پولیو ورکرز کا تحفظ

دنیا میں بہت سی مہلک بیماریاں ہیں لیکن جس بیماری کے بارے میں آج میں بات کر رہا ہوں وہ ایسی مہلک بیماری ہے جس کی وجہ سے انسان پوری زندگی کے لئے اپاہج ہو جاتا ہے او ر جس کا شکار سب سے زیادہ بچے ہوتے ہیں بچوں میں اس بیماری کی وجہ سے ان کے والدین اور بعد ازاں دوسرے گھر والے بھی پوری زندگی کے لئے مشکل میں پڑ جاتے ہیں پاکستان میں ا س بیماری کے بارے میں عوام میں آگاہی کے لئے بہت سے اقدمات اٹھائے گئے کئی دوست ممالک کی جانب سے اس بیماری کے خاتمے کے لئے فنڈز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس کے مکمل خاتمے میں تعاون کیا گیا جس کی وجہ سے اس بیماری کو ختم کرنے میں کافی مدد ملی اور امید کی جانے لگی تھی کے مستقبل قریب میں پاکستان پولیو فری اسٹیٹ بن جائے گا مگر حال ہی میں پولیو کے جو نئے کیسس سامنے آئے ہیں اورپولیو ورکروں پر جس طرح کے حملے کئے گئے اس کی وجہ سے اس کے خاتمے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بہت سے سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں دوسری طرف شر پسند عناصر یہ کھبی نہیں چاہتے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوان مٹھی بھر شدت پسندوں نے پولیو کیخلاف چلائی جانے والی مہمات کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنانا شروع کیا جس کی وجہ سے کئی پولیو ورکر ہلاک اور زخمی ہوئے اور کئی مقامات پر اس مہم کو روکنا پڑا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ خیبر پختونخواتھا یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ چند سالوں میں پولیوکیسسز سامنے آنے کی شرح باقی ملک کی نسبت سب سے زیادہ ہے دوسری طرف پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی یہی صورت حال ہے جس کی وجہ سے عالمی برادری بھی تشویش کا اظہار کر رہی ہے پولیو ورکروں پر ہونے والے ان پے در پے حملوں کے باعث عالمی ادارہ صحت نے انسداد پولیو مہم کا کنٹرول روم بند کرکے سندھ بھر میں انسداد پولیو مہم روک دی تھی۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے انسداد پولیو ٹیموں کو استعمال کرنے کے انکشاف کے بعد ملک بھر میں پولیو ٹیموں کو نشانہ بنانے کی مذموم روش عام ہوئی شمال سے شروع ہونے والی اس لہر نے جنوب میں کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا 20 جنوری سے پاکستان بھر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پولیو مہم کا آغازکیا تھا خیبر پختونخوا کے تین اضلاع پشاور، ہری پور اور چترال میں بعض وجوہ کی بناء پر پولیو سے بچاؤ کی مہم مؤخر کردی گئی مقام افسوس ہے کہ قوم کے مستقبل کو معذوری سے بچانے کے لیے گلی گلی اور گھر گھر پولیو کے قطروں کی شکل میں ویکسین پلانے والے مسیحاؤں کو بھی دن دہاڑے قتل کیاجا رہا ہے محض اڑھائی سو روپے یومیہ کی اجرت پر جان خطرے میں ڈالنے والے ان پولیو ورکرز کا قصور شاید یہ ہے کہ وہ مملکت خدا داد کو پولیو سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ آج تک پولیو ورکرز کو قتل کرنے والے ملزمان کاپتہ نہیں چل سکاعوام جاننا چاہتے ہیں کہ ان مقدمات کی فائلیں کن سرد خانوں کی زینت ہیں اور ان پر کیا کاروائی کی گئی کتنے لوگوں کو اس میں گرفتار کر کے سزائیں دی گئی ۔ اگر باریک بینی ے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پولیو ورکرز کے خلاف دہشت گردی اْس عالمی سازش کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستان کو دنیا سے لگ تھلگ کرکے دنیا میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ پاکستان پولیو کے وائرس میں مبتلا ہو گیا ہے لہٰذا کوئی وفد پاکستان کا دورہ نہ کرے اور نہ ہی پاکستانیوں کو اپنے ہاں آنے دے اس تناظر میں ناگزیر ہو چکا ہے کہ پاکستان سے پولیو کے مرض کے خاتمے کیلئے قوم متحد ہو کر جنگی بنیادوں پر کام کرے پو لیو کے خاتمے کے لیے قائم حکومتی ادارے ای پی آئی کے صوبائی سربراہ کے بقول بچوں میں جو وائرس موجود پایا گیا طبی لحاظ سے اس کا تعلق جنوبی افغانستان سے ہے سرحد پار لوگوں کی آمدو رفت کی وجہ سے یہ وائرس پاکستان منتقل ہوا ہے اور قبائلی علاقوں میں پولیو کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ان علاقوں میں امنِ عامہ کی خراب صورتحال ہے جہاں پر پولیو کے قطرے پلانے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں جن علاقوں میں مبینہ شدت پسندوں کا اثر و رسوخ قدرے زیادہ ہے وہاں پر حال ہی میں پولیو مہم نہیں چلائی جاسکتی فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ کْرم ایجنسی، شورش زدہ ضلع سوات کے بعض علاقوں، باجوڑ ایجنسی اور ضلع چارسدہ کے علاقے شب قدر میں گزشتہ مہم کے دوران چھ لاکھ کے قریب بچے پولیو کے قطرے لینے سے محروم سے رہ گئے تھے گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کے دوران پورے ملک میں پولیو کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔محکمہ صحت کے مطابق سنہ دوہزار سات کے دوران پاکستان میں پولیو وائرس کا شکار ہونے والے اکتیس بچوں میں سے گیارہ صوبہ سرحد، بارہ سندھ، سات بلوچستان اور ایک کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا تاہم اب یہ تعداد ستر تک پہنچ چکی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ دو ہزار سات میں نو سو بانوے بچے پولیو کے وائرس کا شکار ہوئے تھے جبکہ انڈیا، پاکستان، افغانستان اور نائجیریا کے علاوہ باقی تمام ممالک سے پولیو کی بیماری کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں اس بیماری کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کام کرنے والے ورکروں کے تحفظ کے لئے اقدمات اٹھائے جائیں اس کے لئے ضروری ہے کہ پولیو ورکروں کو خصوصی سیکیورٹی مہیا کی جائے ان کے معاوضوں میں اضافہ کیا جائے اور ان کو فل پروف سیکیورٹی مہیا کی جائے تاکہ وہ آزانہ طور پر بچوں کو پولیو کے قطرے پلا سکیں تب جا کر قوم کے نو نہالوں کا مستقبل محفوظ کیا جا سکتا ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227528 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More