ڈاکیاصدیق۔۔ڈاکٹرصدیق

صدیق نشتر میڈیکل کالج ملتان میں پاکستان پوسٹ کی طرف سے قائم پوسٹ آفس میں بطور ڈاکیا کام کرتا تھا ۔ ہسپتال کے مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں طرف حبیب بینک کی نشتر برانچ کے ساتھ یہ پوسٹ آفس تھا اور ڈاکیا صدیق یہیں سے ہمارے خطوط اور منی آرڈر لے کر انہیں ہاسٹلز میں تقسیم کرتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں موبائل فون اتنے عام نہیں تھے اور آن لائن بینکنگ نے بھی اتنی ترقی نہیں کی تھی،اس لیے گھروں سے رابطے کا اہم ذریعہ خط وکتابت تھی اور پیسے منگوانے کا محفوظ طریقہ منی آرڈر تھا۔ یہ پوسٹ آفس اور ڈاکیا صدیق ابھی بھی نشتر کا حصہ ہیں مجھے اس کا علم نہیں، کیونکہ 2004 ؁ء میں وہاں سے فارغ ہونے کے بعد میں خواہش کے باوجود دوبارہ کبھی ملتان نہیں جاسکا۔ نشتر میں موجود پاکستان پوسٹ کا یہ پوسٹ آفس ایک عام سا تھا پوسٹ آفس تھا، لیکن اس میں تعینات ڈاکیا صدیق کوئی عام ڈاکیا نہیں تھا ،وہ بیک وقت ڈاکیا بھی تھا اور ڈاکٹر بھی۔ تھرڈ ایئرایم بی بی ایس میں پہلی بار جب میرے ایک دوست ڈاکٹر ذوالفقار نے جو آ ج کل امریکہ میں ہوتے ہیں یہ بتایا کہ صدیق اپنے محلے میں ایک کلینک چلاتا ہے اور پورا محلہ اسے ڈاکٹر صدیق کے نام سے جانتا ہے تو مجھے یقین نہیں آیا ۔ وہ اگر یہ کہتے کہ فلاں ڈسپنسر ، فلاں وارڈ بوائے کا محلے میں کلینک ہے اور لوگ اسے ڈاکٹر کہتے ہیں تو میں فوراََ مان جاتا، وہ اگر یہ بھی کہتے کہ فلاں گیٹ کیپر ، ہسپتال میں کام کرنے والے فلاں سینیٹری ورکر یا صفائی والی ماسی کا کلینک ہے تو بھی شائد میں مان جاتا کہ یہ لوگ روزانہ کئی گھنٹے ہسپتال میں گزارتے ہیں اور ہسپتال کے ملازم ہیں اس لئے اس طرح کا کام کر سکتے ہیں، لیکن صدیق تو پاکستان پوسٹ کا ملازم تھا اور نشتر ہسپتال سے اس کا تعلق بس اتنا سا تھا کہ وہ ڈاکخانے سے ڈاک لے کر اسے تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ مجھے یقین دلانے کیلئے ڈاکٹر ذوالفقار مجھے صدیق کے کلینک پر لے گئے ،مجھے صحیح یاد نہیں کہ ہمارے ساتھ اور کون تھا البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ کچھ اور دوست بھی ہمراہ تھے ، غالباََایک ڈاکٹر عدنان کھوکھر تھے جو آج کل لاہور میں ہوتے ہیں اور دوسرے ڈاکٹر رضوان ناصر تھے جو آج کل سرگودھا میں آئی سرجن ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدیق کا کلینک کسی نواحی گاؤں میں نہیں تھا جہاں عموماََ صحت کی سہولیات نہیں ہوتیں ، لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں اس لئے کوئی بھی شخص جس کا ہسپتال سے تھوڑا بہت تعلق ہو اور جو چند دوائیوں کا نام جانتا ہو ڈاکٹر بن کر بیٹھ جاتا ہے ،بلکہ اس کا کلینک جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال نشتر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ریلوے سٹیشن کے قریب کسی محلے میں تھا ۔ جب ہم وہاں پہنچے توڈاکیا صدیق یعنی \"ڈاکٹر صدیق \"مریض دیکھنے میں مصروف تھا ۔ صدیق نے کلینک پر ایک کوالیفائیڈ ڈینٹل سرجن کو بھی بٹھا رکھا تھا ،ہماری موجودگی میں ایک مریض ڈینٹل سرجن کو چیک کروانے کے بعد صدیق کے پاس آیا اور پرچی اسے دکھاتے ہوئے کہنے لگا ڈاکٹر صاحب میں نے چھوٹے ڈاکٹر صاحب کو چیک کروایا ہے انہوں نے دانت کے درد کی یہ دوا لکھ کر دی ہے آپ مہربانی فرماکر دیکھ لیں کہ کیا انہوں نے ٹھیک دوا تجویز کی ہے؟ مجھے ان لوگوں کی جہالت پر غصہ آ رہا تھا، ساتھ ہی ان کی سادہ لوحی پر ترس بھی آ رہا تھا کہ وہ ایک کوالیفائیڈ ڈینٹل سرجن کو چھوٹا ڈاکٹر اور ڈاکیا صدیق کو بڑا ڈاکٹر سمجھ رہے تھے ۔ صدیق سے جب بات کی تو کہنے لگا تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا یہ ایک طرح سے چھوٹا سا \"کاروبار\" ہے جس سے اچھی گزر بسر ہو رہی ہے ۔ ڈاکیا صدیق اور اس کا ’’کاروبار‘‘ کچھ دن پہلے مجھے اس وقت دوبارہ یاد آیا جب میرے ایک اور دوست ڈاکٹر خلیل الرحمان نے ایک ایسے صاحب کا ذکر کیا جو ٹیچر ہیں لیکن گاؤں میں ایک عدد کلینک بھی چلا رہے ہیں ۔ در اصل ہمارے ہاں سادہ لوح افراد کی کوئی کمی نہیں جن کی سادہ لوحی اور جہالت کی وجہ سے ڈاکیا صدیق اور ان استاد محترم جیسے لوگوں کا کاروبار چل رہا ہے ، چل نہیں رہا بلکہ دوڑ رہا ہے۔ ذمہ دار صرف یہ سادہ لوح لوگ نہیں، بہت سارے بااختیار افراد بھی اس سب کے ذمہ دار ہیں،بلکہ اصل ذمہ دار وہی ہیں ۔ ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں نہیں ہزاروں عطائی ڈاکٹر بیٹھے ہیں، ڈاکیا صدیق توصرف نزلہ زکام ، بخار اور اس طرح کی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج کرتا تھا، یہاں تو ایسے عطائی ڈاکٹر بھی ہیں جنھوں نے کبھی ہسپتال کا منہ بھی نہیں دیکھا اور وہ ہر طرح کی بیماری کا علاج کر رہے ہیں ۔ بلڈ پریشر اور شوگر جیسے دائمی مرض ان کے ایک کورس سے مکمل ختم ہو جاتے ہیں، کینسر جیسے مرض کا علاج وہ بنا آپریشن اور کیمو تھراپی کے کرتے ہیں ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر لوگوں کو لوٹنے والے ان جعلی حکیموں اور ڈاکٹروں کے بڑے بڑے اشتہار آتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ڈاکٹر کی غفلت سے مریض کے جاں بحق ہونے پر لواحقین لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کر دیتے ہیں ، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے(ہر واقعہ میں ڈاکٹر کی غفلت ہوتی بھی نہیں ) ،لیکن ان عطائی ڈاکٹروں کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے پر نہ تو لواحقین کوئی احتجاج کرتے ہیں نہ میڈیا میں کوئی خبر آ تی ہے ۔ فریکچر کے مریض کی ٹانگ کے ساتھ وزن لٹکانے کیلئے رشتہ داروں سے اینٹیں منگوانے پر ڈاکٹر کو بر طرف کرنے والے خادم اعلیٰ کو بھی ان عطائی ڈاکٹروں کی پریکٹس پر کوئی اعتراض نہیں ۔

