باسی کڑھی میں پھر اُبال آگیا ہے۔پھر دہشت گردی اور فرقہ پرستی دونوںموضوع
بحث بن رہی ہے۔”بھگوا دہشت گردی “کا پردہ چاک کرنے والی ’کارواں‘کی
خبرسامنے آنے کے بعدایک بارپھرزعفرانی قوتوںکی خفت و شرمندگی عیاں ہو گئی
ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پھر حکومت کی کمزورقوت ارادی اپنے مکمل سیاق و
سباق کے ساتھ نمودار ہوچکی ہے۔ہندوستانی سیاست کیلئے یہ ہفتہ اِس لحاظ سے
غیر معمولی اہمت کا حامل کہلاسکتا ہے کہ اس دوران ’زعفرانی دہشت گردی
‘اورفرقہ پرستی دونوںکاہی کسی نہ کسی شکل میںاقبال بلندہوتا نظر آیااور اس
کے عین برعکس سیکولرطبقہ کی بے بسی،بزدلی یا بے عملی اور ارباب اقتدار کی
کمزوری بھی مکمل طور پرظاہر ہو گئی۔ ’کارواں‘میگزین نے نہایت جرا ¿ت کے
ساتھ اگر ایک طرف دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے سوامی اسیمانند کے انٹرویو
کو منظر عام پر لایااوریوںسنگھ پریوار کے ’ناپاک‘ عزائم کوبے نقاب کیاتو
دوسری جانب کل کی بات ہی ہے کہ فرقہ پرستی کے سامنے ہم نے حکومت کو ایک بار
پھر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور دیکھا، جس کادیدار ہندوستانی ایوان نمائندگان
میںحکومت نے خود ہی کرادیا۔ انسداد فرقہ وارانہ فساد بل حسب امید لٹک
گیا،بلکہ یہ کہئے کہ اِسے جان بوجھ کر لٹکا دیاگیاجسے فرقہ پرست عناصرکی
بڑی کامیابی قراردیناغلط نہ ہوگا جوکہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ملک کو
فرقہ واریت کی آگ میں جھونکتے اوراس کی فصل کاٹتے رہے ہیں۔
’کارواں‘ میگزین کی جانب سے منظر عام پر لائے جانے والے ’حقائق‘اس لحاظ سے
غیر معمولی اہمیت کے حامل کہلاسکتے ہیں کہ اس نے” زعفرانی دہشت گردی“میں
سنگھ پریوار کے مبینہ رول کو اجاگر کرنے کیلئے سوامی اسیمانند کاانٹر
ویومنظر عام پر لایا ہے جس میںجیل میں بند دہشت گردی کے ملزم نے آر ایس ایس
چیف موہن بھاگوت و دیگرکے تعلق سے یہ انکشاف کیا ہے کہ اُنہیں سمجھوتہ
ایکسپریس کے دھماکہ کا نہ صرف یہ کہ علم تھا بلکہ سنگھ پریوار کے آقا اس
سازشی منصوبہ کی سرپرستی کا فریضہ انجام دے رہے تھے ۔ ’کارواں‘ نے دعویٰ
کیا ہے کہ اُس نے ہریانہ کی جیل میں بند اسیمانند سے دو سال میں چار بار
انٹرویو کیا ہے۔اس میگزین کے انکشاف اور ٹائمنگ کو لے کر گوکہ انگلیاں
اٹھنے لگی ہیںلیکن اسے جھوٹ کہہ کر نظرانداز کرنے کی گنجائش نہیںہے ۔یہ
اپنی جگہ سچ ہے کہ اس میگزین نے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے سنگھ
پریوار کومکمل طورپر کٹہرے میںکھڑا کردینے والاانٹرویو شائع کیا ہے جس سے
زعفرانی قوتوںکو زورکاجھٹکا لگ گیا ہے۔ اس انٹرویو کے بعد آر ایس ایس کٹہرے
میں ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ سنگھ پریوارکا رشتہ براہ راست بی جے پی
سے جڑاہے۔ ایسے میں میگزین پر کانگریسی ہونے کے الزام بھی لگائے جارہے
ہیںتاکہ موہن بھاگوت اورسنگھ پریوار کے دیگر عہدیداروںکوکسی بھی طرح کلین
چٹ دلائی جاسکے۔حالانکہ اس میںسچائی نظر نہیں آتی کہ میگزین کے انکشاف
کوکانگریس کی سازش سے تعبیر کیاجائے کیونکہ ’کارواں‘نے سوامی اسیمانند کا
