گزشتہ ہفتے نئے آرمی چیف کی
تقرری اور چیف جسٹس آف پاکستان کی نامزدگی جیسے دو اہم واقعات دیکھنے میں
آئے۔ دونوں تقرریاں بے حد اہمیت کی حامل ہیں اور مستقبل میں ملکی اور سیاسی
حالات پر اثرانداز ہو ں گی۔ جہاں تک چیف جسٹس کی تقر ری کا معاملہ ہے تو وہ
ایک خود کار طریقہ کار کے تحت عمل میں آتی ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم کا
کوئی صوابدیدی اختیار نہیں ہوتا ۔قانون کی رو سے سپریم کورٹ کا سینئیر ترین
جج اس عہدے کا حقدار ہو تا ہے۔ سو جسٹس تصدق جیلانی کی بطورِچیف جسٹس تقرری
سے سب آگا ہ تھے۔ مگر آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے تجسس پایا جاتا
تھاکہ وزیراعظم کی نگاہِ انتخاب کس پر ٹھہرتی ہے۔ سیاسی ، صحافتی اور عوامی
سطح پر کافی عرصہ سے جنرل کیانی کامتوقع جانشین موضوع گفتگو تھا۔ بالاخر
جنرل راحیل شریف کی بطور آرمی چیف تقرری سے وہ تجسس اور بے چینی اختتام
پذیر ہوئی۔ جنرل راحیل شریف مضبوط پیشہ وارانہ پس منظر کے حامل ہیں۔ انکی
تقرری کو تقریبا تمام حلقوں کی جانب سے خوش آمدید کہا گیا۔ میجر عزیز بھٹی
اور میجر شبیر شہید جیسے عظیم شہدا سے قریبی تعلق انکی عوامی سطح پر قبولیت
کا باعث بنا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ْفوج کے سربراہ کا چناؤ بے حد
اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ فوجی سربراہان کی تقرری کے معاملہ نے ہماری سیاست
اور سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ کمان کی یہ حالیہ تبدیلی ایک اہم
وقت پر عمل میں آئی ہے ۔اسوقت پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر
رہا ہے۔ داخلی اور خارجی سطح پرہمیں بہت سے چیلنجز در پیش ہیں ۔جنرل راحیل
شریف کو دہشت گردی سے متعلق پالیسی، امریکہ ، بھارت اور افغانستان سے
تعلقات جیسے اہم معاملات کاسامنا ہو گا۔ افغانستان سے اتحادی افواج کے
انخلا کے بعد کی صورتحال اور طالبان سے مذاکرات یا جنگ جیسے اہم معاملا ت
بھی انکی یکسوئی اور یکجہتی کے متقاضی ہو نگے۔
مستقبل قریب میں ایک انتہائی اہم معاملہ مشرف کیخلاف غداری کے مقدمے پر فوج
کا ردعمل ہے ۔ یہ معاملہ مستقبل کے سول ملٹری تعلقات کی صورت گری کرے گا۔
گرچہ جنرل راحیل کے پیشرو جنرل اشفاق کیانی،بیشتر پالیسی معاملات میں جنرل
مشرف کی پالیسیوں کے تسلسل پر مجبور تھے ۔مگر وہ ہمیشہ غیر جمہوری طرزِ عمل
سے گریزاں ، اپنے پیشہ وارنہ معاملات کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ جمہوریت
کے استحکام اور افواج کوسیاست زدگی سے بچائے رکھنے کے حوالے سے انکا کردار
بے مثال رہا۔ گزشتہ حکومت کی تمام تربد عنوانیوں اور نااہلی کے باوجودکسی
قسم کی مہم جوئی سے گریز کا جمہوری رویہ اپنائے رہے اورمعاملات ِ سیاست میں
دخیل ہونے سے اجتناب برتا۔ موجودہ حکومت کی طالبان سے مذاکرات کی پالیسی پر
آمادگی او ر دہشت گردوں کی جانب سے فوجی افسران کی ہلاکتوں پر تحمل مزاجی
کا مظاہرہ انکی جمہوریت شعاری کا مظہر تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنرل راحیل
شریف اپنے پیشرو کی جمہوریت پسند روایات کو کس قدر آگے بڑھاتے ہیں اور
غداری کیس کے حوالے سے کیا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسے خاندان
کے سپوت ہیں جس نے وطن کی حرمت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ امید
ہے کہ وہ وطنِ عزیز کے وقار اور استحکام کی خاطر اپنا وزن جمہوریت کے پلڑے
میں ڈالیں گے نہ کہ ایک دستور شکن کی حمایت میں ۔ امید قوی ہے کہ جنرل
کیانی نے جن صحت مند جمہوری روایات کی بنیاد رکھی ہے جنرل راحیل اپنے
جانشین کے لیے کئی گنا مستحکم روایات کی وراثت چھوڑ کر جائیں گے۔
عدالتی سطح پر ہونے والی تبدیلی بھی بے انتہا اہمیت کی حامل ہے ۔گرچہ اس
