سائیں کا صوبہ بھی سائیں

ماضی کے قصے کہانیاں چھوڑیں، 2014ء کی بات کرتے ہیں، اس سال کے پہلے مہینے کراچی میں 225 افراد مارے گئے جبکہ فروری کے پہلے 10 روز میں 45 افراد گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان 275مقتولین میں 25 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ کہنے کو تو اس شہر میں کئی ماہ سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کوئی آپریشن بھی چل رہا ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی رو رہا ہے۔ شہری مسلح گروہوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں، اسلحہ بردار دندناتے پھرتے ہیں، جان محفوظ ہے اور نہ مال، مذہبی، نسلی اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو مارا جارہا ہے بلکہ بغیر وجہ کے بھی لوگ قتل ہورہے ہیں۔ دلوں کا خوف چہروں پر عیاں ہے، حالت یہ ہوگئی ہے ہزار، بارہ سو کا موبائل لے کر بھی باہر نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے، نہ جانے کوئی اس موبائل کے لیے ہی سینے میں گولی نہ اتار دے۔

باقی سندھ کا بھی یہی حال ہے۔ کسی دور میں دریائے سندھ کے کنارے کے علاقوں جنہیں ’’کچے کا علاقہ‘‘ کہا جاتا ہے، ڈاکوؤں کی آماجگاہ ہوتا تھا، آج شہری علاقوں میں بھی ڈاکوؤں نے باقاعدہ ڈیرے بنالیے ہیں۔ اندرون سندھ اغواء برائے تاوان منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ دن دہاڑے لوگوں کو اٹھایا اور بڑی دیدہ دلیری سے تاوان وصول کیا جارہا ہے۔ تماشا تو یہ ہے کہ تاوان کی بیشتر ڈیل تھانوں یا ارکان اسمبلی کی اوطاقوں پر طے پاتی ہیں۔ شہری ان وارداتوں کے خلاف دھرنے دے دے کر تھک چکے ہیں۔ صوبے کی مرکزی شاہراہوں پر لوٹ مار کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ایسالگتا ہے ایم آر ڈی کی تحریک کا دور لوٹ آیا ہے۔ ضیاء الحق کے خلاف چلنے والی اس تحریک کے دوران سندھ کے سیاسی خاندانوں کی سرپرستی میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی وارداتیں ہوا کرتی تھیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا جانے اور آنے والی گاڑیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان وارداتوں کا مقصد حکومت کو ناکام ثابت کرنا تھا۔ اب تو ایسا معاملہ نہیں ہے، ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے والے خود حکومت میں ہیں، بھلا وہ اپنی ہی حکومت کے خلاف سازش کیوں کریں گے۔ دراصل حرام مال جس کے منہ لگ جائے، مشکل سے چھٹتا ہے۔ سیاست دانوں کو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی کچھ تو لت پڑگئی ہے اور کچھ سیاسی دبدبے کے لیے بھی چور لٹیرے پائے جاتے ہیں۔ سندھ میں علیحدگی تحریک تو برسوں سے چل رہی ہے مگر پچھلے کچھ عرصہ سے اس میں تشدد بھی شامل ہوگیا ہے۔ علیحدگی پسند گروہ ایک روز میں 30، 30 دھماکے کررہے ہیں۔ ریلوے ٹریک کو بموں سے اڑا رہے ہیں۔ یہ لوگ پورے صوبے میں پھیل چکے ہیں، ذرا تصور کیجیے جو لوگ آج کریکر حملے کررہے ہیں، اگر انہوں نے کل کلاں عوامی مقامات پر بم پھاڑنا شروع کردیے تو عوام پر کیا بیتے گی؟

امن وامان کی صورت حال سے ہٹ کر دیکھیں تب بھی صوبہ بری حالت میں نظر آتا ہے۔ دیہی علاقوں کا کیا رونا، شہروں کو ملانے والی رابطہ سڑکیں کھنڈرات میں بدل چکی ہیں۔ نظام تعلیم آخری سسکیاں لے رہا ہے جس کا اعتراف دو، تین روز قبل سندھ اسمبلی میں بھی کیاگیا۔ غیرسرکاری تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے درجنوں اسکول مویشی خانے بنے ہوئے ہیں، جو بچ گئے انہیں وڈیروں نے اوطاقوں میں تبدیل کردیا۔ سرکاری ہسپتالوں کا بھی یہی ماجرا ہے۔ کوئی بھولا بھالا مریض غلطی سے وہاں چلا بھی جائے تو سر پیٹتا باہر آتا ہے۔ دیگر محکموں کی بھی یہی کہانی ہے۔ ادارے منہدم اور انتظامیہ مفلوج ہوچکی ہیں۔ ہر طرف کرپشن، اقربا پروری اور کمیشن کا راج ہے۔ عوام کے لیے صرف دھکے اور دلاسے ہیں۔ گویا جیالا ازم سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے، جس صوبے کی اتنی بری حالت ہے وہاں کے چیف ایگزیکٹو، حکمران جماعت اور اس کی قیادت کی تو راتوں کی نیند اڑ گئی ہوگی، بے چاروں کو مرغ مسلم بھی پھیکی دال لگتا ہوگا، بس ان کے ذہن پر تو ہر وقت ایک ہی دھن سوار رہتی ہوگی کہ کسی طرح عوام کو ریلیف مل جائے۔ آخر غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی جماعت صوبے پر حکمران ہے۔ اگر یہ عوام کے بارے میں نہیں سوچے گی تو کون سوچے گا۔ مگر جناب! ایسا کچھ نہیں ہے۔ عوام کے غم میں کوئی بھی سوکھ کر کانٹا نہیں ہوا۔ عوام فاقوں اور حکمران اپنی مستیوں میں مست ہیں۔ ان حکمرانوں کی مثال تو ان پولیس اہلکاروں جیسی ہے جو عوام کو تحفظ دینے کی بجائے خود کو تھانوں میں لمبی تان کر سورہے ہوں اور بے چارے عوام ہاتھ میں بندوق اٹھائے ان کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوں۔ سندھ کا 80سالہ وزیراعلیٰ ہو یا جواں سال وزیر سب خراٹے لے رہے ہیں۔

