حکومت کا طالبان سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کا قیام
اور جوابا طالبان کی طرف سے شرکت پر آمادگی اور دو کمیٹیوں کے قیام سے ملک
کے اندر ایک نیا منظر نامہ تخلیق ہونے جا رہا ہے۔ او ر اب یہ امتحان ہے ۔
خاس طور پر اُن قوتوں کا جو کہ مذاکرات ہی کو اس مسئلہ کا اول و آخر حل
سمجھ رہے تھے۔ اور اپنی اس رائے میں کُچھ خلط بھی نہیں تھے۔
اس معاملہ کا سب سے اہم فریق حکومت ہے۔ جو کہ مُختلف کرداروں کا مجموعہ ہے۔
ایک اہم کردار بر سرِ اقتدار سیاسی قیادت کا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ
سیاسی قیادت کتنی با اختیار ہے۔ ابھی کُچھ دن قبل اسی قیادت کی بیانات سے
لگ رہا تھا کہ اِ نھوں نے مذاکرات کا باب بند کردیا ہے۔اور آپریشن کی تیاری
شروع کردی ہے۔ خود پارلیمان میں وزیر اعظم کی تقریر کے تمام دلائل آپریشن
کے حق میں تھے لیکن اچانک یہ کیا تبدیلی آگئی کہ مذاکرات کا ڈول ڈالا جانے
لگا۔اور وہ پیش رفت جو سالوں اور مہینوں میں نہیں ہو پا رہی تھی۔ اب دنوں
میں ہونے لگی۔با خبر حلقے پسِ دیوار عوامل سے خوب واقف ہیں۔ لیکن میں ذاتی
طور پر چونکہ مذاکرات کا حامی ہوں ۔ اس لیے یہ نہیں سوچ رہا کہ دھکا کس نے
دیا ہے؟ بلکہ سوچتا ہوں کہ د ھکا جس کسی نے بھی دیا ہے اچھے وقت پر دیا ہے۔
دوسرا کردا ر فوج کا ہے۔فوج یقیناًملک کی سرحدوں کی محافظ ہے۔ اور اس لحاظ
سے اس کا کردار نہایت اہم ہے لیکن اسے بحر حال سیاسی قیادت کے تابع ہونا
چاہیے۔یہ اس ملک کے لیے اس کے تمام اداروں کے لیے اور خو د فو ج کے لیے
نہایت ضروری ہے۔ فوجی قیادت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد فوج کو اس
دلدل سے نکالنے کی کو شش کرئے۔ اور اپنی تمام تر توجہ ملک کے مشرقی سرحدوں
کے تحفظ پر مرکوز کرئے۔
تیسرا اہم کردار امریکہ کا ہے۔ جو دراصل حکومت کی خارجہ پالیسی سے مشروط
ہے۔اس لیے اسے حکومت کے زمرے میں ہی شامل کیا جا رہا ہے۔ واقفانِ حال کا یہ
کہنا ہے کہ اپریل 2014 میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ جن کی مہم شروع
ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں شمالی وزیرستان میں پاک فوج کا آپریشن خود امریکہ
کے لیے پریشانیاں پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔ لہذا امریکی مفاد یہ ہے کہ
کسی بھی طرح وقت حاصل کیا جائے اور اس مجوزہ آپریشن کو ( جس کا سب سے زیادہ
مطالبہ امریکہ کی جانب سے کیا جا رہا ہے) موخر کیا جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو
کچھ عرصے کے لیے ہی سہی ڈرون حملے رک جائیں گے۔ ( جس کا عندیہ امریکی صدر
اوباما دے بھی چکے ہیں)
حکومت پاکستان کو اس وقفے سے فائدہ ضرور اُٹھانا چاہیے اور جب تک امریکہ
افغان انتخابات سے فارغ نہیں ہوتا مذاکرات کے اس سلسلے کو منطقی انجام تک
پہنچادینا چاہیے۔ بصورت دیگر امریکہ ان مذاکرات کو سپوتاز کرنے کے لیے
پھرکاروائی کرئے گا۔اور حکومت مشکل صورتحال میں پڑ جائے گی۔
دوسرا اہم فریق طالبان ہیں۔ حکومت کی مذاکراتی پیش کس کے نتیجے میں طالبا ن
نے دو کیٹیاں بنائیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف طالبان حد درجہ محتاط
ہیں۔ تو دوسری طرف مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں۔ مذاکرات کے اس سارے عمل کی