آڈیوٹیپ بھی جاری کردیا ہے اور ادارہ کے منتظمین کاکہنا ہے کہ وہ ضرورت
پڑنے پر قانونی معرکہ آرائی سے بھی گریز نہیں کریںگے اور یہ کہ ضرورت پڑی
تو آڈیوداخل عدالت بھی کیاجائے گا۔’کارواں‘ہندوستان کے چند قدیم ترین
رسالوںمیں سے ایک ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بند پڑے اس میگزین کی دوبارہ
اشاعت 2010 سے شروع ہوئی ہے۔’کارواں‘ دہلی پریس کا پہلاجریدہ بھی ہے، جس کی
شروعات دہلی پریس کے بانی وشوناتھ نے 1940 میں کی تھی۔ 1988 تک مسلسل 48
سال چلنے والے اس میگزین کی اشاعت بند ہو گئی تھی مگر جنوری 2010 میں اسے
دوبارہ زندہ کیا گیا۔دہلی پریس ملک کے سب سے پرانے اشاعتی اداروں میں سے
ایک ہے۔ یہ نو زبانوں کی 32 میگزین شائع کرتا ہے۔ 1939 میں وشوناتھ نے دہلی
پریس کی بنیاد رکھی تھی، جو اپنے وقت کے معروف صحافی اور مجاہدآزادی بھی
تھے۔اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ آر ایس ایس کو ایک بار پھر بے نقاب کرنے
میں’کارواں‘نے جو رول اداکیاہے اسے مخصوص سیاسی جماعت کاہتھکنڈا کہہ کر
فراموش نہیں کیاجاسکتا کیونکہ صحافت کی ذمہ داریوںکو اداکرنے والا ہر ایک
غیر جانبدار ادارہ مذہب، ذات اور طبقات سے ماوراءہوکر ایسی سچائیوںکو وقتاً
فوقتاً اجاگر کرتا رہتا ہے جوملک کی سلامتی ،اتحاد اوراخوت وبھائی چارگی کو
نقصان پہنچانے کا سبب کہلائے ۔جو کام آج کارواں نے انجام دیاہے کم وبیش
ایسی سرگرمیاں ماضی میں تہلکہ نامی جریدہ بھی انجام دیتا رہا ہے اور دنیا
یہ بھی جانتی ہے کہ تہلکہ کے انکشافات کے بعد کس طرح ہندوستان کی وادی ¿
سیاست کئی بارمتزلزل ہوئی اور کس طرح فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کرنے والے
عناصر کے کرتوت بے نقاب ہوئے ۔ چنانچہ جو لوگ آج ’کارواں‘ کے رول پر انگلی
اٹھارہے ہیں یا سنگھ پریوار کو معصوم قرار دینے کی کوشش کررہے ہےں ،ان
کےلئے یہ ضروری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خوفناک کھیل کو سمجھنے کےلئے ماضی کے
واقعات سے روشنی حاصل کریں اور یہ دیکھنے کی ایمانداری کے ساتھ سعی کریں کہ
ماضی میں زعفرانی دہشت گردی کس طرح ملک کےلئے سم قاتل قرار پاتی رہی ہے اور
کیسے کیسے لوگ اس سلسلہ میں تفتیشی ایجنسیوں کی گرفت میں آچکے ہیں ۔ یہ
موقع اس بات کانہیں کہ ہم ماضی کے اوراق الٹتے جائیں اور ہر ایک واقعہ کو
شمار میں لاتے ہوئے زعفرانی طبقہ کی ملک مخالف سرگرمیوں کو ظاہر کریں۔
البتہ مختصراًیہ بتادینا ضروری ہے کہ ”بھگوا دہشت گردی“ ایک ناقابل تردید
سچائی ہے جس کی بھینٹ کبھی سادھوی پرگیہ ، کرنل پروہت ، سومت کلکرنی اور
خود سوامی اسیمانند جیسے لوگ چڑھ چکے ہیں جنہیںآر ایس ایس کاپروردہ تصور
کیاجاتارہاہے۔ دہشت گردی کے اُن تمام واقعات میں زعفرانی طبقہ کی شمولیت کی
بات سامنے لائی جاچکی ہے جنہیں کبھی مسلمانوںسے متعلق قرار دینے کی کوشش
ہوتی رہی تھی ۔ سوامی اسیمانند نے اپنی گرفتاری کے بعد اقبالیہ بیان میں جن
حقائق کو منظر عام پر لایا تھا، اگر ان کی روشنی میں تفتیشی ایجنسیاں سرگرم
ہوتیں تو یقینا سنگھ پریوار مشکل میں گھر جاتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جن
