بھارت پر حملے ،انصاف بمقابلہ اجتماعی ضمیر

9فروری
کشمیری حریت پسند رہنماء افضل گوروؒ کی پھانسی کی پہلی برسی کے حوالے سے لکھی گئی خصوصی تحریر

9فروری 2013تاریخ کا وہ تاریک دن ہے جب بھارتی عدلیہ نے انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں اڑا کر ، مکمل ثبوتوں کی عدم موجودگی کے باوجودبھارتی صدرو وزیراعظم کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے، محمد افضل گوروکو پھانسی دے دی۔

افضل گورو کو تیرہ دسمبر 2001 کو بھارت کی پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کے جرم میں چند دن بعد ہی گرفتار کر لیا گیا اور2002 میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی ، پراس پر کئی سالوں تک عمل درآمد نہ ہو سکا۔لیکن موجودہ بھارتی صدر نے عوام کے مردہ و بے حس ضمیر کے اطمینان کے لیے 2013میں افضل گورو کی پھانسی کی سزاپر عمل درآمد کرواتے ہوئے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا۔

آج افضل گورو کی پھانسی کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے، لیکن ابھی تک افضل گورو کی پھانسی قانونی ماہرین کے ضمیر پر ایک بوجھ بنی ہوئی ہے اور دنیا کا کوئی بھی عدلیہ کا ماہر اس پھانسی کے حوالے سے یہ نہیں کہہ سکا کہ اس میں انصاف کے تقاضوں کو نبھایاگیا ہے۔

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بھارتی پارلیمنٹ ، اور ممبئی حملے، یہ دو ایسے واقعات ہیں، جو بھارتی تاریخ کا مضبوط حصہ بن چکے ہیں۔ کئی سال گزر جانے کے باوجود ان حملوں کے پس پردہ محرکات، اسباب ،وجوہات اور ان کے سدباب کے حوالے سے نئے نئے تجزیے ، تبصرے اور تحقیقاتی رپورٹس منظر عام پر آ رہی ہیں۔ گزشتہ برس بعض بھارتی سرکاری اہلکاروں نے پارلیمنٹ و ممبئی حملوں کو بھارت ہی کی ایک سازش قرار دیا ہے۔

افضل گورو کی پھانسی سے چند ماہ قبل 21نومبر کو ممبئی حملوں کے واحد بچ جانے والے مبینہ ملزم اجمل قصاب کو بھی پھانسی کی سزا دی گئی۔ پھانسی کی یہ سزا 26نومبر کو ممبئی حملوں کی چوتھی برسی سے محض کچھ دن قبل دی گئی۔ افضل گورو کی طرح اجمل قصاب کو سنائی گئی سزا میں بھی اجمل قصاب کی گرفتاری سے لیکر اقبالی جرم تک بہت سے قانونی سقم موجود تھے ، لیکن معاملہ یہاں پر بھی قوم کے اجتماعی ضمیر کے اطمینان کا تھا۔ یہ جملہ میرا نہیں بلکہ افضل گورو کی پھانسی کے فیصلے پر بھارتی سپریم کورٹ کا نوٹ ہے کہ یہ فیصلہ قوم کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے سنایا گیا ہے۔

کئی دہائیوں سے کشمیر پر غاصبانہ طور پر قابض دنیا کی ایک بڑی نام نہاد جمہوری ریاست بھارت ، کشمیر میں اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کرنا اپنا حق سمجھتی ہے اور اسی طرح بھارتی قوم کا ضمیر اس بات پر مطمئن رہتا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور کشمیر کے سارے باسی آزادی کی فضاؤں میں پرامن و خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جو بھارت کے سیاست دانوں اور انتہاء پسند ہندو جماعتوں کے سربراہان کو کشمیر کے متعلق آنکھیں کھول کر وہاں ہونے والے ظلم کو دیکھنے سے روکے ہوئے ہے۔
جس وقت پرناب مکھر جی نے اجمل قصاب کی رحم کی اپیل مسترد کی اس وقت ان کے پاس سولہ افرادکی رحم کی اپیلیں پڑی ہوئی تھیں، لیکن ان میں جو درخواست مسترد ہونے کے لیے ان کے ہاتھ میں آئی وہ اجمل قصاب کی تھی۔ پھر کچھ ماہ بعد رحم کی درخواستوں میں سے ایک اور درخواست ان کے ہاتھ میں آئی اور یہ افضل گورو کی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق جس عرصہ میں افضل گورو اور اجمل قصاب کو پھانسی دی گئی اس وقت بھارت میں سزا ئے موت کے 435قیدی موجود تھے جن کی سزا پر عمل دارآمد کئی برسوں سے التوا کا شکار تھا ، مگر اجمل قصاب اور افضل گورو وہ پہلے دو افراد ہیں جن کو بھارتی تاریخ کے گزشتہ دس سالوں میں سزا ئے موت دی گئی، بھارتی عدلیہ کا یہ فیصلہ دنیا کے قانونی ماہرین کے لیے اب تک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ جو لوگ پہلے سے قطار میں تھے ان پر فیصلہ نہ کرکے اجمل قصاب و افضل گوروکے معاملے میں اتنی تیزی کیوں دکھائی گئی؟

