۱۱ فروری کا دن ریاست میں ہر خاص و عام کیلئے کسی تعارف
کا محتاج نہیں، جب ریاست کے ایک عظیم سپوت کو دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ
دار پہ لٹکاکراسے ہموطنوں کی نمائندگی کرنے پر شہید کر دیا گیا ، مسئلہ
کشمیر کی حقیقت اور مادر وطن کی غلامی کا حقیقی سبب کیا رہا ہے وہ یہ راز
جان گئے تھے،اور یہی ان کا جرم وفا ٹھہرا،اور دشمن نے سمجھا کہ اگر انہیں
زندہ رہنے دیا گیا تو شائد انکے وہ خواب جو ریاست بابت انہوں نے دیکھ رکھے
تھے کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں گے ۔
اس اندوناک واقع کے بعد ریاست میں خامشی چھا گئی جو بلا شعبہ کسی انجانے
طوفان کا پیش خیمہ تھی۔اسکے ساتھ ہی ریاست کے اس حصے میں انتخابات کا
انعقاد کروایا گیا ۔اس بار ان انتخابات کی خاص بات اسمیں ایک نئے اتحاد
مسلم متحدہ محاز (مسلم یونائٹڈفرنٹ )کی شرکت تھی اور اس اتحاد کی بڑھتی
ہوئی مقبولیت سے بوکھلائے ہوئے بھارتی حکمرانوں نے کئی غیر اخلاقی و غیر
انسانی اقدام اٹھائے اور ’’مسلم یونائٹڈ فرنٹ ‘‘کو ناکام بنانے کیلئے ایڑی
چوٹی کا زور لگا دیا اور یوں وہ اتحاد جو اگلے روز یقینی کامیابی کے نشان
کو چھوو رہا تھا اسے راتو رات ،دھاندلی سے ناکام بنادیا گیا جسکے باعث
ریاستی عوام میں غم وغصہ فطریعمل تھا،اور دوسری جانب اسلام آباد کے فوجی
حکمراں بھی پنجاب اور کشمیر میں ایسی مواقع کی تلاش میں تھے جو وہاں کی
تحاریک کو جدید خطوط پہ استوار کر سکیں ۔
چالیس برسوں سے حق خود ارادیت کا وعدہ وفا نہ کرنا ،۱۱فروری 1984کو ریاست
کے عظیم گوریلہ لیڈر ’’محمد مقبول بٹ ‘‘کی شہادت اور پھر عام انتخابات میں
ریاستی عوام کے ووٹ کے حق پہ شب خون مارنے سے ریاست کی سیاسی فضا یکدم
تبدیل ہوئی اور اس اضطراب کی کیفیت میں عوام کا غصہ خطرے کے نشاں سے آگے
بڑھا، تو انہوں نے غلامی کے ان طویل گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات کیلئے
ہتھیار اٹھا لئے اور31جولائی1988کو بھارتی حکمرانی کیخلاف مسلح جدوجہد کا
آغاز ہوگیا ۔۔۔فضا آزادی کے دلفریب نعروں سے گونجنے لگی اوریہ تحریک قطعی
طور پر شہید کشمیر ’’محمد مقبول بٹ ‘‘کے نظریات و وژن ہی نہیں بلکہ پوری
قوم کی امنگوں کی ترجمان ثابت ہوئی ۔لبریشن فرنٹ کے اس اقدام نے تحریک
آزادی کشمیر کو مقبولیت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا یہی وجہ تھی کے اسے
راتو رات تاریخی عروج ملا یہاں تک کہ وہ بھارت جو کل تک مسئلہ کشمیر پر بات
تک کرنے کو تیار نہ تھا وہاں اس بات کے چرچے عام ہوئے کہ کشمیر اب بھارت کے
ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔اس اثنا ء میں اسلام آباد جو اس تحریک کا سب سے بڑا
خیر خواہ تھا تحریک آزادی کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش میں مصروف
ہوا۔۔۔اوریہاس کی یہ خواہش جوں جوں بڑھتی گئی ،بد اعتمادی میں روز افزوں
اضافہ ہوتا رہااور سازشیں پنپنے لگیں نتیجتاً میدان کار زارمیں ریاستی عوام
کی وہ قوت جو دشمن کیخلاف استعمال ہونا چاہیے تھی ایک دوسرے کے خلاف
استعمال ہونے لگی اور تحریکی سواد اعظم لبریشن فرنٹ کو مشکلات کا سامنا
پڑھا اور اسے تقسیم کے بھیانک دور سے گزرنا پڑھا اور اس سے علیحدگی اختیار
کرنے والے اپنے اپنے نام سے منسوب دھڑے قائم کر کے ایک دوسرے کیخلاف صف آرا
ہونے لگے اور جو ہاتھ دشمن کی شہ رگ پہ ہونے چاہیے تھے ایک دوسرے کے
گریبانوں تک پہنچے ۔اسکے پیچھے جو عوامل کارفرماتھے وہ اپنی کامیابی کیلئے
کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے۔جسکا ثبوت یہ کافی ہے کہ پاکستان کے تین
بار وزیر مملکت رہنے والے کشمیری نژاد وزیر مملکت کی موجودگی میں شہید
