موہن بھاگوت کی ہندو دہشت گردوں کی حمایت:لو آپ اپنے دام صیاد آگیا

اسیمانند کے انٹرویو کے بعد انتظامیہ، میڈیا،مقننہ اور عدلیہ کی بے حسی اجاگر ہوگئی ہے اور یہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ ہندوستان کا نظام عدل امتیاز پر مبنی ہے۔ اسٹوڈینٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر محض الزام لگنے پر ہی نہ صرف ان پر پابندی لگادی گئی بلکہ ان کے سارے دفاتر بند کردئے گئے اوران کے سارے ارکان کو گرفتاری کرلیا گیا اور طرح طرح وحشیانہ اور انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں۔آج بھی ملک کا میڈیا تنظیم کو خونخوار دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس پابندی کو بہانہ بناکر پورے ملک کے ہزاروں مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ اس پر سب سے زیادہ عمل وہاں ہوا جہاں سب سے بڑاہندو دہشت گردوں کا گڑھ ہے اور حکومت اسے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ سیمی کے سابقہ ممبران کا رام راجیہ میں جس طرح کا سلوک کیاگیاہے وہ رونگھٹے کھڑے کرنے والے ہیں۔کیا کسی تنظیم کے سابق رکن ہونا کوئی گناہ ہے۔ اگر گناہ ہے تو آر ایس ایس کے سارے ممبران اب تک آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ درجنوں آر ایس ایس پرچارک اور ممبران دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اس کے حامی اور ارکان پارلیمنٹ جیسی مقدس جگہ کو گندہ کیوں کر رہے ہیں؟۔ اگرہندوستان میں امتیازی قانون نہیں ہے تو آر ایس ایس کے سارے ممبران جیل میں کیوں نہیں ہیں۔ تصور کریں کہ کسی مسلم تنظیم کے افراد کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے اتنے سارے ثبوت ہوتے تو کیا ان میں سے ایک بھی آزاد گھوم رہا ہوتا۔کیا ہندوستان میں جمہوریت کا مفہوم یہی ہے اکثریت کچھ بھی کرے وہ صاف بچ کر نکل جائے اور اقلیتوں کو اکثریت کے جرم کی سزا دی جائے۔ہندوستان میں جتنے بھی بم دھماکے ہوئے ہیں سب کا یہی حال ہے علاوہ ایک دو واقعات کے ۔ پولیس،میڈیا، مقننہ، عدلیہ سب اکثریت کا ہے اس لئے اس کے خلاف کارروائی کون کرے گا۔ جرائم کے معاملے کو حل کرنے کیلئے کسی نہ کسی کو تو مورد الزام ٹھہرانا ہی ہوگا اس لئے مسلمانوں کو پکڑ لیا جاتا ہے۔

اسیمانندکے جس انٹرویوسے یہ انکشاف ہوا ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت ہندو دہشت گردوں کی طرف کئے گئے دھماکوں کا نہ صرف علم بلکہ اس میں ان کی حمایت بھی شامل تھی۔ اس انٹرویو ہندوستان کے ایوان سیاست میں زلزلہ آجانا چاہئے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ زلزلہ ،حیرت، استعجاب کی کیفیت اور غیر متوقع چیزیں اس وقت لگتی ہیں جب کوئی چیز اچانک ہوجائے جس کی کبھی کسی نے توقع نہیں کی ہو لیکن جس کی بنیاد ہی نفرت پھیلانے، دشمنی، نقصان پہنچانے، تہ تیغ کرنے، مسلم لڑکیوں کے شکم سے ہندو نسل تیارکرنے اور فرقہ وارانہ خطوط پر صف بندکرنے کی ہو اس سے بہتر امید رکھنا بھی بے وقوفی سے کم نہیں ہے۔ ہندوستان کا کوئی ایسا محکمہ نہیں یا ملک کا کوئی ایسا میڈیا ہاؤس نہیں ہے جس کو آر ایس ایس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کاعلم نہ ہو ۔ اس لئے سوامی اسیمانند کے انکشاف سے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ ویسے بھی میڈیا ہو یا جمہوریت کے دیگر ستون ان میں آر ایس ایس کے نظریات کے حامل افراد کی کمی نہیں ہے۔ ہندوستان کا تقریباً نوے فیصد افسران بالواسطہ یا بلاواسطہ نیکر دھاری ہوتے ہیں اس کا ثبوت بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کو جوائن کرنے والے دو افسران ایک تو وزارت داخلہ کے سکریٹری کے باوقار عہدے سے ریٹائر ہوا ہے ۔ دوسرا اپنی نوکری سے استعفی دیکر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ممبئی کے پولیس کمشنر جیسے باوقار عہدے پررہنے والا شخص خاکی نیکر والی ذہنیت ہوگا تو انصاف کیسے ممکن ہے۔ انہوں نے عشرت جہاں کیس کی تفتیش کی تھی جس میں امت شاہ کو کلین چٹ دی گئی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کاتفتیشی نظام کتنا منصفانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی آزاد گھوم رہا ہے۔ ایس آئی ٹی کی تشکیل ہو یا سی بی آئی یا قومی تفتیشی (این آئی اے) 95فیصد افسران نیکر دھاری والے ہوتے ہیں اس لئے ان سے کسی انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے اور وہ ہر حال میں اپنے آقا کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ آزادی کے بعد سے یہی کھیل ہورہا ہے ۔ایسی بات نہیں ہے کہ اس کھیل کا علم کسی کو نہیں ہے ، تمام لوگوں کو اس کاعلم ہے لیکن مسلمانوں کے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں ،وہ لیڈرشپ نہیں ہے جو اس امتیاز،تعصب کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ مسلمان خوف و دہشت کی زندگی میں جیتے ہیں ہر مسلم لیڈر کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ اس طرح کے مسائل کو اٹھائیں گے تو ان کا حشر بھی ویساہی ہوگا۔ متعدد بم دھماکوں میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے نام آنے پر مسلم لیڈر شپ پر سکوت طاری ہے۔ وہ نہ تو بھاگوت کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور نہ ہی ان کی گرفتاری کیلئے کوئی احتجاج۔ سیکولر طبقہ بھی کنبھ کرن کی نیند سو رہا ہے۔

’کارواں ‘ میگزین نے مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں اسیمانند کے مبینہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ موہن بھاگوت کو دھماکوں کی اطلاع تھی اور اسے باقاعدہ ان کا ’آشیرواد‘حاصل تھا ۔میگزین نے اسیمانند سے بات چیت کے ٹیپس بھی جاری کئے ہیں ۔اسیمانند پر سال 2006 سے 2008 کے درمیان سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ ( فروری 2007 ) ، حیدرآباد مکہ مسجد دھماکہ ( مئی 2007 ) ، اجمیر درگاہ ( اکتوبر 2007 ) اور مالیگاؤں میں دو دھماکے ( ستمبر 2006 اور ستمبر 2008 ) کے الزام ہیں۔ ان دھماکوں میں کل 119 افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔کہا تھا ’’ ہم شامل نہیں ہوں گے ، پر ساتھ سمجھنا‘‘کارواں \' میں شائع خبر کے مطابق اسیمانند نے بتایا کہ جولائی 2005 میں میں اور سنیل جوشی سورت میں آر ایس ایس کے لیڈر موہن بھاگوت اور اندریش سے ملے تھے ۔تب بھاگوت کو ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنا کر دھماکے کا پلان بتایا تھا ۔دونوں لیڈروں نے اس کی منظوری دی۔ بھاگوت نے کہا تھا کہ ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے۔اگر تم یہ کر رہے ہو تو ہمیں ساتھ ہی سمجھو ‘‘۔مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں کے بارے میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو علم ہونے کے دعوے کے معاملے نے طول پکڑ لیا ہے ۔جہاں کانگریس اور حکومت نے آر ایس ایس پر حملہ تیز کر دیا ہے ، وہیں بی جے پی اور آر ایس ایس نے ملزم اسیمانند کے نام نہاد انٹرویو کو ہی فرضی قرار دیا ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا کہ اسیمانند نے کہا ہے تو سچ ہی کہا ہوگا ۔شندے نے اس معاملے کی تحقیقات پر غور کئے جانے کی بات بھی کہی ۔کانگریس کے ایک اور رہنما بینی پرساد ورما نے موہن بھاگوت کو ملک کا باغی قرار دیتے ہوئے گرفتار کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے تو معاملے کی سی بی آئی جانچ کی مانگ کی ہے ۔ جنتادل یو کے لیڈر علی انور نے کہا کہ آر ایس ایس کی یہی فطرت اور نظریہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھاگوت پر اس بنیاد پر مقدمہ چلناچاہئے ۔ آر جے ڈی نے سخت تیور دکھاتے ہوئے موہن بھاگوت کو بغیر جانچ کئے فورا گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔دوسری طرف ، بی جے پی ، شیو سینا اور آر ایس ایس نے اسیمانند کے انٹرویو کو ہی فرضی قرار دیا ہے ۔آر ایس ایس کے لیڈر رام مادھو نے کہا ہے کہ اسیمانند خود کورٹ اور کورٹ سے باہر بھی اس طرح کے بیان دینے کی بات سے انکار کر چکے ہیں ، اس لئے ان کا انٹرویو مشتبہ ہے ۔میگزین \'کارواں \' نے اپنی کور اسٹوری میں دعوی کیا ہے کہ اس نے دو سال کے دوران اسیمانند سے چار بار بات چیت کی ۔میگزین نے اسیمانند سے بات چیت کے ٹیپس بھی جاری کی ہیں ۔

مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمارشندے نے گزشتہ سال جے پورمیں منعقدہ چنتن میٹنگ ہندودہشت گردی کو فروغ دینے کا آرایس ایس پر الزام لگایا تھا۔ اس پر آر ایس ایس اور بی جے پی چراغ پا ہوگئی تھی۔ یہ دونوں خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ اس وقت کے مرکزی داخلہ سکریٹری جو اس وقت بی جے پی کے راجیہ سبھا کے نو منتخب رکن بھی ہیں، نے شندے کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے ہندو دہشت گردوں کی فہرست پیش کی تھی اور کہاتھاکہ ان کا تعلق آرایس ایس سے ہے۔ مسٹر سنگھ نے کہا تھاکہ حکومت کے پاس کم سے کم ایسے 10 لوگوں کے نام ہیں جو سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد اور اجمیر شریف درگاہ دھماکوں میں شامل تھے اور جن کا تعلق کسی نہ کسی وقت آر ایس ایس سے رہا ہے۔قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے نے اس معاملے میں جن 10 افراد کے نام دیئے ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:سوامی اسیماند 1990 سے 2007 کے درمیان راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ سے وابستہ تنظیم ونواسی کلیان آشرم کے صوبے پرچارک سربراہ رہے۔ راجستھان اے ٹی ایس کے مطابق سنیل جوشی اجمیر دھماکوں کے اہم محرک تھے اسے 29 دسمبر، 2007 کو مدھیہ پردیش کے دیواس میں پراسرار حالات میں قتل کیا گیا تھا۔دیویندر گپتاکے خلاف اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ وہ 2003 سے 2006 کے درمیان جھارکھنڈ واقع جامتاڑا میں آر ایس ایس کے ضلع پرچارک تھے۔ لوکیش شرما دیوگڑھ میں آر ایس ایس سے وابستہ رہے لوکیش شرما سمجھوتہ ایکسپریس اور مکہ مسجد معاملے میں گرفتار ہے۔سندیپ ڈانگے فی الحال وہ مفرور ہیں انہیں سمجھوتہ ایکسپریس اور مسلمانوں سے وابستہ دو مذہبی مقامات پر ہوئے بم دھماکوں میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ وہ مبینہ طور پر مؤ، اندور اور شاجاپور ( شجاع پور مدھیہ پردیش) میں آر ایس ایس پرچارک تھے۔کمل چوہان سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے معاملے میں گرفتار ہیں انہیں آر ایس ایس کا پرچارک بتایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شاجاپور ایس ایس پرچارک رہے چندر شیکھر لیوے،راجندر، رام جی کلساگرا اور مالیگاؤں دھماکے میں ملزم سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔سابق مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ نے کہا تھاکہ ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے حملوں کے سلسلے میں پکڑے گئے کم سے کم دس افراد کا تعلق راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں سے ہے۔مسٹر سنگھ نے کہا \"ہمارے پاس ان کے خلاف ثبوت ہیں۔ ہمارے پاس عینی شاہدین کے بیانات ہیں۔اجمیر بم دھماکے میں بھی جن لوگوں کو گرفتار کیاگیا وہ سب آر ایس ایس کے عہدیدار تھے۔ اجمیر دھماکے میں ملزموں سے پولیس نے ایک ڈائری برآمد کی تھی جس اندریش کمار کا نام سامنے آیا تھا جو آرایس ایس کے پرچارک ہیں۔ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اب تک جتنے بھی ملزمین کو حراست میں لیا گیا ہے وہ سب پرچارک ہیں۔ سنیل جوشی ہو یا سوامی اسیمانند یا دیگر ۔ ان لوگوں کی سازش کرنے اور میٹنگ کرنے کے ثبوت بھی پیش کئے جاچکے ہیں۔مختلف موقعوں اور کئی سازشوں میں اندریش کمار کے شامل ہونے کی بات تفتیشی ایجنسیوں نے کہی ہے۔اسی وجہ سے اندریش کمار نے مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کو ایک قانونی نوٹس بھیج کرالزام لگایا تھا کہ اس نے بم دھماکوں کے ملزم سوامی اسیمانند کے مبینہ اقبالیہ بیان کو میڈیا میں لیک کرکے جانچ ایجنسی کے مینوئیل کی خلاف ورزی اور عدالت کی توہین کی ہے۔اندریش کمار کی وکیل میناکشی لیکھی نے قانونی نوٹس میں الزام لگایا تھاکہ سی بی آئی نے اسیمانند کا بیان سوچی سمجھی چال کے تحت میڈیا میں لیک کیا ہے۔

