جس قوم میں شہید مقبول بٹ اور شہید افضل گورو جیسے جیالے
تختہ دار کو خوشی خوشی چوم لیں اس قوم کو بندوق اور ظاقت کے بل پر خریدنا ،
زیر کرنا یا غلام بنانا ممکن نہیں۔1947سے وقتا فوقتا کشمیری قوم پر متعدد
مواقع پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، کشمیریوں کی مبنی برحق جدوجہد کو دبانے کے
لئے سامراجی اور آمریت پر مبنی حربے آزمائے گئے۔9 فروری 2013کو رات کے
اندھیرے میں تمام مسلمہ انسانی اقدار ، عدل و انصاف کے تقاضوں اور انسانی
جذبوں اور رشتوں کو بڑی بے دردی سے پامال کرکے جس طرح ایک کشمیری سپوت محمد
افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اس سے بھارت کے ارباب اقتدار نے دنیا
کو یہی پیغام دیا کہ وہ طاقت کے بل پر کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں
کرسکتی اور اس انسانیت سوز واقعہ سے بھارتی عدلیہ انصاف اور جمہوریت کا اصل
چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا۔ بھارت ظلم و جبر کی پالیسی ، قدغنیں،
گرفتاریاں، نظر بندیاں اور مظلوم کشمیریوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے غیر
جمہوری اور نا انصافیوں پر مبنی حربوں سے کشمیری عوام کو مغلوب نہیں
کرسکتا۔ کشمیری قوم اپنے اوپر ڈھائے جا رہے مظالم کو کبھی بھول نہیں
پائیگی۔ لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جانوں کا بازی لگاکر مادر وطن کی آزادی
کیلئے قربانیاں دی ہیں لیکن اس فہرست میں فرزند کشمیر محمد افضل گورو کو یہ
امتیاز حاصل ہے کہ9 فروری 2013 کے روز انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا ان کی
جسد خاکی کو بھی بھارتی حکمرانوں نے واپس کرنے اور انہیں شایان شان طریقے
پرتجہیز و تکفین سے محروم رکھنے کا مذموم کھیل کھیلا۔کشمیری رہنما افضل
گورو کی پھانسی بھارت میں ظالمانہ عدالتی قتل ہے، گواہوں کی عدم دستیابی کے
باوجود افضل گورو شہید کو ٹرائل کیا گیا اور ایسے جرم میں سزا دی گئی جس سے
ا سکا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھانسی،بھارتی جمہوریت اور نام نہاد سیکولرازم
کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تختہ دار کو چومنے والے فرزند کشمیر محمدافضل گورو نے
بھی قوم کشمیراور دوسرے لاکھوں شہداء ہی ہمارے اصل ہیرو ہیں۔ تحریک آزادی
کے جیالوں کو یاد رکھنا زندہ اقوام کا شیوہ ہے۔شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کی
پھانسی کے 29 سال بعد ایک اور کشمیری نوجوان محمد افضل گرو کو بھارتی
پارلیمنٹ پر حملے کی سازش کے الزام میں تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔ بھارتی
صدر پرنب مکھرجی کی طرف سے رحم کی اپیل مسترد ہونے پر افضل گورو کو ہفتے کی
صبح پانچ بجکر پچیس منٹ پر پھانسی دیدی گئی۔ تہاڑ جیل حکام نے پھندے کے لیے
رسی ریاست بہار سے اور جلاد پڑوسی شہر میرٹھ سے تہاڑ جیل میں منگوایا گیا
تھا۔نئی دہلی کے نواح میں واقع تہار جیل میں افضل گرو کی سزائے موت پر عمل
درآمد کے موقع پر چند حکام و اہلکار موجود تھے۔ بسابق پھل فروش 50 سالہ
افضل گورو کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے سو پور سے تھا۔ اس پر 2001 میں
پارلیمنٹ پر حملے کی سازش اور حملہ آور عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا
الزام تھا۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آوروں کو پاکستانی
انٹیلیجنس کی حمایت حاصل تھی۔ یہ حملہ پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دہانے
پر لے گیا تھا اور دونوں ملکوں نے تقریبا آٹھ ماہ تک دس لاکھ فوجی اپنی
سرحدوں پر تعینات رکھے تھے۔تیرہ دسمبر 2001 کو پانچ مسلح باغیوں نے بھارتی
پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس حملے میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک مالی