کشمیر کے دست راست قائد تحریک امان لﷲ خان کو اربوں روپئے کا پیکیج پیشکش
کی گئی اور کہا گیا کہ یہ سب آپ کو ملیگا بدلے میں آپکو صرف اپنے نظریات ،
اغراض و مقاصد کو بدلنا ہوگا لیکن انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیاتب اسلام
آباد حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ تمام مراحات و سہولیات جماعت اسلامی
پاکستان کو تفویض کر دی جائیں اور ایسا ہی ہواجس کے بعد جماعت اسلامی
پاکستان نے وہاں حذب المجائدین کو مضبوط کیا ۔ ان کٹھن اور نامصاعد حالات
کے باوجود لبریشن فرنٹ نے جدوجہد کو جاری رکھا اور تحریک آزادی میں خاطر
خواہ کامیابیاں ملتی رہیں اور اہم بات یہ کہ جوں جوں تحریک آزادی آگے بڑھتی
رہی گیارہ فروری کے دن کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوتا رہا اورظالموں کے جور
وستم کے باوجود ’’یوم مقبول ‘‘ریاست کے طول وعرض میں ہی نہیں پوری دنیا میں
موجود کشمیریوں کے لئے اہمیت اختیار کر گیااورہر سال اسے بڑے تزک و احتشام
سے منایا جانے لگا۔تب 1990 میں قاضی حسین احمد مرحوم جو اس وقت جمات اسلامی
پاکستان کے امیر تھے نے جماعت کی جانب سے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر
منانے کا علان کیا جبکہ لبریشن فرنٹ سے ناراض پاکستانی حکمرانوں نے اسکی
مکمل حمایت کی ۔اور اس طرح پانچ فروری یوم کشمیر بننے لگا ۔اور ریاست جموں
کشمیر کی تحریک آزادی جسے ریاست کے محکوم ومظلوم عوام نے اپنے خون سے سینچا
کو ہتھیانے اور گیارہ فروری کے تاریخی دن کی اہمیت کو کم کرنے کیلئے اس طرح
کے گھناؤنے کھیل کھیلے گئے جسکا انجام سب کے سامنے ہے۔یاد رہے اس سے پہلے
ستر کی دہائی میں ریاست کے اس پار سے ایک وفد وزیر اعظم زیڈ اے بھٹو کے پاس
مسئلہ کشمیر پر بات کرنے آیا تھا،اور اس وقت کے وزیراعظم نے ان پر واضع کر
دیا تھا کہ ہم شملہ معائدہ کے بعد مجبور ہیں مسئلہ کشمیر پر آپ کی کوئی مدد
نہیں کر سکتے آپ کو بھارت سے جو ملتا ہے لے کر صلح کر لیں ،جس کے نتیجہ میں’’
اندرا،عبداﷲ ایکارڈ 74‘‘ہوا تھا۔اور تب اسلام آباد کے حکمرانوں نے اپنی
حماقت پر پردہ ڈالنے کی خاطر اس ’’اندرا ،عبداﷲ‘‘ معائدے کے رد عمل کے طور
پر 5فروری 74کو یوم یکجہتی کا علان کیا تھا اور یہ صرف دو سال تک بنتارہا
اور اس کے بعد اسلام آباد کی ایما ء پر اسے نوے میں دہرایا جانے لگا اور ان
دونوں ادوار میں اس دن کو منانے کے پیچھے یہ بھیانک حقائق ہیں۔۔۔
کسی بھی ملک کی معیشت میں گھنٹے اور منٹ بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور جب
کوئی ملک ایک مکمل دن اپنا کاروبار بند رکھتا ہے تو وہ اربوں ڈالر کا نقصان
برداشت کرتا ہے سو اگر پانچ فروری کو اہل پاکستان پورہ دن اپنا کاروبار بند
رکھتے ہیں انکی محبت اور ہمدردی کو کبھی نظر انداز نہیں جا سکتا لیکن ان کا
کیا کیجیے جنہوں نے ہمیشہ اپنے ہی عوام کواندھیرے میں رکھا اور انہیں یہ
بتایا گیا کے وہ کشمیری عوام سے یکجہتی کر رہے ہیں مگر معصوم پاکستانی عوام
کو یہ علم نہیں کہ انہیں جو بتایا جاتا رہا وہ کتنا بڑا فریب ہے جھوٹ اور
مکاری ہے ۔ اسلئے اہل پاکستان کو چاہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی فریبکاریوں
کا حصہ بنتے ہوئے اتنا بڑا نقصان نہ کریں کیونکہ اسکا ہمیں کچھ فائدہ نہیں
ہونا اسلئے اگر آپکو ہمارے ساتھ یکجہتی کرنا ہے تو ۱۳ اگست کو یا گیارہ
فروری کو کریں جو کہ کشمیر کی تاریخ کے اہم ترین دن ہیں ۱۳ اگست جب دنیا نے
ہمارے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور دوسرا جب دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت
کے دعویداروں نے آزادی کا مطالبہ کرنے کے جرم میں’’ محمد مقبول بٹ‘‘ کو
شہید کر دیاتھا۔
|