ایماندار اور ذمہ دار سرکاری اہلکاروں نے زعفرانی طبقہ کی ملک مخالف
سرگرمیوںکو اجاگر کرنے کی ایماندارانہ کوشش کی ان کےلئے عرصہ حیات تنگ
کردیاگیا ۔ تذکرتاً ہم آنجہانی ہیمنت کرکرے کانام لینایہاں ضروری سمجھیںگے
جنہوںنے مالیگاﺅں کے دہشت گردانہ واقعہ کی تفتیش کے دوران ایسے حقائق بے
نقاب کئے جو بہتوں کےلئے حیران کن قرار پاگئے ۔ مالیگاﺅں کاواقعہ واحد مثال
نہیں جس میں زعفرانی طبقہ کی شمولیت کا خودتفتیشی ایجنسیوں نے بھی اعتراف
کیا ہے بلکہ مکہ مسجد سانحہ سے لے کر خواجہ اجمیریؒ کی درگاہ میں رونما
ہونے والی دہشت گردی کے واقعات تک میں بھی ان کی شمولیت ظاہر ہوچکی ہے ۔
اسی طرح سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ کی تحقیق کے دوران جو حقائق منظر عام
پر لائے گئے ہیں ان سے بالعموم یہی ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے زیادہ تر
معاملات میں آر ایس ایس کی کہیں نہ کہیں وابستگی موجود ہے ۔ ایسے میں یہ
ایک سوال قابل غور ہے کہ ’ کارواں‘ نے اسیمانند کے جس انٹرویو کو بنیاد بنا
کر موہن بھاگوت اور دیگر کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے ،اسے نظر انداز کیسے
کیاجائے؟ ۔
حالانکہ ماضی کی تفتیش اور دہشت گردی میں ماخوذ متعدد ملزمین کے بیانات سے
یہ ظاہر ہوتا رہا تھا کہ دہشت گردی کے کھیل میں آر ایس ایس کے عہدیدارن کی
کارکردگی قابل مواخذہ ہے،لیکن غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ سنگھ پریوار کے
چیف موہن بھاگوت کانام دہشت گردی کے سرپرست کی حیثیت سے سامنے آیا ہے ۔
حیرت تو یہ ہے کہ اس بڑے انکشاف کے باوجود نہ تو وزارت داخلہ حرکت میں آیا
اورنہ ہی حکومت نے حقائق کا تعاقب کرنے کےلئے اس واقعہ کی اعلیٰ سطحی
انکوائری کو یقینی بنانے کی کوشش کی ۔ آخر کیوں؟یہ ایک بنیادی سوال ہے ۔
سوامی اسیمانند کاانٹرویو اس بات کا متقاضی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی
نہ صرف یہ کہ آزادانہ طورپر انکوائری کرائی جائے بلکہ یہ بھی ضروری معلوم
ہوتاہے کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت اور دیگر عہدیداران جن کے نام
منکشف ہوئے ہیں ،اُن پر قانونی شکنجہ بھی کسا جائے اور ان کی جملہ
سرگرمیوںکی بھی تفتیش کی جائے کیونکہ انکوائری کے صورت میں بعض ایسے حقائق
بھی سامنے آنے کی اُمیدظاہر کی جاسکتی ہے جس سے دہشت گردی کے متعدد ناقابل
حل معاملوںکی گتھی سلجھانے میں تفتیش کاروںکو آسانی ہوگی اور عین ممکن ہے
کہ اس کھیل میں ملوث بعض بڑے سیاسی کھلاڑی بھی گرفت میں لائے جاسکیںگے لیکن
کیا یہ امید کی جائے کہ حکومت اس سلسلہ میں کسی طرح کی پیش رفت کرے گی ۔ اس
سوال کا جواب اثبات میں دینا مشکل ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف ایماندارانہ
،غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تفتیش کے حوالہ سے حکومت کی نیت اور منشا
دونوں پر ہی انگشت نمائی کی جاتی رہی ہے ۔ یوپی اے حکومت سے یہ امید کیسے
کی جائے کہ وہ دودھ اور پانی الگ کرنے میں یقین رکھتی ہے ،جس حکومت نے دہشت