ہلاک ہو گیا تھا جبکہ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں تمام حملہ آور
بھی مارے گئے تھے۔ اس حملے میں زخمی ہونے والا ایک صحافی کچھ مہینوں بعد
ہلاک ہو گیا تھا۔ گرو کے خلاف سزائے موت کے فیصلے پر احتجاج بھی ہوتا
رہا۔اس کی سزائے موت پر عملدرآمد بارہا مخر کیا گیا اور اس نے صدر کو بھیجی
گئی اپنی رحم کی اپیل میں اپنی قید کو انصاف کا جنازہ نکلنے کے مترادف قرار
دیا تھا۔انسانی حقوق کا ایک گروپ اس کی رہائی کے لیے مہم چلاتا رہا ہے۔ اس
گروپ میں وکلا بھی شامل تھے، جن کا کہنا تھا کہ اس کے مقدمے میں جھوٹے
شواہد سمیت بڑی پیچیدگیاں تھیں۔ افضل گرو کو بھارتی سپریم کورٹ نے 2004 میں
پھانسی کی سزا سنائی تھی اور اسے اکتوبر 2006 میں پھانسی دی جانی تھی تاہم
رحم کی اپیل دائر کیے جانے کی وجہ سے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا
گیا تھا۔ رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد افضل گرو کونو فروری کو پھانسی
دی گئی۔افضل گورو مقبوضہ کشمیر کے قصبے سوپور کے متوسط خاندان سے تعلق
رکھتے تھے۔ دوران تعلیم انہیں سکول میں بھارتی یوم آزادی کی پریڈ کی قیادت
کے لیے چنا جاتا تھا۔ بارہویں جماعت کے بعد ان کا رابطہ کشمیری حریت پسندوں
سے ہوا۔ سری نگرمیں بھارتی فوج کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے واقعے سے
انہیں صدمہ پہنچا جس کے بعد انہوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شمولیت
اختیار کر لی۔کچھ عرصہ بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور پرامن زندگی کا
آغاز کیا۔ اس دوران انہوں نے اکنامکس میں ڈگری لینے کے بعد دلی میں بینک آف
امریکا میں نوکری کر لی۔ انیس سو اٹھانوے میں شادی کے بعد افضل گرو نے
دوائیوں کا کاروبار شروع کر دیا۔سن دو ہزار میں بھارتی فوج نے انہیں پوچھ
گچھ کے لیے گرفتار کیا اور بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے نے ان کے
دل میں بھارت کے خلاف مزید نفرت پیدا کر دی۔بھارتی پارلیمنٹ حملہ کیس میں
کشمیری نوجوان محمد افضل گورو کے لیے پھانسی سے دو روز قبل ہی تہاڑ جیل میں
قبر تیار کر لی گئی تھی۔تہاڑ جیل کے ڈائریکٹر جنرل وملا مہرا نے بتایا کہ
محمد افضل گورو کو پھانسی کے بعد تہاڑ جیل کے احاطے میں دو دن پہلے سے تیار
کی گئی لحد میں انہیں اتار کر سپرد خاک کیا گیا۔ جس وقت انہیں پھانسی دی
جارہی تھی وہاں ایک ڈاکٹر ، ایک مجسٹریٹ اور جیل حکام کے چند افسران سمیت
8افراد تھے جن میں ایک مولوی بھی تھے۔ پھانسی کے بعد مذکورہ مولوی نے انکی
نماز جنازہ پڑھائی۔ انہوں نے بتایا کہ گورو انتہائی ہشاش بشاش اور صحت مند
تھا ، انہیں صبح پانچ بجے جگا کر چائے پیش کی گئی تاہم انہوں نے پہلے نما
زادا کی۔ اس کے بعد ایک ڈاکٹر نے ان کا چک اپ کرایا گیا اور اسکا بلڈ پریشر
چک کیا گیا۔تاہم ڈاکٹر جنرل نے کہا کہ انہوں نے کوئی آخری خواہش ظاہر نہیں
کی اور جب انہیں تختہ دار کی طرف لے جایا جارہا تھا تو اس وقت وہ بالکل
پرسکون تھا۔ زندگی کے آخری لمحات میں افضل بہت ہی صبروتحمل کا مظاہرہ کررہا
تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پھانسی دینے کے دس منٹ بعد ڈاکٹر نے ان کی نبض دیکھ
لی اور انہیں مردہ قرار دیا۔ رات 8بجے گورو کو پھانسی دینے سے متعلق آگاہ
کیا گیا جس کے بعد انہوں نے رات کا کھانا نہیں کھایا البتہ وہ را ت بھر
عبادت کرتے رہے۔ صبح کے پانچ بجے جیل حکام کے چند افسران تہاڑ جیل کے گیٹ
نمبر3کے متصل ان کے کمرے میں گئے اور اس وقت وہ عبادت میں مشغول تھے۔اس کے
بعد انہوں نے نہایا ، نماز ادا کی۔اس کے بعد انہیں تہاڑ جیل میں ہی اس جگہ
لیا گیا جہاں انہیں پھانسی دینی تھی اور ٹھیک 8بجے انہیں مردہ قرار دیا
گیا۔ افضل گورو کے بڑے بھائی ہلال احمد گورو نے کہا ہے کہ افضل نے سرینگر
میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں اجتماعی ریپ کے واقعہ کے ردعمل میں ہتھیار
اٹھائے۔افضل گورو کے سچ پر بھارتی فوج کے میجر نے کہا کہ افضل کی باتوں سے
میں خود کو گنہگار سمجھنے لگا ہ ہوں۔شہید افضل گورو کے بڑے بھائی ہلال احمد
گورو نے بتایا کہ افضل گوروبڑا شرمیلا تھا۔ میں انیس سو نوے میں بارڈر کراس
کر کے مظفرآباد گیا۔ جب میں نے سنا کہ افضل بھی ڈاکٹری کی ڈگری ادھوری چھوڑ
کر وہاں عسکری تربیت کے لیے گیا ہے تو میں فکر مند ہوا۔ میں جانتا تھا کہ
وہ بہت شرمیلا ہے، اسے کوئی بھی بہکا سکے گا۔ میں نے کیمپوں میں ڈھونڈا تو
نہیں ملا۔ آخر کار میں نے اسے کیمپوں سے باہر ایک سلائی سینٹر میں دیکھا کہ
سو رہا ہے۔ اس نے کہا کہ کیمپ میں جگہ نہیں ملی۔میں نے پوچھا تو کیوں آیا
تو جواب میں اس نے سرینگر کے چھانہ پورہ میں انڈین فورسز کے ہاتھوں اجتماعی
ریپ کا واقعہ سنایا۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے نے اس کو بندوق کی طرف دھکیلا
تھا۔ مظفرآباد سے واپسی پر جب عسکری جماعتوں کے درمیان گروہی تصادم نے ہم
سب کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تو افضل پھر سے پڑھائی میں جٹ گیا۔
لیکن آرمی کیمپ پر مسلسل حاضری کی پابندی اور وہاں ہمارے ساتھ ہونے والے
سلوک نے اس کو جنجھوڑ کے رکھ دیا۔انہوں نے کہا کہ سچ اس بے باکی سے بولتا
تھا کہ ایک دن آرمی کیمپ میں حاضری کے دوران میجر راجموہن نے اس کے ساتھ
علیحدہ بات کی تو افضل نے ساری صورتحال کا نقشہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ بعد
میں اس میجر نے دو ماہ کے لیے رخصت لے لی اور گاں کے ایک بزرگ سے یہ کہہ کر
گیا کہ افضل کی باتوں سے وہ خود کو گنہگار سمجھنے لگا ہے۔ افضل گورو کو
پھانسی انصاف کا قتل ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے والوں کو گرفتار
کر کے عمر قید کی سزائیں سنانا اور پھانسی کے پھندے پر لٹکانا بین الاقوامی
قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے، پوری کشمیری و پاکستانی قوم افضل گورو سے
محبت اور ان کا احترام کرتی ہے انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکانا پوری
کشمیری قوم پر حملہ ہے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری ہے اور جاری رہے گی۔
بھارتی عدلیہ کشمیریوں کے معاملے میں انتہائی جانبداری سے کام لے رہی ہے
کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
افضل گورو کوئی جرائم پیشہ شخص نہیں بلکہ وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کا
ایک زبردست ہیرو ہے جس نے اپنے قومی کاز کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا
ہے۔ افضل گورو کی پھانسی سے مذموم اقدامات سے تحریک آزادی جموں کشمیر کو
ختم نہیں کیا جاسکتا ۔بھارتی عدلیہ کشمیریوں کے معاملہ میں انتہائی
جانبداری سے کام لے رہی ہے۔ کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو
دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پوری کشمیری وپاکستانی قوم افضل گورو سے
محبت اور ان کا احترام کرتی ہے۔حریت کانفرنس(ع) مقبوضہ کشمیر نے مقبول بٹ
اور افضل گورو کے جسد خاکی ‘ ان کے لواحقین کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے
اس سلسلہ میں دستخطی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا
ہے کہ جس طرح پاکستانی حکومت نے بھارتی قیدی سربجیت سنگھ کی لاش کو بھارتی
حکومت اور ان کے لواحقین کے حوالے کیا اسی طرح محمدمقبول بٹ اور محمد افضل
گورو کے جسد خاکی کو بھی کشمیر ی قوم کو واپس کیاجائے۔ دونوں کشمیری عوام
کے عظیم قائد تھے جنہوں نے و کشمیری عوام کی آزادی کے خاطر سرجھکانے کے
بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ ان کی قربانیوں کی حفاظت کرنا ہم سب کا اولین فرض
ہے۔ |