اس معاملے کو آپ ایک اور زاویے سے بھی دیکھیں، پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہے، اچھی یا بری اس بحث میں نہیں پڑتے مگر سچی بات یہ ہے کہ وہاں کے وزیراعلیٰ خود چین سے بیٹھتے ہیں اور نہ کسی کو بیٹھنے دیتے ہیں۔ وہاں روزانہ کسی ترقیاتی منصوبے کا افتتاح یا پھر سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے۔ لیپ ٹاپ، سستی روٹی، دانش اسکول، ماڈل کالونیاں، خدمت کارڈ، میٹروبس جیسے منصوبے سامنے آرہے ہیں، جگہ جگہ سڑکیں اور فلائی اوور بن رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف سرگرم ہے، وہاں بھی نت نئے منصوبے پیش کیے جارہے ہیں اور سندھ…… یہاں پراسرار خاموشی ہے۔ ایسا لگتا ہے یا تو اس حکومت کے پاس سرے سے کوئی ویژن ہی نہیں ہے یا پھر عوام کے لیے کچھ نہ کرنا اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔ شاید سندھ کی حکمران کلاس منصوبے کے تحت عوام کو پسماندہ رکھنا چاہتی ہے۔ مجھے معلوم ہے، آپ تھرکول اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حوالہ دیں گے، مگر اس کا سندھ حکومت سے کیا تعلق ہے؟ تھرکول تو بے نظیر کے دور حکومت میں شروع ہوا، اسی طرح انکم سپورٹ پروگرام بھی وفاقی ہے۔ کوئی کام صوبائی حکومت بھی تو کرکے دکھائے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں لاہور اور پشاور کو ماڈل سٹی بنانے کے منصوبے بنارہی ہیں جبکہ سندھ حکومت کراچی میں ایک اینٹ بھی رکھنے پر تیار نہیں۔ اس شہر میں جو ترقیاتی کام نظر آتے ہیں وہ حکومت لاڑکانہ ہی میں عوامی فلاح وبہبود کا کوئی کام کرادے۔
سندھ کی ابتر صورت حال کا قائم علی شاہ کو ذمہ دار ٹھہرانا ظلم ہے۔ یہ بزرگ تو محض شوپیس ہیں، اصل حکومت تو پی پی قیادت چلاتی ہے۔ اس لیے انہیں کو کوسنا چاہیے۔ بلاول زرداری نے عوامی فلاح وبہبود کے لیے کچھ انگڑائی لی ہے۔ چونکہ یہ صاحب ولایت کے تعلیم یافتہ اور گوروں ہی کے تربیت یافتہ ہیں، اس لیے انہوں نے عوامی مسائل کے حل کا بھی ولایتی یعنی انگریزی نسخہ تجویز کیا ہے۔ ان کے نسخے کے مطابق عوام کے تمام مسائل کا حل صرف ناچنے میں ہے۔ یہ لوگ پہلے بھی عوام کو نچواتے رہے ہیں مگر وہ ذرا سیاسی ناچ ہوتا تھا اب باقاعدہ طور پر نچوایا جارہا ہے۔ سندھ حکومت ان دنوں بلاول کی سرپرستی میں میلہ منارہی ہے۔ زرداری خاندان کے ایک شہزادے اور ان کے چند غیرملکی ’’سہلے اور سہیلیوں‘‘ کو خوش کرنے کے لیے کروڑوں روپے لٹائے جارہے ہیں۔ یہ صرف چند افراد کی ٹھرک ہے مگر سزا پوری سندھی قوم بھگت رہی ہے۔ ہمارا خاندان 1947ء سے سندھ میں آباد ہے، کراچی سے کشمور تک صوبے کو دیکھ چکا ہوں لیکن مجھے تو کہیں بھی وہ ثقافت نظر نہیں آئی جسے بلاول سندھ کی ثقافت قرار دے رہے ہیں۔
مان لیتے ہیں سائیں کا میلہ بھی سائیں، سائیں کا ویژن بھی سائیں، مگر مزا تو تب تھا جب سائیں کا صوبہ بھی امن اور ترقی میں دیگر صوبوں کا سائیں ہوتا۔ لیکن بلاول سائیں! آپ کا صوبہ تو صرف سائیں سائیں کررہا ہے، یہاں تو ہجوم میں بھی عجیب سناٹا ہے!!
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 116430 views i am a working journalist ,.. View More