہیں دونوں
طرف کی فوجی قوتیں اس مسئلے کی آڑ میں اربوں روپوں کابجٹ حاصل کرتی ہیں
۔ویسے تو دفاعی بجٹ ہر ملک کی ضرورت ہے اور اس میں بھرپور رقم رکھی جاتی ہے
۔مگر پاکستان ہندوستان کا مسئلہ سب سے الگ ہے کہ ان کے دفاعی بجٹ پر کوئی
تنقید نہیں کرتا ۔دونوں ممالک کی سیاسی و فوجی قوتیں جب یکساں موقف اختیار
کر لیں گی اس وقت ہی کچھ پیشرفت ہو سکے گی۔عوامی سطح پر یہ مسئلہ مقامی
جہادی تنظیموں کے درمیان اتحاد اور مشترکہ اہدافی کارروائیوں سے نمایاں ہو
سکتا ہے ہندوستان باڑھ لگالے یا کوئی مضبوط دیوار کھڑی کرلے فوج آٹھ لاکھ
کے بجائے سولہ لاکھ ہو جائے جہادی تنظیمیں جتنا فعال ہوں گی اور پھر
پاکستان کی طرف سے انھیں سیاسی و خلاقی حمایت ملتی رہے گی یہ مسئلہ ازخود
اپنے حل کی طرف تیزی سے گامزن ہو جائے گا۔اب دکانوں پر یہ نعرہ لکھنے کی
ضرورت ہے اور ضرور لکھا جائے کہ"کشمیر کی آزادی تک جہاد جاری رہے گا،فی
الحال ادھاربندہے"جن لوگوں کو جہاد سے ڈر لگتاہے وہ ـ"جہاد " کی جگہ
"جدوجہد"لکھ سکتے ہیں۔ |