ہیپاٹائٹس سی ۔۔۔۔ کچھ احتیاطی تدابیر

ڈاکٹر مبشر ندیم

ایک محترم دوست نے کافی عرصہ پہلے مشورہ دیا کہ دیگر موضوعات کیساتھ ساتھ صحت سے متعلق بھی کچھ لکھا کروں۔ آج میں نے سوچا اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے قارئین کو کسی ایسے مرض سے بچنے کی کچھ تدابیر بتائی جائیں جو مرض تو عام اور خطر ناک ہو مگر اس کے بچنے کی تدابیر سادہ اور آسان ہوں ۔ ہیپاٹائٹس سی ایک ایسا ہی مرض ہے ، یہ کالے یرقان کی ایک قسم ہے اور اکثر لوگوں کو اس بات کا تو علم ہے کہ کہ یہ ایک جان لیوا بیماری ہے لیکن اس بات کا علم نہیں کہ کچھ آسان اور چھوٹی چھوٹی احتیاطی تدابیر اس مہلک مرض کو ان سے دور رکھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں ۔ہیپاٹائٹس سی پاکستان میں ایک وبائی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کی شرح مختلف تحقیقات کے مطابق پانچ سے سات فیصد تک ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ یہ وائرس ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقل ہوتا ہے اور اس منتقلی کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔ ان میں سے اکژ وجوہات ایسی ہیں کہ اگر ہم کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں تو اپنے آپ کو اس مرض سے بچا سکتے ہیں ۔

پاکستان میں اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ انجکشنز اور ڈرپ کا غیر ضروری استعمال ہے ۔ گلی محلوں میں موجود کلینکس پر بیٹھے جعلی ڈاکٹرز ،اور اب بہت سارے اصلی ڈاکٹرز بھی فوری آرام کیلئے مریض کو انجکشن ضرور لگاتے ہیں ۔ لوگ اب اس چیز کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جو ڈاکٹر انجکشن نہ لگائے اور جس کی دوائی سے مریض کو فوری آرام نہ آئے اسے ڈاکٹر ہی نہیں سمجھتے، اور کہیں بھی چلے جائیں معمولی بیماری کیلئے بھی انجکشن کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ یہ پریکٹس ان کیلئے کتنی خطرناک ہے، اور بار بار انجکشن اور ڈرپ لگوانے سے وہ ہیپاٹائٹس سی اور اس جیسی کئی اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ گلی محلوں کے ان کلینکس میں عموماََ کم خرچہ کر کے زیادہ کمانے کے چکر میں انسانی جانوں سے کھیلا جاتا ہے۔ موت کے یہ سوداگر کئی مریضوں کو انجکشن لگانے کیلئے ایک ہی سرنج اور کئی مریضوں کو ڈرپ لگانے کیلئے ایک ہی ڈرپ سیٹ (Drip Set) استعمال کرتے ہیں ، یوں خطرناک جراثیموں کو ایک مریض کے خون سے دوسرے مریض کے خون میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اگر نئی سرنج بھی استعمال کی جائے پھر بھی یہ خطرات رہتے ہیں، اس لئے کہ پاکستان میں ایک دفعہ استعمال ہونے والی سرنجوں اور سوئیوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا گھناؤنا کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔ کچھ غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ کمپنیاں اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں ۔