گردی کے ایک معاملہ (مالیگاﺅں) میں دوفکروخیال کے حامل ملزمان کو کٹہرے میں
کھڑا کیاہوا ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ کس طرح مالیگاﺅں دھماکہ کی تفتیش کے
دوران پہلے نصف درجن سے زیادہ مسلم نوجوانوںکو گرفتار کیا گیااوران پر دہشت
گردی کے ٹھپے لگادیئے گئے لیکن بعد کو اسی معاملہ میںبھگوا دہشت گرد بتائے
جانے والے ملزمان کو گرفت میں لیاگی لیکن اس کے باوجود جو مسلمان پکڑے گئے
تھے انہیں آج تک مقدمہ میں بری نہیں کیاگیا۔ یہ حالات یہ ظاہر کرنے کے لئے
کافی ہےں کہ دہشت گردی کے مسئلہ میں مضبوط قوت ارادی کے ساتھ ایماندارانہ
تفتیش کو یقینی بنانے کی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں
سنگھ پریوار کا آقا کٹہرے میں کھڑا ہوجانے کے باوجود نہ پریشان ہوگا اورنہ
ہی فکر مند ۔کیونکہ غالباً اسے پتہ ہے کہ حکومت اور تفتیشی ایجنسی اس کی
پشت پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں رکھتی ۔
دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے درمیان ایک مضبوط رشتہ رہا ہے، یہ ایک مسلمہ
صداقت ہے۔ یوپی اے حکومت جس طرح دہشت گردی کے تعاقب میں پوری طرح ناکام رہی
ہے ٹھیک اسی طرح فرقہ پرستی کے سامنے اس کا بھیگی بلی بن جانا بھی خلاف
واقعہ نہیں ہے ۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں عوام سے یہ وعدہ
کیاتھاکہ وہ انسداد فرقہ وارانہ فساد بل لائے گی تاکہ مذہبی جنون کو ہوا
دینے والے واقعات کی سرکوبی ہوسکے ۔ موجودہ حکومت کی میعاد ختم ہونے کو ہے
اور آخری پارلیمانی اجلاس میں بھی اس بل کو پیش نہیں کیاجاسکا بلکہ یوں
کہئے علامتی پیش رفت کے بعد اس بل کی واپسی ہوگئی۔ یعنی حکومت نے اپنے طر ز
عمل سے یہ باورکرادیا کہ فرقہ پرست عناصر کے سامنے گھٹنے ٹیکنا اس کی
مجبوری ہے ، فرقہ پرستوںکاناطقہ بند کرنا یا اسے کچل ڈالنا حکومت کے بس کی
بات نہیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی اور فرقہ پرستی ملک کے اتحادوسا
لمیت کےلئے خطرہ ¿ عظیم ہےں۔ خطرات سے مقابلہ کی جرات ہماری حکومت میں ہے
ہی نہیں۔ ایسے میں اس ملک کاکیا ہوگا ؟ہرایک محب وطن ہندوستانی شہری کےلئے
یہ سوال فکر کا سب سے بڑا موضوع بن کررہ گیا ہے ۔دہشت گردی اور فرقہ پرستی
سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں، اس سچائی کا محض اعتراف کرنا حکومت کی
ذمہ داری نہیں بلکہ ان لعنتوں سے نجات کی صورت پیدا کرنا بھی حکومت کا
اولین فرض ہونا چاہئے جس سے پہلو تہی کا احساس غالب ہے ۔ یوپی اے حکومت کے
10سالہ دورکوجن بداعمالیوں ،ناکامیوں اور بے اعتدالیوں کے حوالہ سے تو یاد
کیاہی جائے گالیکن دہشت گردی اور فرقہ پرستی کو اس معاملہ میںسرفہرست نہ
گرداننے کی کوئی وجہ سمجھ میںنہیں آتی جس نے پوری طرح یوپی اے کو ایک بزدل
،کمزور اور لاغرحکومت کے طور پر متعارف کرایا ہے اور نتیجتاًملک کے عام
شہری کے درمیان بالعموم اوراقلیتی طبقہ کے درمیان بالخصوص حکومت اپنا
اعتبار کھوتی نظر آرہی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ’ ہندوستان ایکسپریس‘ نئی دہلی کے نیوز ایڈیٹرہیں) |