افضل گورو اور اجمل قصاب کی پھانسی کے ساتھ ہی بھارتی پارلیمنٹ ، اور ممبئی حملوں کا قصہ تمام نہیں ہو جاتا بلکہ ممبئی حملوں کو پانچ سال بیت جانے کے باوجود آج بھی بھارت پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہا ہے ۔کشمیری حریت پسندوں کو بیرونی شدت پسند قرار دے کر آزادی کشمیر کی تحریک کو منفی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر نے کے ساتھ ساتھ اب تک ہزاروں کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے اور نہ جانے کتنے ہی ایسے ہیں جو بھارتی جیلوں میں بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے کئی سالوں سے قید ہیں۔

اس ظلم اور ناانصافی کے باوجود بھارت مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے دنیا کے ہر فورم پر ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے یہ رونا رو رہا ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا اور گرفتار ملزمان کو سزا نہیں دی جارہی۔حالانکہ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو 26نومبر 2008 کوممبئی کے مختلف مقامات پر حملوں کے آغاز کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے پاکستان کا نام لینا شروع کر دیا۔حملوں کے تیسرے اور آخری دن بھارت نے دعویٰ کیا کہ حملہ آور پاکستان میں اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں رہے ہیں۔

پاکستان نے بھارتی دباؤ میں آتے ہی پاکستان کی دینی و رفاہی جماعت پر پابندی عائد کر دی اور بھارت کی جانب سے دی گئی فہرست کے مطابق 6افراد کو بنا کسی ثبوت کے گرفتار کر لیا۔ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان میں کی گئی گرفتاریاں اور مقدمات صرف اور صرف عالمی دباؤ کی بنا پر ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ممبئی حملوں کے واحد ملزم اجمل قصاب نے پولیس کی حراست میں اعترافی بیان 17فروری کو دیا جبکہ پاکستان میں مولانا ذکی الرحمان لکھوی سمیت 5افراد کے خلاف اس سے قبل ہی 12فروری کو مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

اب ان افراد کے خلاف کیس گزشتہ پانچ سالوں سے چل رہا ہے۔ کیوں کہ ممبئی حملے بھارت کی سرزمین پر ہوئے ہیں اس لیے یہ ضروری تھا کہ بھارت گرفتار شدہ افراد پر فرد جرم عائد کروانے کے لیے حاصل شدہ ثبوت بھی فراہم کرتا لیکن اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھارت ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ بلکہ جو ثبوت اس نے فراہم بھی کیے ہیں ، پاکستانی عدالتوں نے انہیں قانونی ثبوتوں کے بجائے اخباری بیانات کا پلندہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔

اجمل قصاب پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عجلت میں پھانسی، ممبئی حملوں میں معاونت کے الزام میں گرفتار دو بھارتی باشندوں کی ہندوستانی عدالتوں کی جانب سے بوگس کیس ہونے کی بنا پر باعزت بری کر دینا اور پچھلے پانچ سالوں میں بھارت کی جانب سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکامی ، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کے یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ اس وجہ سے بھارتی عدم تعاون سے پاکستان میں چلنے والا ٹرائل انتہائی ست روی کا شکا ر ہے۔

اس صورتحال میں انسانی حقوق کے تقاضوں کے مطابق گزشتہ پانچ سال سے گرفتار ان افراد کے ساتھ سراسر زیادتی ہے کہ انہوں نے انصاف کے حصول کے لیے اور پیشی پر پیشی بھگتے ہوئے۔ اپنے اہل خانہ سے دور زندگی کے پانچ قیمتی سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزار دیئے ہیں۔

پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بیرونی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ممبئی حملوں میں گرفتار افراد کو باعزت طورپر بری کرے، جس طرح بھارت نے اپنے ملک کے گرفتار باشندوں فہیم انصاری اور صباح الدین کو باعزت طور پر بری کر دیا ہے۔ اس حوالے سے حقوق انسانی کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو بھی بھارت میں قید مظلوم کشمیری نوجوانوں اور پاکستان ابھی تک بلا کوئی الزام ثابت ہوئے گزشتہ پانچ سالوں سے قید ممبئی حملوں کے ملزمان کی رہائی کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Read More Articles by Muhammad Naeem : 20 Articles with 15558 views Member of KUJ | Sub-Editor/Reporter at Weekly Jarrar & KARACHIUPDATES |Columnist | http://www.facebook.com/Tabssumnaeem
.. View More