اَن پڑھ اور عام لوگ تو دور کی بات اکثر پڑھے لکھے حضرات بھی ان باتوں سے واقف نہیں کہ یہ غیرضروری انجکشن اور ڈرپ ان کیلئے کس قدر خطرناک ہیں ۔ مجھے ایک یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر میں کام کرنے کا اتفاق ہوا ، وہاں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طالب علم بھی معمولی نزلہ زکام ، بخار اور درد کیلئے انجکشن لگانے کا کہتے اور کبھی کبھی تو بغیر کسی بیماری کے طاقت کیلئے ڈرپ لگوانے کی خواہش کا بھی اظہار کرتے۔ جب ان کو بتایا جاتا کہ یہ عادت ان کیلئے کتنی نقصان دہ ہے اور ہیپاٹائٹس بی ، ہیپاٹائٹس سی اور ایڈز جیسی خطرناک بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے، تو ان میں کچھ اس بات کو انجکشن نہ لگانے کا بہانہ سمجھتے اور کچھ حیرت کا اظہار کرتے اور بتاتے کہ اس بات کا ان کو پہلی بار علم ہواہے اور وہ آئندہ احتیاط کریں گے ۔ اگر لوگ تھوڑی سی احتیاط کریں اور جب تک ضروری نہ ہو اور مستند ڈاکٹر تجویز نہ کرے تو انجکشن اور ڈرپ سے اجتناب کریں، اسی طرح اگر لگانے والے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور چند ٹکوں کے عوض لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کی بجائے صرف اسی مریض کو انجکشن اور ڈرپ لگائیں جس کو ضرورت ہو،اور ہر دفعہ معیاری کمپنی کی نئی سرنج اور نیا ڈرپ سیٹ استعمال کریں تو ہیپاٹائٹس اور اسی طرح کی دیگر خطرناک بیماریوں کے سیلاب کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ فٹ پاتھوں ، لاری اڈوں ، ریلوے سٹیشنوں اور دیگر پبلک مقامات پر بیٹھے ’’ڈینٹل سرجن‘‘ (دانتوں کے ڈاکٹر ) او ر ’’ ماہر امراض کان ‘‘ بھی ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہیں ۔ سٹریلائزیشن (آلات کو جراثیم سے پاک کرنے کا طریقہ) کے لفظ سے بھی شائد یہ لوگ واقف نہ ہوں ،اس لیے سٹریلائزیشن (Sterilization) کی ان سے کیا توقع ،میں نے تو سنا ہے کہ مریض کے دانت اور کان صاف کرنے کے بعد یہ لوگ آلات کو دوسرے مریض پر استعمال کرنے سے پہلے پانی سے دھونے کی بھی زحمت نہیں کرتے ،ان لوگوں سے دوری بھی ہیپاٹائٹس سی سے بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔ یہ نقلی سرجن ہی نہیں بعض اوقات اصلی سرجن بھی آلات جراحی مناسب سٹرلائزیشن کے بغیر استعمال کر لیتے ہیں ۔ عام لوگ تو اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے البتہ میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف اگر اپنی اوپر عائد ذمہ داریوں کو محسوس کرے تو ہیپاٹائٹس سی اور دیگر بہت ساری بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ خریدا ہوا اور غیر سکرین شدہ خون بھی ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کی اہم وجہ ہے اس لیے خون لگاتے اور لگواتے وقت بھی احتیاط بہت ضروری ہے ۔ جسم پر نام لکھوانے ، ٹیٹو بنوانے ، ناک اور کان چھدوانے والوں کو بھی ہیپاٹائٹس سی ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں بھی کئی لوگوں کیلئے ایک ہی سوئی استعمال کی جاتی ہے، ان غیر ضروری چیزوں سے بچنا چائیے ۔ باہر کیساتھ ساتھ گھر میں چھوٹی چھوٹی احتیاطیں بھی اس مرض کو آپ سے دور رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں، جیسے ایک دوسرے کے ٹوتھ برش، ریزر اور بلیڈ استعمال نہ کیے جائیں ۔ یہ بات البتہ قابل ذکر ہے کہ ساتھ کھانے پینے یا اٹھنے بیٹھنے سے یہ مرض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح جب بھی حجام کے پاس جائیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ حجام نے نیا بلیڈ استعمال کیا ہے ۔ ازدواجی تعلقات میں بھی اسلام کے سنہرے اصولوں پر عمل کر کے ہیپاٹائٹس بی سی اور ایڈز جیسے مہلک امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ چند چھوٹی چھوٹی احتیاطی تدابیر ہیں جو ہیپاٹائٹس سی کو آپ سے دور رکھنے میں اہم ردار ادا کر سکتی ہیں ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 12272 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More