ہماری نوجوان نسل کس راستے پر چل
پڑی ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ یہ والدین کی ڈھیل ہے یا لاپروائی ہے
یا ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی یا رسائل وجرائد یا ریڈیو اور
ٹی وی کی اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔ آج مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں
اسلام آباد کہچری جانا ہوا۔وہاں سے واپسی پر کراچی کمپنی کے بس اڈے پر ایک
عجیب منظر دیکھنے کو ملا کہ چند کم سن لڑکے لڑکیاں جو شاید میٹرک تک کے
طالب علم ہونگے، خوش گپیاں لگتے ہوئے بس سٹاپ تک آئے۔اسی گاڑی میں جہاں میں
تھا وہ تشریف لائے اور ہمارا سفر جاری ہوگیا جوکہ پنڈورہ کے سٹاپ تک کا
تھا۔اس دوران ایک نوجوان لڑکا جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہوگی مسلسل ایس
ایم ایس پر مصروف عمل رہا۔جبکہ دیگر دو سفر لڑکیاں اپنی باتوں میں مصروف
ہوگئیں مگر ان میں اسے ایک نے مڑکر عجیب سے انداز میں لڑکے کو دیکھا۔
اگرچہ دیگر سواریاں بھی مذکورہ گاڑی میں تھیں مگر وہ شاید اس تمام تر
صورتحال سے بے خبر تھے کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ دوران سفر کتنی افراتفریح
ہوتی ہے۔میں چونکہ نوجوان لڑکے کے ساتھ بیٹھا تھا تو ساری کاروائی آنکھوں
کے سامنے دیکھتا رہا۔اگرچہ کہا جاتا ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکا جائے مگر
اس سلسلے میں عرض کرتا چلوں کہ بہت سے لوگ اپنی عزت بچانے کی کوشش میں رہتے
ہیں کہ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ خیر ایک سٹاپ پر جو کہ زیرو پوائنٹ سے
قبل آیا تھا اس پر ایک لڑکی جو کہ قابل صورت اور کم سن تھی نے اترتے ہوئے
اور اتر کر گاڑی میں موجود لڑکے کو بڑی محویت سے دیکھتے ہوئے آگے نکل گئی
۔جبکہ گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوئی تو مجھے اس بات پر حیرت ہو
رہی تھی کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم سب ایسے غلط کام ہوتے ہوئے کیوں روک
نہیں سکتے ہیں۔اگرچہ میرے پاس اختیار تھا مگر بات وہی کہ پرائی لڑائی میں
اکثر اپنا نقصان ہوتا ہے اور مجھے چونکہ کہیں اور بھی جانا تھا تو اس
معاملے سے دور ہوگیا۔
حس اتفاق یہ دیکھئے کہ نیشنل بنک کے مذکورہ سٹاپ پر دیگر دو لڑکے لڑکی اتر
کر ساتھ ساتھ چلنے لگے اور باتیں کرتے ہوئے اپنی منزل کو روانہ ہوئے۔یہاں
حیرت کی ایک بات بتائوں کہ انہوں نے اپنے اپنے کرائے ادا کئے تھے،جبکہ ایک
لڑکی راستے میں اتر گئی مگر اس کا کرایہ دونوں نے ادا نہیں کیا تھا۔جب
ہماری نوجوان نسل کے پاس کرائے کے پیسے ادا کرنے کے نہیں ہیں تو پھر وہ اس
عشق معشوقی کے چکروں میں کیوں پڑے ہوئے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ نوجوان
لڑکیوں کے والدین نے بھی انکو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ وہ جو چاہے کرتی
پھریں،جس طرح ہمارے سیاستدانوں کا حساب کتاب نہیں ہوتا ہے اسی طرح کہیں بھی
پوچھ گچھ کا نظام وضع نہیں ہے۔
میری ان سطور کے ذریعے سے تمام والدین سے گذارش ہے کہ خدارا اپنی نوجوان
نسل کو تمام تر معاملات کے بارے میں اچھی طرح سے معلومات فراہم کردیں تاکہ
وہ کبھی انکی عزت کو داو پر نہ لگائیں۔ایک لڑکی کی عزت مجروح ہو جائے تو
پورا خاندان ہی متاثر ہوا کرتا ہے۔ |