تقسیم کشمیر ۔۔۔نا منظور

ڈاکٹر مبشر ندیم
پاکستان میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت آتے ہی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک بار پھر مختلف فارمولے منظر عام پر آنے شروع ہو گئے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت اس مسئلے کے حل میں کافی سنجیدہ ہے ۔ میاں صاحب کے پہلے دور ِ حکومت اور پرویزمشرف کے دور صدارت میں بھی اس طرح کی کچھ کوششیں کی گئیں لیکن بوجوہ یہ بار آور ثابت نہ ہو سکیں ۔ بھارت کی طرف سے بھی ان فارمولوں میں دلچسپی اس بات کی عکاس ہے کہ کئی دہائیوں کی دشمنی کے بعد پاکستان اور بھارت کے مقتدر حلقوں میں یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ برصغیر میں ترقی کیلئے خطے میں امن بہت ضروری ہے، اور امن کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے، جو دونوں ممالک کی غلط پالیسیوں اوربھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آج تک حل نہیں ہو سکا ۔ اب اس مسئلے کوحل کرنے کے لئے مختلف قسم کے فارمولے پیش کیے جارہے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی ایک فارمولے پر دونوں ممالک متفق ہو جائیں ۔ ایک فارمولا سٹیٹس کُو کا ہے جس میں موجودہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کی سفارش کی گئی ہے ۔ دوسرا اہم فارمولہ چناب فارمولے کے نام سے مشہور ہے،یہ پہلی بار ساٹھ کی دہائی میں پیش کیا گیا اس میں دریائے چناب کو مستقل سرحد بنانے کی بات کی گئی ہے ،اس صورت میں وادیٔ کشمیر،جموں کے مسلم اکثریتی علاقے ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کو مل جائیں گے جب کہ جموں کا بڑا حصہ بھارت کو۔چناب فارمولے میں ترامیم کر کے ایک نیا فارمولا بھی پیش کیا گیا ہے، اس میں وادی اوراس سے ملحقہ علاقوں کو ایک خود مختار ریاست بنانے کی تجویز دی گئی ہے،اس کے علاوہ جموں کو بھارت کا، جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا کہا گیا ہے۔ اسی طرح کے کئی اور فارمولے بھی زیر بحث ہیں ، لیکن ان تمام فارمولوں میں سوائے پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کے ایک قدر مشترک ہے، ان سب میں تقسیم کشمیر کی بات کی گئی ہے اورکشمیریوں کے مطالبہء حق خود ارادیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دونوں ممالک کی حکومتیں اور دونوں ممالک کے بااثر طبقے اس مسئلے کو ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے مستقبل کا مسئلہ نہی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک سرحدی تنازعہ سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فارمولوں میں کشمیری عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کے بالکل بر عکس اس مسئلے کاحل تقسیم کشمیربتایاگیاہے،یوں لگتاہے اس مسئلے سے جان چھڑائی جارہی ہے اور پاک بھارت دوستی کیلئے کشمیری عوام کی بَلی چڑھانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس طرح کے کسی فیصلے سے پاکستان اور بھارت میں تو شائد دوستی ہو جائے اور دونوں ممالک اپنے جنگی اخراجات کم کر کے ترقی کرنے میں بھی شائد کامیاب ہو جائیں لیکن اس سے نہ تو خطے میں پائیدار امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گا نہ ہی کشمیر ی عوام کی مشکلات میں کمی آئے گی،جو اس مسئلے کا بنیادی فریق ہیں۔ کشمیری اس طرح منقسم رہیں گے جیسے آج ہیں، جو حصے مستقل طور پر بھارت کے پاس چلے جائیں گے وہاں بھارت سے علیحدگی کی تحریک بھی جای رہے گی اور بھارت کا ظلم و جبر بھی۔ اس کے علاوہ جب کشمیرکومستقل بنیادوں پرتقسیم کردیاجائے گاتوسیاسی عدم استحکام اُن علاقوں تک بھی پھیل جائے گاجو پاکستان کو ملیں گے، پھر خطے میں امن کیسے آئے گا؟ اگر اسی طرح کی بندر بانٹ کرنی تھی تو پھر ان قربانیوں کا کیا فائدہ جو حریت پسند کشمیری عوام نے کشمیر کے سینے پر کھینچی گئی خونی لکیر کو مٹانے کیلئے دی ہیں؟

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ڈیڑھ کروڑ کشمیری تقسیم کشمیر کے کسی فارمولے کو ماننے کیلئے تیار ہو جائیں گے؟بھارتی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے وہ لوگ جو بھارت سے مکمل آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے طویل عرصے سے ایک صبر آزما جدو جہد کر رہے ہیں ان کوجب مستقل بھارت کے حوالے کرنے کی نوید سنائی جائے گی تو کیا وہ رضا مند ہو جائیں گے؟ دونوں اطراف کے وہ کشمیری جو خود مختار اور متحدہ کشمیر کیلئے تحریک چلا رہے ہیں ان کیلئے یہ سب قابل قبول ہو گا؟ الحاق پاکستان کے حامی جو سارے کشمیر کا الحاق پاکستان سے چاہتے ہیں کشمیر کے بڑا حصے بھارت کو دینے پر وہ خاموش بیٹھیں گے؟اس پاراوراُس پار کے کچھ مفادپرست سیاستدان جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے دہلی اور اسلام آباد کی ہر آواز پر لبیک کہتے رہے ہیں ممکن ہے کہ اس طرح کی کسی تجویز کو مان لیں، لیکن کشمیری عوام کی اکثریت ایسے کسی فیصلے کو قبول نہیں کرے گی ۔ ایسافارمولہ اگر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جائیں گے۔

دونوں ممالک گر واقعی اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ ہیں تومسئلہ کے بنیادی فریق یعنی کشمیری عوام کواعتماد میں لے کراس کا کوئی حل ڈھونڈیں۔ویسے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اس مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل صرف اور صرف آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری میں ہے ۔ کشمیری عوام کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا دونوں سے الگ ایک آزادریاست چاہتے ہیں ۔ استصواب رائے سے پہلے بھارت اور پاکستان دونوں اپنی اپنی فوج کشمیر سے نکال لیں تاکہ کوئی بھی رائے شماری پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ تینوں فریق(پاکستان،بھارت اور کشمیری عوام کے نمائندے)رائے شماری سے پہلے اس بات پر بھی اتفاق کر لیں کہ کشمیری عوام کی اکثریت جو فیصلہ کرے گی وہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔ ایک اور حل یہ ہے کہ خونی لکیر کو ختم کرکے کشمیر کو فوج سے پاک علاقہ قرار دے دیاجائے ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فارمولہ کوئی بھی ہواس پر غور کرنے سے پہلے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کوبہرحال اس بات کاخیال رکھناپڑے گاکہ کشمیری کسی بھی ایسے فارمولے پر عمل در آمد نہیں ہونے دیں گے جس میں تقسیم کشمیر کی بات کی گئی ہو ۔
Dr M. Nadeem
About the Author: Dr M. Nadeem Read More Articles by Dr M. Nadeem: 15 Articles with 12237 views A medical specialist working as Assistant Professor of Medicine in a Medical college and also a non professional columnist... View More