صرف عطائی ڈاکٹر وں کا ہی کیا ذکر ، مریضوں کو لوٹنے میں آج کل کوالیفائیڈ ڈاکٹر بھی عطائی ڈاکٹروں سے کچھ پیچھے نہیں، وہ بھی اپنے کلینکس اور ہسپتالوں کو ڈاکیا صدیق کی طرح کاروبار سمجھتے ہیں اور مریض کو گاہک ۔مگر یہ کاروبار بھی وہ ایمانداری سے نہیں کرتے، اگر اس کو کاروبار ہی سمجھا جائے اور اس کاروبار میں گاہک یعنی مریض کیساتھ ایمانداری کے ساتھ پیش آیاجائے تو مریضوں کی بہت ساری مشکلات کم ہو سکتی ہیں ۔ غیر ضروری ٹیسٹ ، غیر ضروری اور غیر معیاری ادویات اور غیر ضروری آپریشن سمیت بے شمار طریقوں سے مریضوں سے پیسے ہتھیائے جاتے ہیں۔ جب میں اپنے چاروں طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے میڈیکل پروفیشن میں ہر طرف ڈاکیے صدیق نظر آتے ہیں ، عطائی ڈاکٹروں کی صورت میں بیٹھے ڈاکیے صدیق ، بڑے بڑے ہسپتالوں میں بے شمار ڈگریاں لے کر بیٹھے ہوئے ڈاکیے صدیق ۔ بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے گویا ہر شعبے میں ڈاکیے صدیق بیٹھے ہوئے ہیں، ڈاکیا صدیق ایک ایسا شخص ہے جو ایسے مقام پر بیٹھا ہے جس کا وہ اہل نہیں اور پیسہ کمانا جس کی زندگی کا سب سے اہم مقصد ہے اورملک میں چاروں طرف یہی ہو رہا ہے ۔ سیاست میں، حکومت میں،صحافت میں ڈاکیے صدیق ، بیوروکریسی میں ڈاکیے صدیق ، درسگاہوں میں ، مسجدوں میں ، مدرسوں میں ڈاکیے صدیق ، غرض پورا ملک ہی ڈاکیا صدیق جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ، پھر کس سے کیا امید؟ ؟

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 12248 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More