تبدیلی کے حوالے سے تجسس کا عنصر تو نہیں تھا مگر چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ
سے قبل حکو مت کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن پر تعجب کا اظہار کیا
جارہا ہے۔بعض حلقوں کیجانب سے یہ تاثردیا جا رہا ہے کہ چونکہ جسٹس افتخار
چوہدری نے لاپتہ افراد کے معاملہ پر وزیر دفاع یعنی نواز شریف کو عدالت میں
طلب کیا تھا ۔سو مقرر وقت سے پہلے جاری اس نوٹیفیکیشن کے ذریعے چیف جسٹس کو
کوئی سخت پیغام دینا مقصود تھا۔ یہی حلقے ماضی قریب میں چیف جسٹس کی مسلم
لیگ ن کے حوالے سے غیرجانب داری پر شک کا اظہار کرتے دیکھائی دیتے تھے اور
اب اس نوٹیفیکیشن میں سازش کی بوسو نگنے میں مصروف ہیں۔
اس معاملے میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کیونکہ چند روز میں بلدیاتی انتخابات
متوقع ہیں۔ انتخابات خواہ کسی بھی سطح پر ہوں بہت سے اختلافات اور متنازعہ
امور درپیش ہوتے ہیں۔ جسٹس تصدق جیلانی چونکہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنرکے
فرائض سرانجام دے رہے ہیں سو انہیں ان معاملات کی وجہ سے متنازعہ ہونے سے
بچانے کی غرض سے حکومت کیجانب سے یہ اقدام کیا گیا۔
درحقیقت نئے چیف جسٹس کو اس منصبِ بلند کے ساتھ بہت سی ذمہ داریا ں بھی
تفویض ہونگی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اس عہدے کی رفعت اور افتخار میں بے
پناہ اضافہ کیا۔انکی متعارف کردہ روایات کو آگے بڑھانا انکے جانشین کے لئے
کڑا امتحان ہوگا۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے آمرِ وقت سے ٹکر لی
اور کامران ٹھہرے۔ انہیں وہ بار عہدے سے ہٹایا گیا اور وہ عزت و تکریم سے
واپس آئے۔ عدلیہ بحالی تحریک کی قیادت کی اور سرخرو ہوئے۔ انکے دور میں
عدلیہ کا غیر معمولی تحرک دیکھنے میں آیا۔ وہ بد عنوانی کے بہت سے راستوں
کی رکاوٹ بنے رہے۔ اسٹیل ملز، این آئی سی ایل، این آر او جسیے معاملات میں
انکا کردار تاریخی تھا۔قابلِ تحسین امر ہے کہ عدلیہ نے بد عنوان اور نااہل
حکومت کی گرفت ضرورکی۔ مگر جمہوریت کی مضبوبی اور پا رلیمینٹ کے استحکام کا
باعث ہوئی۔ چیف جسٹس نے کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی صورت حکومت کا ساتھ
دینے کابارہا عندیہ دیا بلکہ مستقبل میں کسی آمر کا ساتھ دینے والے ججوں کو
نا اہل قرار دینے کے حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے عدلیہ کی پیشانی پر لگے
داغ دھو ڈالے اور اسکی ساکھ اور وقار میں اضافہ کیا۔
چیف جسٹس کاکردار قابل تعریف سہی مگران پر بعض حوالوں سے تنقید بھی
ہوئی۔تاثر رہا کہ بسا اوقات عدلیہ کی ضرورت سے ذیادہ دخل اندازی انتظامیہ
کے اختیارات سلب کرنے کا باعث بنی۔ تقرریوں اور تبادلوں جیسے معاملات میں
دخیل ہو کر انہوں نے عملی طورپر انتظامیہ کو بے بس بنائے رکھا ،۔ اپنی تمام
تر مثبت کارگردگی کے باوصف وہ نچلی سطح پر عدالتی نظام سے بد عنوانی کا
خاتمہ کر سکے اور نہ ہی فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات دیکھنے
میں آئے۔ بڑے بڑے سیاست دانوں اور افسران پر گرفت کرنے کے باوجود وکلاء
کیجانب سے ججوں ، پولیس اور عوام کے خلاف کی جانے والی متشددانہ کاروائیوں
کا نوٹس لینے سے تغافل برتا گیا۔ بعض اوقات میڈیا کی چکا چوند کا شکار ہونے
پر بھی انہیں تنقید کا سامنا رہا۔جسٹس تصدق جیلانی کو ان معاملات پر محتاط
رویہ اختیار کرتے ہوئے نسبتا معتدل طرز عمل اختیار کرنا ہو گا۔ ۔جس طرح
جنرل راحیل شریف سے جمہوریت پسند رویے کی توقع کی جارہی ہے۔ اسی طرح جسٹس
تصدق جیلانی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عدلیہ کی قابل تعریف روایات کی
پاسداری کریں۔پاکستان کے موجودہ حالات میں انکا طرزِ عمل اعتدال پسندی اور
میانہ روی کا متقاضی ہوگا۔ |