ایک ہندی ویب سائٹ بچھو ڈاٹ کام کے مطابق آر ایس ایس میں انتہا پسندانہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس کا مقصد اولین یہی ہے لیکن جب سے سنگھ کے سابق سربراہ کپا ہلی سیتارمیہ سدرشن (کے پی سدرشن) نے آر ایس ایس جوائن کیا تھااس میں تیزی آگئی تھی۔ انہوں نے اس وقت شاکھا میں جانا شروع کردیا تھا جب وہ محض نو (۹) سال کے تھے۔ کے پی سدرشن کو آر ایس ایس میں ہارڈ لائنر سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر پرچارک ان سے منسلک اور متاثر ہیں۔ وہ 1977سے 1990تک سنگھ پریوار کے آل انڈیا انٹیکچول کے سربراہ رہے ہیں۔ اس حیثیت سے وہ سنگھ تعلیمی نظا م ، طریقہ تعلیم، او ٹی سی کیمپ میں اس کا خاصا عمل دخل تھا۔ اس کے ساتھ سنگھ کے دیگر پروگراموں میں بھی جانا ہوتا تھا۔ ان کیمپوں اور پروگراموں میں سدرشن مسلسل یہ کہتے رہتے تھے کہ2011کے بعد ہندوؤں کو ہندو مخالف یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں سے جنگ لڑنی پڑے گی۔ اس کے دور میں سنگھ پریوار میں انتہا پسندی کو عروج حاصل ہوا کیوں کہ ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے بجرنگ دل کو اہمیت اور استحکام حاصل ہوا ۔ کے پی سدرشن1998سے2009 تک سرسنگھ چالک رہے ہیں۔ ان کی انتہا پسند ی اس وقت بھی سامنے آئی جب انہوں نے سونیا گاندھی پر سی آئی اے کے ایجنٹ ہونے ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات کے لئے عائد کئے ۔ انہوں نے اس الزام کا انتخاب اس وقت کیا جب سنگھ پریوار دہشت کے گردی کے الزام کے گھیرے تھا تاکہ لوگوں کی وجہ اس سے ہٹائی جاسکے۔

ایک معروف ہندی روزنامہ نے گزشتہ اپریل میں ایک خبر شائع کی تھی۔ یہ جموں کی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستانی فوج نے ایک ہندو لڑکی جس کا نام نینا (18)تھا ہندو دہشت گردوں کی مددگار کی شکل اسے گرفتار کیا گیا تھا۔ تفتیش میں اس نے کئی ہندو نوجوانوں کا نام لیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے اودھم پور اور پونچھ سے آٹھ ہندو دہشت گرد نوجوانوں کو گرفتار کیاتھا۔ ایریا کمانڈر کا نام منوج کمار تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے ساتھ امتیاز کیسے برتا جاتاہے ۔ اسے اس خبر سے سمجھیں۔ کرناٹک پولیس نے بہت طمطراق سے گزشتہ ستمبر میں 12 مسلمانوں کو گرفتار کیا تھا جن میں ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، ایم بی اے، بی سی اے، ایم سی اے شامل تھے اور ان پر دہشت گردی کے الزامات لگائے تھے لیکن ابھی تک ان کے خلاف فرد جرم داخل نہیں کی گئی ہے کیوں کہ ثبوت کے نام پران لوگوں کے پاس سے نریندر مودی کا فوٹو برآمد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کے پاس ان لوگوں کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے باوجود اس کے ان لوگوں پر ملک سے بغاوت سمیت کئی الزامات لگائے گئے ہیں۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے کہ ہندو دہشت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگایا جائے۔ دوسری طرف کرناٹک بی جے پی حکومت نے بھگوا دہشت گردی پر اپنی آنکھ موند رکھی ہے۔ گزشتہ ستمبر میں ضلع کنور کے کٹوا جانچ چوکی پر ایک جیپ سے دھماکہ خیز مادہ کا بڑا ذخیرہ برآمد کیا تھا ساتھ ہی دو ہندو نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا جس کے نام ایم پی بلو (35) اور ٹی رنجن (32) تھے۔ اس جیپ سے 300 کلو گرام امونیم نائٹریٹ ، 100 کلو گرام دھماکہ خیز مادہ اور فیوج وائر کے تین بنڈل برآمد کئے تھے۔ یہ دھماکہ خیز مادہ کسی بھی کو بڑے گاؤں کو اڑانے کے لئے کافی تھا۔ یہ دھماکہ خیز مادہ سبزی کے نیچے چھپاکر رکھا گیا تھا۔ کیوں کہ یہ نوجوان ہندو تھے اس لئے انہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا ۔ میڈیا نے بھی اس خبر کو اہمیت نہیں دی اور نہ ہی ملک کی خفیہ ایجنسی کو کسی طرح کی کوئی تخریب کاری نظر آئی۔جب کہ کرناٹک میں گرفتار کئے گئے افراد مسلمان تھے اس لئے انہیں نہ صرف خونخوار دہشت گرد قرار دیاگیابلکہ ان کے خلاف ملک سے جنگ کا مقدمہ بھی درج کیا گیا۔

اب جب کہ آر ایس ایس کے کئی بڑے لیڈروں کے نام دہشت گردی کو فروغ دینے میں آچکا ہے ، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں جس کا سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی ہے ، کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ راجستھان اے ٹی ایس نے سنیل جوشی کی ڈائری برآمد کرکے ان تمام لوگوں کے گھناؤنے چہرے سے نقاب الٹ دیا تھا۔ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، اجمیر، مالیگاؤں، نانڈیڑ ، کانپور اور دیگر مقامات پر بم سازی اور دھماکہ کے ملزمین اس وقت تک گرفت میں نہیں آئے تھے جب تک مہاراشٹر اے ٹی اس کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے ان کا پردہ فاش نہیں کردیا تھا۔ اس کے پاداش میں انہیں فوری طور پر سزا دی گئی اورہمیشہ ہمیش کے لئے ان کا خاتمہ کردیا گیا لیکن جتنا کام وہ کرگئے تھے وہ ان ہندو دہشت گردوں کی گردن تک پہنچنے کے لئے کافی تھا جسے ان کے جانشینوں نے آگے نہیں بڑھایا اور اس کا دائرہ کار صرف مسلمانوں تک ہی محدود رہا۔ کرکرے کی تفتیش کے سہارے راجستھان اے ٹی ایس نے سنگھ پریوار کے ان لیڈروں کا کردار سامنے لانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ آر ایس ایس کی تنظیمیں اس سے بوکھلائی ہوئی ہیں اور اپنے لیڈروں کو کلین چٹ دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ سنگھ پریوار کے دل میں نہ قومی جھنڈے کااحترام ہے نہ ہی ہندوستانی آئین کو وہ صدق دل سے تسلیم کرتاہے۔اس کا اظہار انہوں نے کئی موقعوں پر کھل کر کیا ہے۔ وہ ایساہندوستان کا خواب دیکھ رہا ہے جہاں صرف ہندو ہوں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہ رہے۔ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی جواہر لال نہرو نے بھی ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی سے فکرمند ہوکر ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’مسلم فرقہ پرستی سے زیادہ ہندو فرقہ پرستی ملک کے لئے خطرناک ہے‘‘۔آئی آئی ایم سی استاذ آنند پردھان کے مطابق مالیگاؤں، اجمیر شریف، مکہ مسجد سے لے کر سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے تک معاملات میں گرفتار اسیمانند کے پیچھے کون ہے؟ یہ بہت بڑی گتھی ہے؟ اصلی صحافت میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی صحافی یا اخبار / نیوز چینل کے لئے یہ بہت دلچسپ کہانی آئیڈیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اب تک کسی نے سنجیدگی اور سرگرمی سے اس کی پڑتال نہیں کی۔ کیوں؟ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔اس سے میڈیاکا حقیقی چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوچکا ہے۔آر ایس ایس نے اپنے قیام سے لے کر آج تک ہندوستان میں مسلمانوں سمیت تمام کمزور طبقات اور دلتوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ان کے کیڈروں اور ذیلی تنظیموں کے کارنامے غنڈہ گردی، بدتمیزی، دوسرے کو ذلیل کرنے اور گھناؤنا الزام تراشی سے پر ہیں۔انہوں نے اخلاقیات کے نام پر تمام بدتمیزی کی حدوں کو پار کیا ہے لیکن سب کو مساوی سلوک ، حقوق اور یکساں احترام کا دم بھرنے والا ہندوستانی قانون آج تک ان لوگوں کو سزا دینے میں ناکام رہا ہے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.