کامیابی میں اُس کے لیے کس قدر گنجائش موجود ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ سب سے
اہم ہے چونکہ ابھی تک طالبان کے مطالبات سامنے نہیں آئے لہذا اس حوالے سے
کوئی قیاس آرائی کرنا قبل از وقت بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔
مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی میں طالبان کے متعدد گروپوں کا کردار بھی
نہایت اہم ہے۔ 5 فروری کو پشاور میں خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 10
افراد جاں بحق ہوئے ابتدائی طور پر طالبان کے ترجمان نے اس وقعہ سے لا
تعلقی کا اظہار کیا۔ لیکن بعد میں طالبان کے ایک غیر معروف نمائندے نے میجر
مست گل کے ساتھ بیٹھ کر اس کی ذمہ داری قبول کرلی۔ یہ طالبان کا چیلنج ہے
کہ وہ اپنے اِ ن Splinter Groups کو کنٹرول کریں یا ان کے خلاف کا روائی
کریں۔ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ملک میں جاری فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے۔
ایک خاص گروپ شیعہ مخالف ہے۔اور اُن کے خلاف کاروائیاں کررہاہیاس گروپ کے
لیے امریکہ کی افغانستان میں موجودگی یا ڈرون حملے ایشو ہی نہیں ہیں۔ ابھی
تک یہ لوگ طالبان کی چھتری استعمال کررہے تھے اب وقت آگیا ہے کہ طالبان ان
کے بارے میں بھی اپنی پوزیشن واضح کریں۔
اس سلسلے میں ایک تیسرا فریق ہے جسے طالبان نے اپنے اور حکومت کے درمیان
ذریعہ بنایا ہے۔ یہ پانچ رکنی کمیٹی بھی بے حد اہم ہے۔ بد قسمتی سے عمران
خان اور مولانا فضل الرحمن نے اس میں شمولیت سے انکار کردیاہے جس پر افسوس
ہی کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ اہم ذریعہ اور واسطہ ہے۔اور دونوں
متحارب فریقین کو کس معائدہ تک پہنچانے میں ان کا کردار نہایت اہم ہوگا۔ اس
کمیٹی کو مزید وسیع ہونا چاہیے مولانا فضل الرحمن کو محظ مولانا سمیع الحق
یا عمران خان کی وجہ سے اس کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے دوسری طرف عمران خان
کو بھی اپنی طرف سے کوئی نمائندہ اس میں بھیجنا چاہیے ۔ اس کے ساتھ اگر
وفاق المدارس کو بھی اس میں نمائندگی دی جائے تو بہت بہتر ہوگا ۔
آخری بات یہ کہ حکومتی کمیٹی اگرچہ ملازمین پر مشتمل ہے۔ جن کو ٹیکنو کر
یٹس کی کمیٹی کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ کمیٹی اتنی با صلاحیت ہے کہ اس پیچیدہ
مسئلہ کا کوئی حل نکال سکے۔یا بس حکومت صرف وقت گزاری کے لیے ان کو استعمال
کر رہی ہے۔حکومت اگر سنجیدہ ہے تو شہباز شریف کو اس کمیٹی کا سربراہ بنائے
اس کے ساتھ پارلیمان میں موجود دیگر جماعتوں کو بھی اس میں نمائندگی دے
تاکہ صحیح معنوں میں یہ ایک با اختیار اور نمائندہ کمیٹی بن سکے ۔
اہم بات یہ کہ حکومت کو طالبان کی طرف سے نامزد سہولت کار یا رابطہ کار
کمیٹی کو بھی خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے اور ان پر خود بھی اعتماد کا
اظہار کرنا چاہیے اس سے خود حکومت کا اپنا کام نہایت آسان ہو جائے گا -
مذاکرات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
لیکن خود اس مذاکراتی عمل کے نتیجے میں بہت سے چہرے بے نقاب ہونگے۔ اور بہت
سارے کرداروں کا اخلاص نکھر کر سامنے آئے گا۔ |